تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     29-04-2023

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

امریکہ اور افغان طالبان گزشتہ 20 برسوں میں ایک دوسرے کو اپنا بدترین دشمن سمجھتے ہوئے لڑتے رہے لیکن اب وہ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف لڑنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ یہ مشترکہ دشمن انتہا پسند مذہبی تنظیم ''داعش‘‘ ہے۔ داعش اپنے خود کش جنگجوؤں کیساتھ دنیا بھر میں خصوصاً جنوبی‘ وسطی اور مغربی ایشیائی خطوں میں امریکہ اور اسکے دوست مغربی ممالک کے مفادات کو نشانہ بنا رہی ہے اور امریکہ اپنی جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاتے ہوئے اسکے سرکردہ رہنمائوں کو ڈرون حملوں کے ذریعے ختم کر رہا ہے۔امریکی حکام کا اندازہ ہے کہ یہ جنگ آنیوالے مہینوں میں تیزی اختیار کرے گی اور داعش امریکہ سے باہر امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے بعد خود امریکہ کے اندر نائن الیون کی طرز پر بڑے دہشت گردحملے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔ اب تک اس منصوبہ بندی میں داعش نے کوئی نمایاں پیش رفت حاصل نہیں کی کیونکہ داعش کی کمیونیکیشن لائن انٹر سیپٹ کرکے امریکہ اس کے بین الاقوامی نیٹ ورک کو متعدد بار تباہ کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے مگر امریکہ کو سب سے بڑی فکر یہ لاحق ہے کہ داعش افغانستان میں تیزی سے اپنی پوزیشن مضبوط بنا رہی ہے‘ اسکی وجہ افغانستان میں معیشت اور سکیورٹی کی خراب صورتحال ہے۔
افغانستان میں اقتدار سنبھالے ہوئے طالبان کو 20 ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر افغان طالبان کی حکومت کو ایک ملک نے بھی تسلیم نہیں کیا۔ بین الاقوامی برادری میں الگ تھلگ رہ جانے کی وجہ سے افغانستان کے اندرونی حالات روزبروز خراب ہو رہے ہیں۔ اس میں طالبان حکومت کی انتہا پسندانہ‘ خصوصاً عورتوں کے حقوق کے بارے میں ایسی پالیسیوں کا بھی بڑا دخل ہے جن کی اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے سخت مخالفت کی جا رہی ہے۔ داعش اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہی ہے اور وہ نوجوان خصوصاً جنوبی اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والی کالعدم تنظیموں کے رکن‘ جنہوں نے امریکہ کے خلاف جنگ کو جہاد سمجھ کر طالبان کا ساتھ دیا تھا‘ اب جنگ ختم ہونے اور طالبان کی صرف اپنے ملک میں گورننس پر توجہ دینے کی وجہ سے بددل ہو چکے ہیں اور اب طالبان پر عالمی جہاد سے دستبرداری کا الزام عائد کر رہے ہیں‘ داعش کی صفوں میں شامل ہو رہے ہیں کیونکہ داعش عالمی جہاد کی علمبردار ہے۔
اس کے مقابلے میں طالبان نے اپنی جدوجہد کو کبھی عالمی جہاد نہیں کہا۔ وہ تو صرف اپنی حکومت‘ جسے وہ ''اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ پکارتے ہیں‘ کی بحالی کیلئے بیرونی افواج کے خلاف جنگ کر رہے تھے۔ امریکہ کیساتھ ان کا صرف یہ جھگڑا تھا کہ اس نے اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر حملہ کرکے طالبان کی حکومت ختم کر دی تھی اور جب اس کی فوجیں افغانستان سے نکل گئیں اور طالبان نے کابل پر ''اماراتِ اسلامی‘‘ کا جھنڈا لہرا دیا تو امریکہ کیساتھ اس کی دشمنی ختم ہو گئی تھی۔ اختلافات باقی ہیں لیکن طالبان امریکہ کو اب اپنا دشمن نہیں سمجھتے اور افغانستان کی سرحدوں سے باہر جہادی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے قائل نہیں۔اس کے برعکس داعش عالمی جہاد کی حامی ہے اور امریکہ کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے۔ داعش کے مطابق طالبان نے امریکہ کیساتھ جنگ بندی اور صلح کرکے عالمی جہاد کے نظریے سے غداری کی ہے اور موقع پرستی کا ثبوت دیا ہے۔ اگرچہ افغانستان میں طالبان حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ داعش کی سرکوبی میں کامیاب ہو چکی ہے اور افغانستان میں اس تنظیم کا کوئی وجود نہیں مگر طالبان کی طرف سے حال ہی میں ان کے دو سرکردہ رہنمائوں کو قتل کرنے کے جو دعوے کیے گئے ہیں‘ ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں داعش نہ صرف موجود ہے بلکہ تقویت پکڑ رہی ہے۔ اگر ''The Return of the Taliban‘‘ نامی کتاب جو آئندہ چند روز میں شائع ہونے والی ہے‘کے اقتباسات پر یقین کر لیا جائے تو امریکی سراغ رساں ادارے کے مطابق افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد داعش کی کارروائیوں میں اضافہ ہوا ہے اور اگست2021ء سے اگست 2022ء تک کے عرصے کے دوران داعش نے افغانستان میں 262 دہشت گردی کی وارداتوں کا اعتراف کیا ہے۔ امریکی ایجنسی کے مطابق داعش کی افزائش کی یہی رفتار رہی تو رواں سال کے نصف تک داعش افغانستان کے 20 فیصد حصے کا کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس نئی صورتحال میں امریکہ‘ پاکستان اور چین کے درمیان اس بات پر اتفاق پیدا ہو رہا ہے کہ افغانستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کے نیشنل سکیورٹی مفادات کو اب افغان طالبان سے نہیں بلکہ داعش سے زیادہ خطرہ لاحق ہے‘ لیکن اہم مسئلہ افغان طالبان کی سخت گیر اور انتہا پسندانہ نظام پر مبنی پالیسیاں ہیں‘ جن کی وجہ سے بین الاقوامی برادری افغانستان میں طالبان حکومت کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور اس کے بغیر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری طالبان حکومت کیساتھ نہ تو پوری طرح معاشی‘ تجارتی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے پر راضی ہے اور نہ طالبان کے اربوں ڈالرز کے ان محفوظ ذخائر کو ریلیز کیا جا سکتا ہے جنہیں امریکہ نے اگست 2021ء سے روک رکھا ہے۔ان پابندیوں کی وجہ سے افغانستان کے معاشی حالات خراب ہو رہے ہیں۔ اسکے نتیجے میں حالات کو کنٹرول کرنے اور خصوصاً داعش کا قلع قمع کرنے کیلئے طالبان کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہر طرف سے طالبان پر اپنی سخت گیر پالیسیوں میں نرمی لانے پر زور دیا جا رہا ہے۔ سمرقند میں افغانستان کے ہمسایہ ممالک کی کانفرنس میں افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے طالبان حکومت پر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں اپنی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیاں لانے پر زور دیا گیا جن سے ملک کے ہر شہری‘ خواہ اس کا کسی بھی مذہب‘ نسل یا جنس سے تعلق ہو‘ کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہو۔ پاکستان اور چین اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک طرف وہ طالبان پر اعتدال پسندی کی راہ اختیار کرنے پر زور دے رہے ہیں اور دوسری طرف وہ امریکہ سے افغان ریزروز ریلیز کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ افغانستان کے ابتر معاشی حالات بہتر ہو سکیں اور داعش کے بڑھتے ہوئے خطرے کا سدباب کیا جا سکے۔ اگر بین الاقوامی برادری کی طرف سے طالبان پر دبائو کا کوئی مثبت نتیجہ نکلتا ہے اور اس کے بعد امریکہ کی جانب سے افغان ریزروز ریلیز کر دیے جاتے ہیں تو اس سے نہ صرف افغانستان بلکہ اسکے ارد گرد کے خطوں میں بھی امن‘ استحکام اور خوش حالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ پاکستان کیلئے یہ تبدیلی اس لیے بھی خاص طور پر خوش آئند ثابت ہو گی کہ اس سے ٹی ٹی پی کی دہشت گردی سے نجات حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔اس وقت ٹی ٹی پی افغانستان کے حالات سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں اپنی دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ کر رہی ہے۔ افغان طالبان ان کے خلاف کارروائیوں سے اس لیے احتراز کر رہے ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ اگر انہوں نے ٹی ٹی پی کے خلاف سخت اقدام کیے تو ان کے جنگجو داعش کی صفوں میں شامل ہو جائیں گے۔ داعش کی طرف سے طالبان پر پہلے ہی عالمی جہاد ترک کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے اور اگر پاکستان‘ امریکہ اور چین کے دبائو کے تحت طالبان سخت گیر شرعی قوانین کے نفاذ میں نرمی لاتے ہیں تو داعش کی طرف سے ان پر ''اماراتِ اسلامی افغانستان‘‘ کے منشور سے روگردانی کا الزام عائد کیا جائے گا۔ اس لیے افغانستان اور اس کے ارد گرد کے خطوں میں امن اور سلامتی کی صورتحال ایک نازک موڑ پر کھڑی ہے۔ اگر افغان طالبان اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لانے سے انکار کرتے ہیں اور دنیا میں الگ تھلگ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں تو خطے کی سلامتی خطرے میں رہے گی‘ مگر پاکستان‘ چین اور افغانستان کے دیگر ہمسایہ ممالک اس صورتحال کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved