تحریر : عمار چودھری تاریخ اشاعت     29-04-2023

بدلتے حالات

دیگر شعبوں کی طرح عالمی کساد بازاری نے رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ جدید ممالک میں بھی رئیل اسٹیٹ کا شعبہ جمود کا شکار ہے۔ یورپ میں گزشتہ گیارہ برس کے دوران رواں برس کے پہلے تین ماہ میں کم ترین‘ گیارہ فیصد سرمایہ کاری دیکھنے میں آئی جبکہ اسی تین ماہ کے دورانیے میں گزشتہ تیرہ برس کے دوران بارہ ارب ڈالر کی کم ترین ٹرانزیکشنز ریکارڈ کی گئی تھیں۔برطانیہ رئیل اسٹیٹ کی وسیع کمرشل مارکیٹ میں سرمایہ کاری کے لیے معروف ہے؛ تاہم موجودہ عالمی معاشی بحران اور سست روی نے سرمایہ کاروں کو ہاتھ کھینچنے پر مجبور کر دیا ہے۔شرحِ سود میں اضافہ ‘ کساد بازاری کا خوف‘ قوتِ خرید میں کمی و دیگر عوامل کی وجہ سے برطانیہ کی معروف ترین پراپرٹی مارکیٹ بھی تنزلی کا شکار ہے۔ یہ یورپ کا حال ہے اور پاکستان کے حالات تو ہمارے سامنے ہیں۔اگر کوئی کام یہاں مسلسل اور متواتر ہو رہا ہے تو وہ قیمتوں میں اضافے کا ہے، لیکن یہاں بھی پراپرٹی سیکٹر میں اس وقت ٹھہرائو ہے بلکہ قیمتیں کچھ نیچے آئی ہیں۔
دو‘ تین سال قبل جس تیزی سے کنسٹرکشن ہو رہی تھی اور ہر دو چار کلومیٹر بعد نئے رہائشی منصوبے اور فلیٹس تعمیر ہو رہے تھے‘ وہ سب کچھ اب ٹھپ ہو چکا ہے۔ تعمیراتی سامان اس قدر مہنگا ہو چکا ہے کہ گھر بنانا یا مکمل کرنا اب ہر کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ پہلے قیمتیں مہینوں بعد بڑھتی تھیں‘ اب صبح کو کچھ ریٹ ہوتا ہے اور شام کو کچھ۔ گھر کے گرے سٹرکچر کے لیے جو پانچ‘ سات بنیادی چیزیں درکار ہوتی ہیں‘ ان کی قیمتیں گزشتہ ایک دو برسوں میں دو گنا تک بڑھ چکی ہیں۔ سریا ایک لاکھ سے سوا تین لاکھ روپے فی ٹن تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح اینٹ بھی سولہ‘ سترہ ہزار روپے فی ہزار تک جا پہنچی ہے۔درمیانے درجے کا گھر‘ جو پچھلے سال تین ہزار روپے فی مربع فٹ کے حساب سے مکمل ہو جاتا تھا‘ اب پانچ ہزار روپے سکوائر فٹ سے بھی اوپر چلا گیا ہے؛ یعنی پانچ مرلے کا گھر جو پہلے ساٹھ‘ ستر لاکھ روپے میں بہ آسانی تعمیر ہورہا تھا‘ وہ اب سوا کروڑ روپے میں بھی مکمل نہیں ہو پا رہا۔ آپ کسی بھی نئے تعمیر شدہ علاقے میں چلے جائیں‘ آپ کو بے شمار نامکمل گھر دکھائی دیں گے۔ لا تعداد گرے سٹرکچر برائے فروخت ہیں۔ ایسے بے شمار لوگ ملیں گے جو اپنے لیے گھر بنا رہے تھے اور انہوں نے ایک منزل تو کسی نہ کسی طرح مکمل کر لی لیکن دوسری منزل کا لینٹر یا چھت ڈالنے کے پیسے ختم ہو گئے کیونکہ جب انہوں نے چھ‘ آٹھ ماہ قبل گھر کی تعمیر شروع کی تھی تب اُس وقت کی قیمتوں کو مدنظر رکھ کر پلاننگ کی تھی‘ انہیں کیا خبر تھی کہ چند ہی ماہ میں بازی پلٹ جائے گی اور بات ہاتھ سے نکل جائے گی۔
فی الوقت مارکیٹ میں پلاٹوں کے خریدار بہت کم ہیں جبکہ فروخت کرنے والے بہت زیادہ ہیں یا پھر وہ ہیں جنہیں کیش کی اشد ضرورت ہے اور وہ مارکیٹ سے کم ریٹ پر بیچنے پر مجبور ہیں کیونکہ جینوئن گاہک ہے بھی تو اس کے پاس کیش نہیں ہے۔جب سے ڈالر اور سونا مہنگا ہونا شروع ہوا ہے لوگوں نے پراپرٹی کے بجائے اس طرف سرمایہ کاری شروع کر دی ہے۔ کسی کے پاس دو‘ چار لاکھ بھی پڑا تھا تو پہلے وہ کسی نئے ہائوسنگ پروجیکٹ میں فائل خرید لیتا تھا‘ اب وہ ڈالر اور سونا خریدنے نکل پڑا ہے۔ ڈالر مارکیٹ میں پہلے ہی بلیک میں مل رہا ہے یا نایاب ہے جبکہ سونا روز بروز اوپر جا رہا ہے؛ تاہم اس میں بھی منافع جس نے کمانا تھا‘ کما لیا ہے۔ ہماری قوم ہمیشہ سے بھیڑچال کا شکا ر رہی ہے۔ یہاں چیزوں کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی جاتی اور اسی وجہ سے زیادہ تر لوگ اپنا نقصان کرا بیٹھتے ہیں۔ ابھی تک ہمارے ملک میں اکثریت کو یہ تک معلوم نہیں کہ سونا اگر خریدنا ہو تو کس شکل میں خریدنا چاہیے۔ بہت سے لوگ سرمایہ کاری کے لیے زیورات خریدتے ہیں مگر جب وہ بیچنے جاتے ہیں تو اس پر پچیس‘ تیس فیصد یا اس سے بھی زیادہ کاٹ نکل آتی ہے اور وہ روتے پیٹتے گھر آ جاتے ہیں۔سونے میں جو لوگ سرمایہ کاری کرتے ہیں‘ وہ زیورات نہیں لیتے بلکہ مختلف کمپنیوں کے چوبیس قیراط (کیرٹ) کے بسکٹ‘ بارز اور کوائن وغیرہ خریدتے ہیں جسے خالص سونا بھی کہتے ہیں۔ یہ نہ خراب ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں کوئی خاص کٹوتی ہوتی ہے؛ تاہم سونے میں سرمایہ کاری کا فائدہ تبھی ہوتا ہے جب آپ دو‘ چار سال کے لیے اسے رکھ چھوڑیں(اب یہ الگ معاملہ ہے کہ ہر سال کی زکوٰۃ نکالنے کے بعد خالص منافع کتنا ہو گا)۔
آج کل چیزیں بہت تیز ہو گئی ہیں اور سونے کی فی تولہ قیمت میں روزانہ پانچ‘ پانچ ہزار روپے فی تولہ اضافہ یا کمی بھی ہونے لگی ہے لیکن آج سے آٹھ‘ دس سال یا اس سے قبل ایسے نہیں ہوتا تھا۔ 2014ء سے 2018ء تک فی تولہ قیمت میں چند ہزار کا اضافہ ہوا تھا۔ آج کل مگر حالات بہت مختلف اور غیریقینی ہیں جس کی وجہ سے ہر قسم کے اندازے غلط ثابت ہورہے ہیں۔اسی طرح جو لوگ رہائشی منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتے ہیں وہ یہ بھی نہیں دیکھتے کہ یہ پروجیکٹ حکومتی اداروں سے منظورشدہ ہے یا نہیں۔ اب تو ایل ڈی اے اور دیگر متعلقہ محکموں نے ویب سائٹس پر منظور شدہ اور غیر منظور شدہ پروجیکٹس کا ڈیٹا مہیا کیا ہوا ہے مگر لوگ اتنی بھی زحمت نہیں کرتے کہ زندگی بھر کی جمع پونجی لگانے سے پہلے چند منٹ کی تحقیق ہی کر لیں۔ یہ سب پاکستا ن میں ہی ہوتا ہے۔ بیرونِ ملک ہر چیز پہلے ویری فائی کی جاتی ہے اور پھر ہی کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں لٹنے والوں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ جب تک لُٹنے کے لیے بیوقوف موجود ہیں‘ تب تک لوٹنے والوں کی چاندی ہوتی رہے گی۔ ہمارے ہاں اب بھی ناخواندگی کی شرح اتنی زیادہ ہے کہ ہر دوسرے روز کوئی نہ کوئی شخص کسی ڈبل شاہ کے ہاتھوں لٹ کر تھانے میں بیٹھا اپنی داستانِ غم بیان کر رہا ہوتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ لالچ ہے کیونکہ ہر کسی کو راتوں رات اپنا پیسہ دُگنا کرنا ہے اور وہ بھی بغیر کچھ کیے۔
ویسے یہ رجحان صرف پاکستان میں نہیں‘ امریکہ تو لاٹریوں اور جوئے کے حوالے سے معروف ہے۔ وہاں جان بوجھ کر انعامی رقم زیادہ اورلاٹری ٹکٹ کا انعام انتہائی کم رکھا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لالچ دے کر بہلایا پھسلایا جا سکے۔لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ جیتنے کی شرح کیا ہو گی یعنی دس لاکھ لوگ اگر ایک لاٹری ٹکٹ خریدتے ہیں اور اس کا انعام چاہے دس کروڑ روپے ہی کیوں نہ ہو‘ ملنا تو وہ ایک ہی شخص کو ہے جبکہ باقی نو لاکھ ننانوے ہزار نو سو ننانوے لوگوں کے ہاتھ کیا آئے گا؟ مگر یہ کوئی نہیں دیکھتا۔ پھر جیتنے والے کو اتنا گلیمرائز کیا جاتا ہے کہ اس کی خبریں وائرل ہو جاتی ہیں جس سے لوگ مسلسل لالچ کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ سرمایہ کاری میں اس بات کا البتہ خیال رکھا جانا چاہیے کہ تمام انڈے ایک ٹوکری میں نہ ڈالے جائیں۔ یعنی ایک ہی شعبے میں تمام پیسے نہ لگا دیے جائیں بلکہ مختلف جگہوں میں تقسیم کیے جائیں تاکہ کسی ایک جگہ بہت زیادہ نقصان کی صورت میں تمام رقم ڈوبنے کا خطرہ پیدا نہ ہو۔ کچھ لوگ مگر حد سے زیادہ لالچ کرتے ہیں اور جدھر کی ہوا ہوتی ہے‘ سب جمع پونجی ادھر لگا دیتے ہیں، پھر یہی لوگ سر پکڑے بیٹھے ہوتے ہیں۔
پچھلے دو‘ تین سال میں دنیا نے ایک خطرناک موڑ کاٹا ہے جس میں بہت سی کمپنیاں اور وہ لوگ جو آسمان پر تھے‘ زمین پر آ لگے ہیں اور جنہیں کوئی پوچھتا نہ تھا ان کے وارے نیارے ہو گئے ہیں۔ یہ قدرت کی تقسیم ہے اور وہ انسانوں کو اچھے‘ برے دنوں سے گزارتی رہتی ہے؛ تاہم لالچ اور بلاوجہ بے چین رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ خاص طور پر ان معاملات میں جن پر انسان کا اختیار نہیں، البتہ جن چیزوں پر انسان قدرت رکھتا ہے ان میں اسے بہتراور بروقت فیصلے کرنے چاہئیں تاکہ وہ زندگی کی اونچ نیچ اور بدلتے حالات میں اپنا گزر بسر کر سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved