ملک میں سیاسی گہما گہمی عروج پر ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔ ان کا کیا نتیجہ نکلے گا‘ اس بارے میں کچھ بھی مکمل یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ دریں اثنا وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ مجھے تو انتخابات اکتوبر سے پہلے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ اس بیان میں حکومتی ارادوں کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے لیکن اس حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ تحریک انصاف سپریم کورٹ کے 14مئی کو الیکشن کروانے کے فیصلے سے جو امیدیں لگائے بیٹھی تھی‘ وہ پوری نہیں ہوئی ہیں۔ اس سے پہلے 30اپریل کی تاریخ کے حوالے سے بھی تحریک انصاف کو مایوسی اٹھانا پڑی تھی لیکن کپتان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ آخری گیند تک کھیلتے ہیں۔ اب آخری گیند کون سی گی‘ اس بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ مجھے تو یہ مذاکرات بھی زیادہ فائدہ مند ثابت دکھائی نہیں دیتے۔ سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ پہلے مذاکرات نہیں ہیں۔ ماضی میں بھی ایسے کئی مذاکرات ہو چکے ہیں۔ طاہر القادری صاحب کا دھرنا ختم کرانے کے لیے بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوئے تھے۔ تحریک لبیک کا دھرنا اور احتجاج ختم کرانے کے لیے بھی مذاکرات اور تحریری معاہدے ہو چکے ہیں۔ یہ مذاکرات ماضی کی نسبت اس لیے تھوڑے مختلف ثابت ہو سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ ممکنہ طور پر اس معاہدے میں ضامن بن سکتی ہے لیکن حکومت سپریم کورٹ کو کس قدر سنجیدہ لے رہی ہے‘ اس کا اندازہ آپ حکومت کے حالیہ اقدامات سے لگا سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں مولانا فضل الرحمان مسلسل متاثر کر رہے ہیں۔ وہ شاید واحد شخصیت تھے جنہوں نے براہِ راست سب کو اپنے آئینی دائرہ کار میں رہنے کا پیغام دیا ہے۔ وہ اپنے موقف اور نظریے پر بہت واضع تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مذاکرات بھی وہ اپنی شرائط پر ہی کریں گے۔ یہ مذاکرات اگر کامیاب ہو جاتے ہیں تو وقتی طور پر سیاسی بحران ٹل سکتا ہے اور حکومت کی توجہ معیشت کو درست کرنے کی طرف جا سکتی ہے لیکن ان مذاکرات کے کامیاب ہونے کے بعد ان میں طے پانے والے معاہدے پر عمل درآمد کروانا بھی ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔ اگر پارلیمنٹ کوئی نیا قانون پاس کرکے معاہدے سے دستبردار ہونے کا راستہ نکال لیتی ہے تو شاید کوئی بھی کچھ نہیں کر سکے گا۔ ممکنہ طور پر یہ معاہدہ مزید وقت حاصل کرنے کا ایک راستہ ہو سکتا ہے۔ میری دانست میں حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جاری مذاکرات کو منگل تک ملتوی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ حکومت اور تحریک انصاف کو ہفتے کے روز ہی دوبارہ بیٹھنا چاہیے تھا۔ اس وقت ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ گوکہ یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے لیکن اس روز عام تعطیل کرنے کی کیا تُک ہے؟ مزدوروں کے حقوق سے متعلق قانون سازی کرکے بھی یہ دن منایا جا سکتا ہے۔ جس ملک کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہو وہاں آئے روز چھٹیاں سمجھ سے بالاتر ہیں۔ آنے والے دنوں میں سیاسی معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ اس بارے میں صورتحال جلد واضع ہو جائے گی لیکن اس وقت بڑا سوال یہ ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی کے گھر رات گئے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال ہونے کے بعد مذاکرات کی کوئی اہمیت باقی رہتی ہے یا نہیں؟ یقینا یہ رویے کامیاب مذاکرات کے نہیں ہیں۔ آئیے اب ایک نظر ملک کی معاشی صورتحال پر ڈالتے ہیں۔
چائنہ نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کے تحت گوادر سے کاشغر تک 58ارب ڈالرکا ریلوے لائن کا اب تک کا سب سے بڑا منصوبہ پیش کیا ہے۔ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹوکے مہنگے ترین منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹ تیار کر لی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق مجوزہ منصوبہ تجارت اور جیوپالیٹکس کو نئی شکل دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ریل لنک قدیم سِلک روڈ کنکشن کو بحال کرنے کے وسیع تر منصوبے کا حصہ ہے۔ ریل لنک چین کے مغربی تسلط والے راستوں پر تجارتی انحصار کم کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ 1860 میل طویل ریلوے سسٹم گوادر کو سنکیانگ کے شہرکاشغر سے ملائے گا۔ حکومت اور مالیاتی ادارے منصوبے کے لیے مضبوط تعاون فراہم کریں گے۔ اس منصوبے کی تکمیل کیلئے متعلقہ محکموں کے درمیان ہم آہنگی اور تعاون کو بڑھانا ہوگا۔ چین کو پاکستان سے ملانے والا ریلوے منصوبہ اب تک چین کا سب سے بڑا ٹرانسپورٹ منصوبہ ہوگا۔ اس کے علاوہ چین کی طرف سے انڈونیشیا میں جکارتہ بانڈ ونگ ہائی سپیڈ ریل لائن میں بھی مدد فراہم کی گئی ہے جو کہ ایشیا کا سب سے پہلا ہائی سپیڈ ریل سسٹم ہے جس کا افتتاح رواں سال جون میں متوقع ہے۔ جدید ترین ریل سسٹم کا یہ منصوبہ دنیا کے سب سے بڑے صنعت کاروں کو بحیرۂ عرب سے جوڑ دے گا اور مزید براہِ راست تجارتی راستے فراہم کرے گا۔ اس منصوبے میں اضافی ٹریک بنانے کا بھی امکان ہے جو چین کو ترکی اور ایران سے جوڑ ے گا۔ اس سے نمایاں طور پر خطے کے مختلف ممالک تک براہِ راست رسائی ممکن ہو سکے گی۔ تجارتی راستے بیجنگ کے وسیع تر بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کا صرف ایک جزو ہیں جو چین کو ایک عالمی سپر پاور کے طور پر مستحکم کرنے اور تجارتی شعبے می عالمی تسلط کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ یہ منصوبہ چین کے لیے تو فائدہ مند ہے ہی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پاکستان کے لیے بھی فائدہ مند ہے یا نہیں؟ ابھی سرکاری طور پر اس منصوبے کے حوالے سے کوئی خاص اعلانات نہیں کیے گئے لیکن اگر یہ منصوبہ پرانی شرائط پر ہی ہوا ہے تو پاکستان کے معاشی مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی چین کے قرضوں تلے دبا ہوا ہے اور مزید قرض لینے سے آئی ایم ایف نے منع کر رکھا ہے۔ چین سے لیے گئے پچھلے قرض بھی بہت مہنگے تھے۔ اگر چین قرض دے کر یہ منصوبہ مکمل کرنا چاہتا ہے تو پاکستان کو اس بارے سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔ اگر اس منصوبے میں صرف چین کا فائدہ ہے تو پاکستان کو اس کا خرچ برداشت نہیں کرنا چاہیے۔ ایسا ممکن ہے کہ چین اس منصوبے کو خود مکمل کرے۔ بیس سال کے لیے اس منصوبے کی ملکیت اپنے پاس رکھے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے اپنا خرچ پورا کرے۔ بیس سال بعد یہ منصوبہ پاکستان کو سونپ دیا جائے۔ پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہری دوستی کا دعویٰ اسی طرح کی ڈیل سے ہی سچ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہماری سرکار کو ماضی سے سیکھناچاہیے اور اس وقت ملک کے حق میں بہتر فیصلے کرنے چاہئیں۔
اچھی خبر یہ بھی ہے کہ وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہے کہ سستی گیس سے بجلی بنا کر مہنگی بیچنے والوں سے گیس واپس لے لی گئی ہے۔ چند کاروباری شخصیات اور کمپنیاں گیس کو صرف پیسہ بنانے کے لیے استعمال کر رہے تھیں‘ اس لیے ان سے گیس واپس لے کر عوام کو لوٹا دی گئی ہے۔ ان کے مطابق وزیراعظم کے ذہن کے اندر آگے بڑھتے پاکستان کا ایک خاکہ ہے اور وہ خاکہ یہ ہے کہ ملک کے ہر کارخانے سے دھواں اٹھ رہا ہو‘ ملک کے ہر میدان میں ہل چل رہا ہو‘ لوگ عزت کی روٹی کھا رہے ہوں‘ لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن فیکٹریوں سے گیس واپس لی گئی ہے‘ ان کے آپریشنز پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟ انڈسٹری پہلے ہی توانائی کے بحران کا شکار ہے۔ ایسے حالات میں بہت سوچ سمجھ کر فیصلے لینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ملکی جی ڈی پی اور ایکسپورٹ میں حصہ ڈالنے والی رہی سہی انڈسٹری بھی بند ہو جائے۔ مصدق ملک کے مطابق روس سے معاہدہ ہو چکا ہے اور بہت جلد پاکستان کو روسی تیل ملنے والا ہے جس سے تیل کی قیمت نیچے آئے گی اور توانائی کے فقدان کا مسئلہ بھی حل ہوگا۔ وزیراعظم نے منظوری دی ہے کہ ملک میں 10سے 14ارب ڈالر کی لاگت سے ایک ریفائنری لگائی جائے گی۔ اس پالیسی کو وزیراعظم نے منظور بھی کر دیا ہے۔ میرے خیال میں ریفائنری والا دعویٰ شاید فرطِ جذبات میں کر دیا گیا ہے۔ ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائر تسلی بخش نہیں ہیں۔ قطر پاکستان کے ایل این جی منصوبے لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں منافع اپنے ملک لے جانے سے قاصر ہیں۔ ان حالات میں چودہ ارب ڈالر کی ریفائنری لگانے کا دعویٰ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved