بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی سمجھی جاتی ہے۔ اس میں شک بھی نہیں کہ یہ براہِ راست پاکستان کی معیشت پر اثر انداز ہوتی ہے۔ ماضی میں زراعت کی وجہ سے پاکستان ہر سال کثیر زرِمبادلہ کماتا رہا ہے اور دنیا بھر میں خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کرتا رہا ہے۔ پاکستان میں چار موسم گرما‘ سرما‘ بہار اور خزاں پائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں پر پھل‘ سبزیاں‘ اناج اور خشک میوہ جات سمیت ہر قسم کی اجناس کی کاشت کثرت سے ہو سکتی ہے۔ زراعت پاکستان کی معیشت کا بنیادی ستون ہے کیونکہ مجموعی قومی پیداوار کا ایک چوتھائی حصہ زراعت کے شعبے سے ہی حاصل کیا جاتا تھا اور یہی شعبہ ہمارے ملک کی تقریباً نصف سے زائد افرادی قوت کو روزگار فراہم کرتا رہا۔ پاکستان کی اہم فصلوں میں گندم‘ چاول‘ مکئی‘ گنا‘ کپاس اور چنا وغیرہ شامل ہیں جو ربیع اور خریف کے موسم میں کاشت کی جاتی ہیں۔ چاول اور گندم پاکستان میں کثیر مقدار میں پائی جانے والی فصلوں میں شامل ہیں۔ پنجاب میں چاول کی فصل 20مئی سے لے کر 30جون تک کاشت کی جاتی ہے اور چاول کی پیداوار 50سے 60من فی ایکڑ ہوتی ہے۔ صوبہ پنجاب میں چاول کی کاشت بہت زیادہ رقبے پر کی جاتی ہے یہاں کے چاول کو دنیا بھر میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ پنجاب میں گندم کی کاشت 20 اکتوبر سے لے کر 30نومبر تک کی جاتی ہے اور اس کی پیداوار 40سے 60 من فی ایکڑ ہوتی ہے۔ پاکستان ماضی میں گندم فروخت کرکے کثیر زرِمبادلہ کماتا رہا ہے۔ پاکستان خوراک اور فصلوں کی دنیا کے سب سے بڑے پروڈیوسرز اور سپلائرز میں سے ایک ہے۔
پاکستان کی سب سے بڑی غذائی فصل گندم ہے۔ 2018ء تک پاکستان میں گندم کی پیداوار 26.3 ملین ٹن تک پہنچ گئی تھی۔ 2005ء میں پاکستان نے 21.5ملین میٹرک ٹن گندم پیدا کی جو کہ تمام افریقہ کی پیداوار‘ 20.3ملین میٹرک ٹن‘ سے زیادہ اور تقریباً تمام جنوبی امریکہ کی پیداوار‘ 24.5ملین میٹرک ٹن‘ سے زیادہ ہے۔ 2012ء میں پاکستان میں 25ملین ٹن سے زیادہ گندم کی پیداوار ہوئی تھی۔ ماضی میں پاکستان خوراک کا خالص برآمد کنندہ رہا ہے‘ سوائے کبھی کبھار‘ جب اس کی فصل خشک سالی سے بری طرح متاثر ہوتی رہی ہے۔ پاکستان چاول‘ کپاس‘ مچھلی‘ پھل (خاص طور پر نارنجی اور آم) اور سبزیاں برآمد کرتا ہے اور خوردنی تیل‘ گندم‘ دالیں اور خوراک کی دیگر اشیا درآمد کرتا ہے۔ یہ ملک ایشیا کی اونٹوں کی سب سے بڑی منڈی‘ دوسری سب سے بڑی خوردنی تیل اور گھی کی منڈی اور تیسری سب سے بڑی کپاس‘ پیاز اور دودھ کی منڈی ہے۔ پاکستان 88.7ملین ٹن گنے کی پیداوار کے ساتھ دنیا بھر میں پانچویں نمبر پر‘ 26.4ملین ٹن پیداوار کے ساتھ گندم میں آٹھویں نمبر پر‘ 9.3ملین ٹن کے ساتھ چاول کی پیداوار میں 10ویں نمبر پر‘ 10.6ملین ٹن پیداوار کے ساتھ مکئی کی پیداوار میں 20 ویں نمبر پر‘ 8.3ملین ٹن پیداوارکے ساتھ کپاس میں چوتھے نمبر پر‘ 4.6ملین ٹن آلو کی پیداوارکے ساتھ 18ویں نمبر پر‘ 2.3 ملین ٹن آم کی پیداوارکے ساتھ دنیا بھر میں 5ویں نمبر پر اور 2.1ملین ٹن پیاز کی پیداوارکے ساتھ دنیا بھر میں چھٹے نمبر سمیت دیگر زرعی مصنوعات میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
تشویشناک امر یہ ہے کہ اتنے وسیع زرعی وسائل کے باوجود پاکستان کو زرعی اجناس درآمد کرنا پڑرہی ہیں۔ پاکستان کی زرعی درآمدات اس وقت 8ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم اجناس درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔ ان درآمدات میں زیادہ تر خوردنی تیل‘ کپاس‘ گندم‘ چینی‘ چائے اور دالیں وغیرہ شامل ہیں۔ ہماری زرعی درآمدات پٹرولیم کی امپورٹس کو چھو رہی ہیں۔ اس قدر بے پناہ زرعی وسائل کے باوجود پاکستان کا زرعی شعبہ غیر پیداواری ہوتا جا رہا ہے اور ہم اپنے زرعی شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے خطے کے دیگر ممالک سمیت دنیا بھر سے بہت پیچھے ہیں۔ پاکستان کی اہم روایتی فصلوں میں گندم‘ کپاس‘ گنا اور چاول وغیرہ نمایاں ہیں۔ ایک وقت تھا جب مذکورہ فصلوں میں پاکستان خودکفیل تھا تاہم پے در پے حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث ہم ایک عرصے سے گندم‘ کپاس‘ چینی جیسی اجناس بھی درآمد کرنے پر مجبور ہیں جس پر بھاری ملکی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ زراعت کے جدید طریقے اور ٹیکنالوجی اپنا کر ان فصلوں کی فی ایکڑ پیداوار بڑھائی جا سکتی ہے نیز بنجر زمینوں کو زیرکاشت لاکر ہم نہ صرف اپنی ملکی ضروریات پوری کر سکتے ہیں بلکہ ان فصلوں/ پیداوار کو دوبارہ برآمد کرنے کی پوزیشن میں آسکتے ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 20ملین ایکڑ قابلِ کاشت بنجر زمین کو زیر کاشت لاکر نہ صرف وسیع و عریض رقبے کو زرخیز بنایا جا سکتا ہے بلکہ اس سے کسانوں کو روزگار کے مواقع بھی فراہم ہوں گے جس سے نہ صرف ملک خوشحال ہوگا بلکہ معیشت بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگی۔ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر نئے ڈیم بنانا ضروری ہے۔ ہم خوردنی تیل اور تیل کے بیجوں کی سالانہ درآمدات پر لگ بھگ 300ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کرتے ہیں۔ زرعی ملک ہونے کے باوجود پاکستان خوردنی تیل درآمد کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ خوردنی تیل اور تیل دار اجناس کی درآمد پر اس قدر کثیر سرمایہ خرچ کرنا انتہائی تشویش ناک بات ہے۔
پاکستان میں زراعت کے زوال کی مزید بھی کئی اہم وجوہات ہیں جن کا ذکر ہم اپنے اگلے کالموں میں تفصیل سے کریں گے جبکہ قومی صنعت و تجارت کے حوالے سے مفصل جائزہ لیا جائے گا۔ یوں تو ہم ہر چیز میں روایتی دشمن بھارت کا مقابلہ کرتے ہیں‘ اس میں شک کی کوئی گنجائش بھی نہیں کہ انڈیا ہمارا ازلی دشمن ہے اور ہمیں کسی بھی طرح سے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا لیکن کیا ہم صنعت و تجارت اور زراعت کے شعبوں میں بھی اپنے روایتی حریف کا مقابلہ کررہے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی اس طرف بھی توجہ دی ہے یا نہیں؟ ہم زرعی شعبے پر کتنی توجہ دے رہے ہیں اور کیا ہم اس میں بہتری کی طرف جا رہے ہیں یا تنزلی کی جانب گامزن ہیں؟ اس مقصد کے لیے پہلے ہم ہمسایہ ملک کی زراعت کا بھی سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ بھارت میں زراعت معیشت کا اہم حصہ ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ہمسایہ ملک کی زرعی صورتحال بھی ہماری طرح زبوں حالی کا شکار ہے۔ یہ کل گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 11.6 فیصد حصہ ہے جبکہ برآمدات کا12 فیصد حصہ ہے۔ کل گھریلو پیداوار میں دیکھی گئی گراوٹ کے باوجود یہ ایک اہم معاشی شعبہ ہے جس میں بھارت کی 53فیصد آبادی کو روزگار ملتا ہے جیسا کہ بھارتی حکومت کے منصوبہ بندی کمیشن نے 2014ء میں اپنی رپورٹ میں اعداد و شمار پیش کیے تھے۔ بھارت میں ملک کے ہر کونے سے کسانوں کی بدحالی کی خبر آ رہی ہے۔ پنجاب میں کپاس کے کسان تباہ ہو گئے ہیں تو مراٹھاواڑ میں کسانوں کی خود کشی کا سلسلہ رک ہی نہیں رہا ہے۔ کسان اس قدر پریشان ہیں کہ ملک کے ہر کونے سے ان کی خود کشی کی خبریں عام ہیں۔ 2011ء کے مالی سال میں بھارت میں 85.9ملین ٹن گندم اور 95.3ملین ٹن چاول کی ریکارڈ پیداوار ہوئی۔ اس سال اس پیداوار میں تقریباً 7 فیصد اضافہ ہوا۔ سال 2013ء میں ہندوستان نے 39بلین ڈالر مالیت کی زرعی مصنوعات برآمد کیں۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved