خبر سنتے ہی میں سناٹے میں آگیا۔
کل ہی گلی کے نکر والے ریستوران میں ہم سب دوست بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ سیاسی صورتحال پردھواں دار بحث ہو رہی تھی۔ نعمان بھی موجود تھا۔ ہم نے گفتگو تو اپنے پوتوں‘ نواسوں‘ پوتیوں اور نواسیوں سے شروع کی۔ کون کس کلاس میں ہے۔ کون پاکستان میں ہے‘ کون ملک سے باہر ہے۔ مگر ہوتے ہوتے‘ جیسا کہ ہر روز‘ ہر جگہ‘ پاکستان میں ہوتا ہے‘ گفتگو کا رُخ سیاست کی طرف مُڑگیا۔نعمان نے بھی اس بحث میں پورا حصہ لیا۔اس کی گفتگو سے یہ تو مترشح ہو رہا تھا کہ وہ سیاسی صورتحال سے مایوس ہے مگر ہمارے خواب و خیال میں بھی یہ نہ تھا کہ وہ ایسا انتہا پسندانہ اقدام کرے گا۔
ہم تین دوست اس کے گھر پہنچے۔وہی منظر تھا جو ایسے مواقع پر ہوتا ہے۔سا ئبان تنے ہوئے تھے۔ کرائے پر لی ہوئی کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ لوگ آرہے تھے اور جو پہلے سے بیٹھے ہوئے تھے‘ گم سم تھے۔ ہم بھی پہلے تو جا کر دوسرے لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے مگر ہم مسلسل اضطراب اور بے چینی کا شکار تھے اور جاننا چاہتے تھے کہ اصل واقعہ کیا ہوا ہے۔ ہم نے اندر پیغام بھیجا کہ بھابی سے ملنا چاہتے ہیں۔ ہمیں ایک کمرے میں لے جایا گیا جہاں تھوری دیر بعد بیگم نعمان بھی تشریف لے آئیں۔ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ گلا رندھا ہوا تھا۔ہم نے پرسہ دیا اور متقاضی ہوئے کہ اصل واقعہ یا واقعات سے آگاہ کریں کیونکہ ہم نعمان کے قریبی اور بے تکلف دوست تھے۔کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ہوئیں۔
بھائی! کیا بتاؤں ! کیا اچھے زمانے تھے جب ہم‘ ساری فیملی‘ شام کو ٹی وی پر کوئی ڈرامہ یا مزاحیہ پروگرام دیکھتے تھے۔ جب سے ملکی سیاستPolarisationکا شکار ہوئی‘ اور فریقین میں قطبین کا فرق در آیا تو نعمان بہت پریشان رہنے لگے۔ ان کی شامیں پہلے بے مزہ اور پھر بد مزہ ہونے لگیں۔عمران خان کی حکومت کے آخری ایام تھے جب ٹی وی دیکھ کر وہ چڑ چڑ ے ہونے لگے۔ معیشت ڈانواں ڈول ہو رہی تھی۔ اُس وقت کی اپوزیشن یہ تاثر دے رہی تھی جیسے اس کے پاس کوئی اسم یا طلسم ہو اور وہ عمران خان کے جاتے ہی سب کچھ ٹھیک کر دے گی۔ پھر تحریک عدم اعتماد آئی۔ جن دنوں عمران خان حکومت چھوڑ نہیں رہے تھے اور عدالتیں احکام صادر کر رہی تھیں‘ نعمان شدید عالمِ یاس میں تھے۔ پھر حکومت بدل گئی۔ مفتاح اسماعیل صاحب کو جس طرح ہٹایا گیا اور اسحاق ڈار صاحب کو جس طرح لایا گیا وہ ایک خوفناک مذاق سے کم نہیں تھا۔جو کھیل دونوں طرف سے کھیلا جا رہا تھا اس سے نعمان سخت دل برداشتہ تھے۔جو کچھ عدالتوں میں ہو رہا تھا‘ ان کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔یہ جو بنچوں کا حساب کتاب تھا وہ اسے سمجھ ہی نہیں پا رہے تھے۔ تین اور چار‘ کبھی چار اور تین‘ کبھی تین اور سات‘ یہ سب ان کے لیے عجیب سا تماشا تھا۔ کچھ معلوم نہیں ہو رہا تھا کہ الیکشن کب ہوں گے؟ ہوں گے یا نہیں ؟ کیا پہلے پنجاب میں ہوں گے؟ خیبر پختونخوا میں کب ہوں گے؟ عمران خان نے ٹکٹ بھی دے دیے جبکہ حکومتی پارٹیاں ہاتھ پر ہاتھ دھرے یوں بیٹھی تھیں جیسے الیکشن کا دور دور تک امکان نہ تھا۔
جو کچھ آئی ایم ایف کے حوالے سے قوم کے ساتھ ہو رہا تھا‘ نعمان اسے دیکھ کر اور سُن کر اور پڑھ کر سر پکڑ لیتے تھے۔ ہر روز نیا اعلان‘ نئی امید! کبھی کہا جاتا تھا کہ آئی ایم ایف کو چین اور سعودی عرب کی گارنٹی مطلوب ہے۔ پھر بتایا جاتا تھا کہ سٹاف کی سطح پر سب کچھ طے ہو گیا۔ پھر کچھ اور شرطیں نکل آتیں۔ مہینوں پر مہینے گزرتے گئے اور کچھ بھی نہ ہوا۔پھر یہ پکڑ دھکڑ! الامان و الحفیظ !! پہلے عمران خان کی حکومت نے ساری اپوزیشن کو زندانوں میں ڈال دیا۔ اب یہ حکومت وہی کام کر رہی ہے۔ اس کھیل سے نعمان سخت دل برداشتہ تھے۔کل شام کو ٹی وی پر متضاد دعوے سن کر اچانک ان کا بلڈ پریشر زیادہ ہو گیا۔ انہوں نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔ ان کا چہرا خوفناک حد تک سرخ ہو گیا۔وہ اٹھے۔ ٹی وی کے پاس گئے اور اپنا سر پورے زور سے ٹی وی کی سکرین سے ٹکرانے لگے۔ میں اور بچے انہیں پکڑنے کی کوشش کرتے رہے مگر ان میں ایک ناقابلِ بیان اور ناقابلِ یقین طاقت آگئی تھی۔ وہ اس وقت تک سر ٹکراتے رہے جب تک کہ سکرین ٹوٹ نہ گئی اور ان کا سر پھٹ نہ گیا۔ یہ منظر اتنا خوفناک تھا کہ آپ تصور ہی نہیں کر سکتے۔ ان کا بھیجا باہر نکل آیا تھا اور سکرین کے نوکیلے ٹکڑے ان کے جبڑوں‘ رخساروں اور آنکھوں میں پیوست ہو گئے تھے!
نہیں معلوم یہ واقعہ سچ ہے یا فرضی ! مگر دل پر ہاتھ رکھ کر‘ اور خدا کو حاضر و ناظر جان کر‘ اپنے آپ سے پوچھیے کہ کیا ایسی ہی صورتحال نہیں ہے ؟ کیا پوری قوم ایک انتہائی غیر یقینی صورتحال سے دو چار نہیں ؟ کیا حکومتی دعوے اور اپوزیشن کی تردید سن سن کر لوگوں کے کان پک نہیں گئے؟ عمران خان نااہل ہو رہے ہیں۔ عمران خان نا اہل نہیں ہو رہے! نواز شریف آ رہے ہیں۔ نواز شریف نہیں آرہے! الیکشن ہو رہے ہیں ! الیکشن نہیں ہو رہے!حکومت جا رہی ہے‘ حکومت نہیں جا رہی! عمران خان کال دے رہے ہیں! عمران خان کال نہیں دے رہے! عدالت میں پیش ہو رہے ہیں! عدالت میں پیش نہیں ہو رہے! حکومت امریکہ نے گرائی تھی۔ حکومت امریکہ نے نہیں گرائی تھی۔ آئی ایم ایف ہمارے کشکول میں سکے ڈال رہا ہے! آئی ایم ایف نے مزید شرائط عائد کر دی ہیں ! تحریک انصاف والے اسمبلی میں واپس آرہے ہیں۔ تحریک انصاف والے اسمبلی میں واپس نہیں آرہے! صدر صاحب دستخط کر رہے ہیں! صدر صاحب دستخط نہیں کر رہے! اپوزیشن اور حکومت میں بات چیت ہو رہی ہے! بات چیت نہیں ہو رہی!زرداری صاحب مان گئے ہیں۔ مولانا نہیں مان رہے۔ پرویز الٰہی گرفتار ہو گئے‘ پرویز الٰہی ہاتھ نہیں آئے! استعفے منظور کر لیے گئے۔ استعفے منظور نہیں کیے گئے!ہر روز یہ تماشے ہوتے ہیں۔ایک سال سے زیادہ کا عر صہ بیت چکا۔ ابھی تک اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا۔ بلکہ غور کیجیے تو اونٹ تو درمیان سے نکل ہی گیا ہے۔ کجاوے زمین پر پڑے ہیں۔ وہ جو عطا اللہ عیسیٰ خیلوی کا دردناک نغمہ ہے ''اُنٹھاں والے ٹُر جان گے‘‘ تو اونٹوں والے چلے گئے ہیں! اب تو '' دست خود دہان خود‘‘ والا معاملہ ہے۔اہلِ دیہہ کا محاورہ ہے کہ وہ ماں جا چکی جو دہی کے ساتھ روٹی دیتی تھی۔
حرام ہے جو کوئی پارٹی ملکی معیشت کے استحکام کے لیے کوئی پروگرام رکھتی ہو یا کسی نے سوچا ہو کہ یہ جو ہم گلی گلی‘ شہر شہر‘ ملک ملک‘ بھیک مانگتے ہیں‘ اس بے غیرتی سے بچنے کی کوئی سبیل ہو سکتی ہے یا نہیں؟ امور ِخارجہ پر کوئی سیاستدان‘ کیا حکومت‘ کیا اپوزیشن‘ متین گفتگو نہیں کرتا! ایک دوسرے کے لتے لے رہے ہیں۔توشہ خانے کے حمام میں ایک دوسرے کو بے لباس کر رہے ہیں! ہر روز نئے مقدمے! عدالتیں الگ پریشان ہیں کہ یہ کیسے سیاستدان ہیں جن سے حکومت چل رہی ہے نہ ڈھنگ سے اپوزیشن ہی کا کردار ادا کر رہے ہیں! صرف اور صرف ایک دوسرے کی مذمت! الزامات! جوابی الزامات! عوام کی کسی کو فکر نہیں ! ملک کا کوئی سوچتا ہی نہیں! ایسے میں بھائی نعمان اگر سر نہ پھوڑتا تو کیا کرتا!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved