جس طرح ان دنوں اداروں کی آئینی حدود پر اوپن Bashingہو رہی ہے اسی طرح سے یہ ایک اوپن آکشن تھا۔ یعنی کھلم کھلا خریدو فروخت۔ آکشن میں بکنے والے اور ضمیر منڈی کے تماش بین خریدار کھلے ڈلے سندھ ہائوس اسلام آباد اور مال روڈ لاہور کے ہوٹل میں انمول ہیروں پر دست درازی کر رہے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب PDMوالے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا کرتے تھے‘ سال تھا2022ء مہینہ اپریل کا۔
صرف ایک سال کے قلیل عرصے میں ووٹ کی عزت کا جنازہ اس دھوم سے نکلا کہ اب وہی PDMووٹ کا نام نہ لو کے نعرے پہ آگئی۔ آئی نہیں بلکہ عزت دو سے لڑھک کر نام نہ لو پر اٹک چکی ہے۔ خریدو فروخت اب بھی جاری ہے۔ اسمبلی میں ہر ووٹنگ والے دن نئے سرے سے پرانی منڈی لگتی ہے۔ جس کا تازہ ثبوت شہباز شریف کے ووٹ آف کانفیڈنس سیزن ٹو کے دوران سامنے آیا۔ تب جب فرضی پارلیمنٹ کے جعلی اپوزیشن لیڈر اور پارٹنرز کے قیمتی ہیروں کو پتا چلا کہ PDMکے وزیر اُن کو ''پشانتے‘‘بھی ہیں ''یانتے‘‘بھی ہیں۔ اس ہفتے کی طرح جو کمالات سے پُر تھا۔ سب سے بڑا کمال سپیکر آفس نے سپریم کورٹ کو طعنہ دے کر کیا جس کے تین حصے ہیں۔
طعنے کا پہلا حصہ: سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے اختیارات پہ تجاوز کررہی ہے۔ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ ہمیں کوئی ڈکٹیشن نہیں دے سکتا۔ ہم پارلیمنٹ کی بالادستی میں سپریم کورٹ کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ ڈائیلاگ سُن کر قوم کو یاد آیا کہ ابھی ایک سال پہلے ماہ اپریل میں سپریم کورٹ کا یہی بینچ آدھی رات میں بیٹھا تھا‘ یہی CJPتھے۔ PDMکے لیڈر خوشی سے چھلانگیں لگاتے‘ کلکاریاں مارتے آدھی رات کو سپریم کورٹ پہنچے۔اسی عدالت سے دل کھول کر پارلیمنٹ میں مداخلت کی بھیک مانگی اور اقتدار کے لیے روہانسے ہو کر گڑگڑاتے رہے۔
چنانچہ شہباز شریف اینڈ کمپنی کی ذاتی طور پر سپریم کورٹ کو یقین دہانی پر سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ قائم مقام سپیکر/ڈپٹی سپیکر کی رُولنگ کو عدالت مسترد کرتی ہے۔ ساتھ سپریم کورٹ نے ڈائریکشن دی‘مسترد شدہ تحریکِ عدم اعتماد کو دوبارہ سنا جائے۔ سپریم کورٹ نے صدرِ پاکستان جو آئین کے آرٹیکل 50کی رُو سے خود پارلیمنٹ کا اوّلین حصہ ہیں‘کے حکم کے بجائے پارلیمنٹ کے اجلاس کی تاریخ دے دی۔سپریم کورٹ نے سپیکر کا فیصلہ مسترد کر کے خود سپیکر کے اختیارات استعمال کیے اور لکھا‘یہ اجلاس اُن کے حکم کے مطابق تب تک جاری رہے گا جب تک مسترد شدہ تحریکِ عدم اعتماد کا فیصلہ نہیں ہوجاتا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی حکم دیا کہ سپیکر اس اجلاس کو Prorogueکرنے کا اختیار استعمال نہیں کرسکتا۔
یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں آپ PDMحکومت کے ایک ایک عہدیدار کا بیان نکال کر دیکھ لیں۔ جوفیصلے اسی بینچ کے ذریعے اُن کے حق میں جاری ہوئے‘ وہ سب حلال تھے‘لیکن آج اُسی اصولِ قانون و آئین کو جو سپریم کورٹ نے پچھلے سال وضح کیا تھا‘ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں دہرایا ہے تو پچھلے سال والا حلال اور نئے سال میں ممنوع اور مکروہ سے ہوتا ہوا حرام ڈکلیئر ہو گیا۔
طعنے کا دوسرا حصہ: سپیکر نے لکھا کہ آئین توڑنے والوں کا تحفظ سپریم کورٹ نے ہمیشہ خودکیا اور الزام پارلیمنٹ پر تھوپا جا تا رہا۔ اُوپر درج خط کا یہ حصہ اُتنا ہی مزاحیہ ہے جتنی چارلی چپلن کی خاموش کامیڈی اور اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جتنا کوے کو سفید اور دودھ کو کالا کہنا۔آیئے پارلیمنٹ کی رسوائی کی داستانِ مسلسل 1973ء کے آئین میں تلاش کریں۔ ساتھ اس سوال کا جواب بھی کہ مارشل لاء کو تحفظ ہمیشہ صرف سپریم کورٹ نے ہی دیا۔ اور کیا پارلیمنٹ بے گناہ ہے؟
آپ آئین گوگل کر لیں۔ آئیں میرے ساتھ آئین کا سفر (Transition) Chapter 7 سے شروع کرتے ہیں۔ آرٹیکل 267A، آرٹیکل 267B اور آرٹیکل 268 سامنے رکھ لیں۔ پہلے دو آرٹیکلز کا عنوان صدر کا اختیار ہے۔ جسے آئین میں موجود Difficulties دور کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ آرٹیکل 268 کے ذریعے صدر اور گورنر کو یہ اختیار دیا گیا‘ جن میں موجودہ قوانین کو Sub Article (7) کے ذریعے پچھلے سارے مارشل لائوں کے آرڈرز‘ رُولز‘ بائی لاز‘ ریگولیشنز‘ نوٹیفکیشنز شامل کر کے اُنہیں آئین کے نفاذ والے دن سے تحفظ دے دیا گیا۔ ثبوت کے لیے گزٹ آف پاکستان پارٹ ii صفحہ نمبر 2001 کو ملاحظہ کر لیں۔
طعنے کا تیسرا حصہ: آرٹیکل 266 ذیلی آرٹیکل (1)کے نیچے سارے مارشل لاء کے Proclamations صدارتی آرڈرز‘ مارشل لاء Regulations مارشل لاء Orders اور وہ سارے قوانین آئین کی چھتر چھایا تلے‘ آئین توڑنے والے ملزموں سمیت محفوظ کر دیے گئے‘ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ آئیے آئین کی زبانی آئین کی بربادی کی کہانی لفظ بہ لفظ پڑھ لیں۔
All Proclamations, President's Orders, Martial Law Regulations, Martial Law Orders and all other laws made between the twentieth day of December, one thousand nine hundred and seventy-one and the twentieth day of April, one thousand nine hundred and seventy-two (both days inclusive), are hereby declared notwithstanding any Judgment of any court, to have been validly made by competent authority and shall not be called in question in any court on any ground whatsoever.
اوپر درج آئینی عبارت میں یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ بیسویں دن ماہِ دسمبر سال1971ء اوربیسویں دن ماہِ اپریل سال 1972ء (ان دو دنوں کو شامل کر کے آئین اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ سارے قوانین جو پچھلے مارشل لائوں کے دور میں بنائے گئے تھے اُن کو مکمل طور پر تحفظ مل گیا ہے۔ اسی جگہ یہ بھی درج ہے کہ اس حوالے سے کسی بھی عدالت کاکوئی بھی فیصلہ چاہے وہ کچھ بھی ہو اُس کی پروا کیے بغیر پچھلے مارشل لائوں کے سارے قوانینValidlyیعنی درست طور پر بنائے گئے ہیں۔ساتھ یہ بھی واضح کر دیا گیا کہ ان مارشل لائوں کے قوانین مجاز اتھارٹی نے وضع کیے تھے۔ اس لیے ان قوانین کو کسی بھی گرائونڈ پر کسی بھی عدالت میں کسی صورت چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔اب یہ بھی کیا کہنے کی ضرورت باقی رہ گئی ہے کہ پارلیمنٹ نے1973ء میں آئین سازی کے وقت اپنی رسوائی کی بات متفقہ طور پر ازخود آئین میں لکھ رکھی ہے۔خیر سے ہم ایک ایسا سماج بن چکے ہیں جہاں ماہرین صرف بے تُکا بولتے ہیں یاپیٹ سے قلم گھسیٹتے ہیں۔ آئین پڑھنا تو دُور کی بات ہے کسی معمولی سی تحقیق کے جھنجھٹ میں پڑنا بھی گوارا نہیں کرتے اور ہر پیڈ کنٹینٹ پر '' میری ناقص رائے میں‘‘ لکھ کر اُسے جواز کی چڈی پہناتے ہیں۔
ایک لیکچر کے دوران ایک وکیل صاحب سوال کرنے کے نام پر کھڑے ہوئے اور لیکچر دینے کی کوشش شروع کر دی۔ جب اُنہوں نے تیسری مرتبہ اپنی ناقص رائے کا اعلان تھونپنے کی کوشش کی تو حاضرین بیک آواز بولے: ہم آپ کی ناقص رائے مزید نہیں سننا چاہتے آپ بیٹھ جائیں۔(جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved