تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     19-09-2013

حجاب

شیخِ ہجویرؒ نے کہا : علم خود ہی حجاب ہو جاتاہے ۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ جو خالق کو بھلا دیں ، ان پر خود اپنی ذات بھی آشکار نہیں رہتی ۔ لیجئے ،اقبالؔ پھر یا دآئے ۔ ؎ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں کل کے کالم میں پھر ایک بڑی غلطی ہو گئی ۔ اقبالؔ کے دو الگ الگ اشعار کے مصرعے خلط ملط کر دئیے ۔ اصل میں شعریہ تھا ۔ ؎ بھروسہ کر نہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر کہ دنیا میں فقط مردانِ حر کی آنکھ ہے بینا بیسویں صدی کے معرکے میں علامہ اقبالؔ ہی مسلم برصغیر کے سب سے بڑے فکری رہنما تھے ۔ دمِ رخصت انہوںنے خود سے سوال کیا تھا۔ ؎ نسیمے از حجاز آید کہ ناید دگر دانائے راز آید کہ ناید کہ اس فقیر کا عرصۂ حیات تو تمام ہوا۔ نسیمِ حجاز پھر سے آئے گی یا نہیں ۔ کوئی اور دانائے راز نمودار ہوگا کہ نہیں ۔ ان کا یہ مستقل موضوع ہے ۔ فارسی اوراردو کلا م میں ہر کہیں وہ جواہر بکھرے پڑے ہیں ، جو اس عنوان پر ان کے غور وفکر کا نتیجہ ہیں ۔ ؎ عمر ہا در کعبہ و بت خانہ می نالد حیات تاز بزم عشق یک دانائے راز آید بروں زمانوں تک زندگی کعبے اور بت کدوں میں روتی ہے ، تب بزمِ عشق سے ایک دانائے راز اس دنیا میں آتاہے ۔ کہا جاتاہے کہ وہ فلاں اور فلاں جرمن فلسفی سے متاثر تھے ۔ ان کامردِ مومن درحقیقت فلاں کے ’’سپر مین‘‘ کا مشرقی مظہر ہے۔ یہ بات بہت جزوی طور پر ہی درست ہے ۔ جن لوگوں نے شاعر کے کلام اور حیات کا کچھ بھی مطالعہ کیا ہے ، وہ جانتے ہیں کہ اقبالؔ کی فکر کا سرچشمہ قرآنِ کریم ہے ۔جو مغالطے پیدا ہوئے ، اس کا ایک سبب وہ خود بھی تھے ۔ سیّد ابو الاعلیٰ مودودی کے بقول ان میں فرقہ ملامتیہ کے کچھ رجحانات پائے جاتے تھے ۔ خود اپنی مذمّت میں انہیں مزا آتا۔ ؎ اقبالؔ بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا کسی موضوع پر سوچتا ہوں تو گاہے کوئی آیت ذہن میں ابھر آتی ہے یا سرکارؐ کا کوئی فرمان ۔ گاہے اقبال کا کوئی شعر۔ چاہیے تو یہ کہ دیوان سرہانے رکھا جائے یا کمپیوٹر سے مدد لی جائے ۔ سیّدنا علی بن عثمان ہجویریؒ یاد آئے ۔ کشف المحجوب میں بہت تاکید انہوں نے کی ہے کہ عصری علوم سے آدمی کو آشنا ہونا چاہیے۔ ادھر عالم یہ ہے کہ کمپیوٹر کھول تک نہیں سکتا ، جو آسان ترین ذریعہ ہے ۔ اس کی مدد سے آیات اور احادیث بھی دیکھی جا سکتی ہیں ۔ موضوع دوسرا تھا لیکن اوراق سامنے رکھے تو عزیزم بلال الرشید نے بڑے بھائی میاں محمد خالد حسین کا پیغام دیا کہ شعر نقل کرنے میں اتنی بڑی غلطی کر ڈالی؛ چنانچہ بیچ میں اپنی یہ حماقت آن پڑی ہے، حالانکہ موضوع دوسرا تھا۔ سارا وقت پشاور ہائیکورٹ کے اس فیصلے پر سوچتا رہا کہ جس میں صوبائی حکومت کو شانگلا اور دیر سے فوجی دستے نکالنے سے پہلے ضروری اقدامات کا حکم دیا گیا ۔ ان علاقوں سے فوج نے خود ہی انخلا کا فیصلہ کر لیا تھا ۔ دونوں تحصیلوں میں اس کی موجودگی برائے نام ہے ، زیادہ سے زیادہ دو اڑھائی سو جوان اور چند افسر۔ پھر وزیرِ اعلیٰ نے از خود اعلان کیوں کر دیا ؟ داد وصول کرنے کے لیے؟ اپنے اختیار کا پرچم لہرانے کے لیے ؟ ہائی کورٹ نے بجا طور پر سوال اٹھایا ہے کہ فوج اگر یوں صوبے سے واپس جاتی ہے تو ان نظر بندوں کا کیا ہوگا ، جو اس کی تحویل میں ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اور بھی بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوں گی ۔ ایک ایسی سرزمین، جو دہشت گردی کی آگ میں جل رہی ہے ، کیا اس کی متحمل ہے ؟ کل اگر پنجاب ، سندھ اوربلوچستان کے وزرائے اعلیٰ ایسے ہی احکامات صادر کریں ؟ ریاست کے مختلف اداروں میں آہنگ ہونا چاہیے۔ ملک خطرناک صورتِ حال سے دوچار ہے ۔ باہم مشورے کی ضرورت اب اور بھی زیادہ ہے ۔ پھریہ طرزِ عمل کیوں؟ باہمی اعتماد کا فقدان ؟ داد سمیٹنے کی بے تابی؟ ایک دوسرے کے بارے میں تحفظات؟ ہمیشہ سے ہماری روش یہی ہے ۔ کبھی فوجی حکمران ہم پر مسلّط رہے ، کاروبارِ حکومت تو کیا، وہ یہ چاہتے تھے کہ اپنے عقائد تک ہم ان کے افکار کی روشنی میں مرتب کریں ۔ یحییٰ خان ہوش میں کم ہی ہوتے ۔ یوں بھی رند کودوسروں سے کیا ۔ 1964ء کے بلدیاتی الیکشن میں فیلڈ مارشل ایوب خاں کے ایک احمق بریگیڈئیر نے لاہور کے کونسلروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا \"We\'ll think and you\'ll act\"۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا عسکری اسلام اور جنرل پرویز مشرف کی فوجی روشن خیالی (Enlightened Moderation)۔ جنرل شاہد عزیز نے اپنی خودنوشت میں لکھا ہے کہ رسولِ اکرمؐ کی ایک حدیث کا دو بار اس شخص نے مذاق اڑایا ’’دنیا مومن کا قید خانہ ہے‘‘ اس شخص کی کھوپڑی میں اس وقت کیسا خنّاس بھرا تھا اور جنرل شاہد عزیز ایسے لوگوں کی غیرت اس وقت کہاں تھی کہ اب روتے بسورتے ہیں ۔ سچ و ہ ہوتاہے ، جو بروقت بولا جائے ۔ بعد میں صرف معافی ہی مانگی جا سکتی ہے ۔ سول حکمرانوں کا حال بھی مختلف نہ تھا ۔ بھٹو نے ایک نیا دین الٰہی ایجاد کیا کہ دین اسلام ، معیشت سوشلسٹ اور طرزِ حکمرانی جمہوری ہوگا۔ درخت کھجور کا ، ملکیت حکومت کی اور کھانے یا بیچنے کا فیصلہ ’’عوام‘‘ کریں گے ۔ چوہدری محمد علی مرحوم کی نظامِ اسلام پارٹی نے یہ نعرہ دیا تھا ’’کارخانہ مزدور کا، کھیت کسان کا‘‘ ایک دوست نے انہیں پیغام بھیجا ’’اسی پر اکتفا کیوں؟ کھانا باورچی کا، لباس درزی کا اور بیوی نکاح خوان کی‘‘ رانا نذر الرحمن کی زیرِ اشاعت کتاب ’’صبح کرنا شام کا‘‘ میں ان واقعات کا ذکر زیادہ تفصیل کے ساتھ ہے ، کل شب جس کا مطالعہ تمام کیا۔ نواز شریف دو تہائی اکثریت سے برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے امیر المومنین بنناچاہا ۔ دستور کا کوئی بھی حصہ معطل کرنے کا اختیار مانگا۔ عملاً انہوں نے طے کر لیا کہ کاروبار وہ کریں گے یا ان کے اہلِ خاندان اور حواری ۔ دوسروں کا حق ثانوی ہے ۔ اب بھی اندازِ فکر یہی ہے ۔ جمہوریت نہیں ، یہ بادشاہت ہے ۔ اللہ مسلمانوں کو توفیق دے تو اس کی کتاب پر غور کریں ۔ مولانا فضل الرحمن نہیں ، اقبالؔ کی طرح ۔ کتاب میں یہ لکھا ہے ’’و امرھم شوریٰ بینھم‘‘ ان کے معاملات باہم مشورے سے طے پاتے ہیں ۔ قرآن کا حکم دائمی ہوتا ہے اور اپنی تما م جہات میں ۔ بیچارے فضل الرحمن تو کیا ، یہ نکتہ شیخ العرب و العجم مولانا حسین احمد مدنی پر آشکار نہ ہو سکا ۔ اقبالؔ کو انہیں یاد دلانا پڑا۔ ؎ بہ مصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست اگر با او نہ رسیدی تمام بو لہبی است دین کو پورے کا پورا ماننا ہوتاہے ۔عمل تو بعد کی بات ہے ، علم ہی کیونکر ہو ، بھید ہی کیسے کھلے ؟ اللہ اور اس کا پیمبرؐ ، اللہ اور اس کی کتاب ترجیحِ اول ہی نہیں ۔ کچھ تو مانتے ہی نہیں ، جو مانتے ہیں ، ان میں سے بعض وہی ہیں۔ وہ اتنا قرآن پڑھتے ہیں اور اتنی نمازیں پڑھتے ہیں کہ اصحابؓنہ پڑھتے تھے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا۔ زعمِ تقویٰ اور خبطِ عظمت۔ شیخِ ہجویرؒ نے کہا : علم خود ہی حجاب ہو جاتاہے ۔ اللہ کی کتاب یہ کہتی ہے کہ جو خالق کو بھلا دیں، ان پر خود اپنی ذات بھی آشکار نہیں رہتی۔ لیجئے، اقبالؔ پھر یا دآئے۔ براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved