تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     01-05-2023

مردم شماری سے جڑے مسائل

مردم شماری کسی بھی مملکت کیلئے مجموعی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے علاوہ پالیسی سازی کے عمل کو ریگولیٹ کرنے کیلئے افراد اور ہاؤسنگ یونٹس بارے آبادیاتی‘ سماجی اور اقتصادی تغیرات پہ مبنی ڈیٹا فراہم کرتی ہے۔اس لیے مردم شماری کی اہمیت مخصوص وقت میں مسلسل برپا رہنے والی تبدیلیوں کے تحت معاشرے کو مربوط رکھنے کے حوالے سے بہت اہم سمجھی جاتی ہے۔یہ صرف ڈیٹا اکٹھا کرنے کی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ معاشرے کی سماجی اور اقتصادی خصوصیات کے موازنہ کے علاوہ سوسائٹی کی جذباتی اور نفسیاتی ساخت میں توازن قائم رکھنے کی محرک بھی بنتی ہے۔یہ لازمی ہے کہ ایک جامع مردم شماری ہمیں ایسے ضروری اعداد و شمار مہیا کرے جو مختلف انتظامی یونٹس میں سماجی اور اقتصادی تبدیلیوں کی نگرانی کے علاوہ تارکینِ وطن کی تعداد اور نوعیت بارے کار آمد معلومات فراہم کرسکے۔یہ سماجی مظاہر کے مطالعہ کیلئے درکار ڈیٹا بیس مملکت کے تمام شعبوں خاص کر تعلیم‘صحت اور دفاع سے متعلق منصوبوں کی تشکیل‘ نگرانی اور تشخیص میں معاون بنتا ہے اور اسی ڈیٹا بیس کی وساطت سے اجتماعی زندگی کی خصوصیات کو سمجھنے کے ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی بدولت جدید معاشروں میں عوامی خدمات‘ مختلف انتظامی ڈویژنوں کیلئے جامع اور جدید شہری سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جاتی ہے۔ یہ ڈیٹا ان مظاہر کی درست پیمائش کو ظاہر کرے گا جن کی تحقیق کی جا رہی ہو گی جیسا کہ زرخیزی‘ شرح ٔاموات اور نقل مکانی‘جو آبادی میں اضافہ کی شرح اور مردم شماری کے بعد کی آبادی کے تخمینے کیلئے بنیادی ٹول کے طور پر استعمال ہوں گے۔
مردم شماری کا بنیادی مقصد ایک نظر میں پالیسی سازی‘ منصوبہ بندی اور حکومت کیلئے ایسے ضروری حقائق فراہم کرنا ہے جو انتظامی امور اور فیصلہ سازی کیلئے سماجی و اقتصادی پالیسیوں کی تشکیل میں سہولت دے سکیں۔ مردم شماری سیاسی نمائندگی اور جمہوری حکومت کے نظام کی بنیاد بھی بنتی ہے۔ یہ بات معروف ہے کہ آبادی کی گنتی ان لوگوں کی تعداد کا تعین کرتی ہے جو پارلیمنٹ یا الیکٹورل کالج میں اپنے طبقات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ 2023ء سے 2033ء تک پارلیمنٹ کی تشکیل کا اندازہ اس موجودہ گنتی سے لگایا جائے گا۔2017ء کی مردم شماری کے بعد سے آبادیاتی تبدیلیوں کا جائزہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی قومی اسمبلی میں کچھ نشستیں کم اور سندھ و بلوچستان کی کچھ بڑھانے کا وسیلہ بنا تھا لیکن اس کے باوجود پچھلی مردم شماری کے اعدادو شمار اس قدر متنازع نکلے کہ بہ امر مجبوری ریاست کو پانچ سال بعد ازسرِ نو مردم شماری کی حساس مشق دہرانا پڑی۔ شومیٔ قسمت کہ ہمارے نظام میں پائی جانے والی خامیوں اور گروہی کشمکش کی بدولت موجودہ مردم شماری بھی متنازع بنتی دکھائی دے رہی ہے۔کراچی سے قطع نظر خیبر پختونخوا کے ضلع ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی خانہ شماری بڑھنے اور آبادی کم ہونے کے منفی انڈیکیٹرز کے باعث مہیب تنازع اٹھ کھڑا ہوا‘جس سے سول سوسائٹی میں اضطراب کے علاوہ سابق ایم این اے داور کنڈی اور پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے بھی تشویش ظاہر کی ہے۔اس ایشو کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں مستقل سکونت رکھنے والے لاکھوں قبائلیوں نے ایک منظم مہم چلا کر تمام قبائلی خاندانوں کو مردم شماری میں اپنا اندارج وزیرستان میں کرانے کی ترغیب دی جس کے نتیجہ میں ضلع جنوبی وزیرستان کی آبادی تو چار لاکھ تک بڑھ گئی لیکن ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں فاٹا انضمام کے بعد جنڈولہ اور درازندہ تحصیلوں کے اضافہ کے باوجود 2017ء کی نسبت ایک ڈیڑھ لاکھ تک آبادی کم ہو گئی۔ مستزاد یہ کہ ایک لسانی اکائی کی طرف سے مردم شماری کے ایس او پیز کی اعلانیہ خلاف ورزی کرکے سوسائٹی میں گہری تفریق کے بیج بونے کی جسارت سے انتظامیہ کی دانستہ چشم پوشی زیادہ اذیت ناک تھی۔
حیرت انگیز طور پہ قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے علماء کرام‘ سی ایس پی افسران‘ڈاکٹرز‘ وکلاء‘سیاستدانوں‘سینیٹرز‘ ممبران اسمبلی اورتاجروں نے اجتماعی فیصلے کے ذریعے اپنے پاکستانی بھائیوں کا حق مارنے پر جس طرح اتفاق کیا یہ خطرناک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔لاریب‘فطرت انسانوں کے انفرادی گناہوں اور شخصی غلطیوں کو تو معاف کر دیتی لیکن قوموں کے اجتماعی جرائم کو کبھی معاف نہیں کرتی۔ستم بالائے ستم یہ کہ مردم شماری جیسے حساس کام کی ذمہ دار اتھارٹی کی کھلی ناکامی پہ تاحال کوئی بازپرس نہیں کی گئی۔حکام میں سے کسی نے انتظامی افسران سے نہیں پوچھا کہ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک میں مستقل سکونت رکھنے والوں کی سوفیصد آبادی نے یہاں اپنا اندراج کرانے سے انکار کرکے ریاستی قوانین اور ملکی آئین کی دانستہ نافرمانی کیوں کی؟سرکاری اتھارٹی انہیں جرم کے ارتکاب سے روکنے کے بجائے غلط کام کرنے والی کی سہولت کاری میں کیوں جُت گئی؟بلاشبہ اس حوالے سے مردم شماری کے عمل کو شفاف بنانے کے ذمہ دار افسران کا کردار نہایت متنازع رہا۔ مردم شماری کے ایس او پیز کے مطابق مستقل سکونت رکھنے والا کوئی شہری اگر اپنا اندارج متعلقہ ضلع میں کرانے سے انکار کرے تو اس کے خلاف تادیبی کاروائی عمل میں لائی جائے گی‘جس میں گھروں پہ پولیس کے چھاپے اور شناختی کارڈ کی بندش شامل ہے۔بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانے والے والدین کے شناختی کارڈ بلاک کرکے انہیں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے پہ مجبور کیا جاتا ہے حالانکہ پولیو قطرے نہ پلانا انفردی عمل ہے‘ اس سے دوسروں کے حقوق غصب ہوتے ہیں نہ معاشرہ متاثر ہوتا ہے‘جبکہ مردم شماری ایسا ہمہ جہت عمل ہے اگر اس میں کوئی ہیرا پھیری کی جائے تو پوری سوسائٹی بلکہ قومی سلامتی متاثر ہوتی ہے‘ لیکن حسب ِروایت سرکاری افسران قومی سلامتی اور معاشرے کے مجموعی مفادات کی قیمت پہ تھوڑے سے فوائد‘ کسی دباؤ کے سامنے جھکنے یا پھر سفارش پہ بخوشی پوری قوم کی بیخ کنی پر تیار ہو جاتے ہیں۔
انتظامیہ کے افسران بارے معلوم ہوا ہے کہ وہ یہاں دہائیوں سے آباد قبائلیوں کو منتیں کرتے رہے کہ وہ پورا کنبہ نہیں تو ایک آدھ فرد کے نام کا اندراج تو ڈیرہ اسماعیل خان میں کرا دیں لیکن کسی ایک خاندان نے بھی ان کی نہیں مانی‘تمام قبائلیوں نے اپنا اندراج ضم شدہ اضلاع میں کرایا۔امر واقعہ یہ ہے کہ مردم شماری میں بے قاعدگیوں اور غلط اندراج کا معاملہ محض وسائل کی تقسیم تک محدود نہیں‘محض وسائل کوئی اتنی بڑی چیز نہیں‘ویسے بھی یہاں شہریوں کو کہاں پورے حقوق ملتے ہیں؟ جتنے فنڈ اضلاع کیلئے مختص ہوں ان کا 70/80 فیصد کرپشن کی نذر ہو جاتا‘اسی طرح منفی ہتھکنڈوں سے قبائلی اضلاع کی آبادی زیادہ ظاہر کرکے اگر کچھ وسائل بڑھا بھی لیے گئے تو اس کا بڑا حصہ بدعنوانی اور بدانتظامی کی بھینٹ چڑھ جائے گا اور جو لوگ ان حقیر مفادات کیلئے پوری مملکت سے ناانصافی پہ کمربستہ ہیں ان کے حصہ میں بہت کم آئے گا‘ لیکن بڑے پیمانے کی اس اجتماعی ناانصافی سے جو نفرتیں‘تعصبات اور تفریق پیدا ہو گی اس کے اثرات ہماری نسلوں کو اجاڑ کے رکھ دیں گے۔یہ خطہ پہلے بھی فرقہ وارایت اور نسلی و لسانی تعصبات کی آگ میں جلتا رہا‘ قبائلی علاقوں میں دہشتگردی کی خونخوار لہروں نے ہزاروں انسانوں کو نگل لیا‘ہم مزید نفرت اور تفریق کے متحمل نہیں ہو سکتے‘قبائلی ہمارے بھائی ہیں‘ یہ خطہ ہم سب کا مشترکہ گھر ہے‘ ہمیں علاقائی تعصبات میں سمٹنے کے بجائے پاکستان کی وسعتوں میں ابھرنا اور اپنے پاکستانی ہونے پہ فخر کرنا چاہئے۔ ریجنل نیشنل ازم کا تعصب اور علاقائی مفادات پر غیر ضروری اصرار معاشرے کو بیمار کرکے ظلم اور بے انصافی کا گہوارا بنا لیتا ہے۔ قبائلی ڈیرہ اسماعیل خان‘ٹانک اور کراچی میں یکساں شراکت دار ہیں‘ انہیں ان خطوں کو بھی اپنے گھرکی طرح اپنانا چاہئے‘ اسی میں ان کی اپنی اور ہم سب کی بھلائی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved