ماہِ شوال میں تاریخِ اسلام کے تین معرکے قابلِ ذکر ہیں۔ دو معرکے شوال 5 ہجری میں‘ غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنوقریظہ پیش آئے اور 8ہجری میں غزوۂ حنین! غزوۂ احزاب میں کفر کی متحدہ فوجوں نے کئی دنوں تک مدینۃ النبی کا محاصرہ کیے رکھا مگر خندق کو عبور کرنے کی کوئی صورت نہیں نکل رہی تھی۔ بالآخر ایک دن قریش کے معروف جنگجو اور گھڑ سوار خندق کو عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ علامہ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ جن افراد نے اپنے گھوڑوں کی پیٹھ پر سوار ہو کر خندق عبور کی ان میں عمرو بن عبدود، عکرمہ بن ابی جہل، ہبیرہ بن ابی وہب، ضرار بن خطاب اور نوفل بن عبداللہ شامل تھے۔
خندق عبور کرنے والے یہ تمام لوگ عرب کے بہادر ترین جنگجو اور ماہر ترین شمشیر زن تھے۔ ان میں سب سے زیادہ طاقتور عمرو بن عبدود تھا، جس کے بارے میں لوگوں کا خیال تھا کہ وہ تنہا ایک ہزار جواں مردوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس کے اپنے ذہن میں بھی یہ گھمنڈ تھا کہ اب کوئی اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے گا۔ اس نے مبارزت کے لیے پکارا تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے آنحضورﷺ سے اس کے مقابلے کے لیے اذن مانگا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا: ''علی! تمہیں معلوم ہے وہ عمرو بن عبدود ہے‘‘۔ سیدنا علیؓ مقابلے کے لیے ذہنی اور جسمانی طور پر تیار تھے۔ عمرو بن عبدود کی بار بار کی ڈینگوں کے جواب میں انہوں نے بالاصرار رسولِ رحمتﷺ سے اجازت مانگی۔
اس عرصے میں عمرو بن عبدود رجزیہ اشعار بھی پڑھ رہا تھا اور مسلمانوں کا مذاق بھی اڑا رہا تھا۔ اس نے بڑی رعونت کے ساتھ کہا ''مسلمانو! تم عجیب لوگ ہو، ایک جانب تمہارا عقیدہ ہے کہ تم میں سے جو قتل ہو جائے وہ جنت میں چلا جاتا ہے اور دوسری طرف تمہاری یہ بزدلی ہے کہ میرے مقابلے کے لیے کوئی نہیں نکلتا‘‘۔ اس پر آنحضورﷺ نے سیدنا علیؓ کو مقابلے کا اذن دے دیا۔
آنحضورﷺ نے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کو اجازت مرحمت فرمائی تو اس کے ساتھ اپنی تلوار ''ذوالفقار‘‘ بھی عطا کی۔ روایات میں آتا ہے کہ آنحضورﷺ نے اپنی زرہ اور عمامہ بھی شیرِ خدا کو پہننے کے لیے عطا فرما دیا۔ حضرت علیؓ دشمن کی طرف روانہ ہوئے تو آنحضورﷺ نے اﷲ تعالیٰ سے بڑی عاجزی کے ساتھ دعا مانگی ''اے اﷲ دشمن کے مقابلے میں اس کی مدد فرما۔ پروردگار! بدر میں تو نے مجھ سے عبیدہؓ لے لیا تھا اور احد میں حمزہؓ، اب میرے بھائی کو نہ لے لینا۔ اسے دشمن پر غلبہ عطا فرمانا۔‘‘ (سیرت ابن ہشام، جلد: سوم، ص: 225 پر تفصیلات ملاحظہ کی جا سکتی ہیں)
حضرت علیؓ کبھی کسی جنگجو سے مرعوب نہیں ہوئے تھے۔ نورالدین علی بن ابراہیم الحلبی نے اپنی مشہور سیرت کی جلد دوم (صفحہ 427 پر) حضرت علیؓ کے رجزیہ اشعار لکھے ہیں جن کو پڑھ کر ایمان کی حرارت تیز ہو جاتی ہے۔
جھوٹ کے پجاری اور طاغوت کے بندے جھوٹے پندار اور زعمِ باطل میں مبتلا ہو کر سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ عمرو جنگِ بدر میں بھی آیا تھا جہاں سے شکست کی ذلت اور زخموں کی عار لے کر واپس پلٹا تھا۔ اس نے قسم کھا رکھی تھی کہ جب تک اللہ کے نبی کو قتل نہ کر دے سر میں تیل نہیں ڈالے گا۔ جب اس نے حضرت علیؓ کو اپنی طرف آتے دیکھا تو وہ انہیں پہچان نہ سکا۔ اس نے پوچھا: ''جو ان تم کون ہو؟‘‘ حضرت علیؓ نے جواب دیا ''میں علی بن ابی طالب ہوں۔‘‘ یہ سنتے ہی اس نے قہقہہ لگایا اور کہا ''بھتیجے اپنے کسی طاقتور چچا کو بھیجو۔ تم کیوں اپنی جوانی میں موت کو دعوت دے رہے ہو۔ تمہارے والد میرے دوست بھی تھے اور محسن بھی۔ اس لیے میں تمہارا خون بہانا مناسب نہیں سمجھتا‘‘۔
سیدنا علیؓ بن ابی طالب نے اس کی باتیں سکون سے سنیں، پھر فرمایا :''میں تمہارے سامنے تین باتیں پیش کرتا ہوں تم ان میں سے کوئی ایک قبول کر لو۔ پہلی بات یہ ہے کہ تم اﷲ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ‘‘۔ عمرو نے کہا: یہ دعوت تو ناقابلِ قبول ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: ''تو پھر تم واپس اپنے گھر چلے جاؤ‘‘۔ یہ سن کر عمرو نے کہا: ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ اگر میں واپس چلا جاؤں تو قریش کی عورتوں کے طعنے سنتا رہوں۔ میں تو سمجھتا ہوں کہ میری نذر پوری ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا ''اچھا پھر آ جاؤ، دو دو ہاتھ کر لیں‘‘۔
عمرو نے پھر قہقہہ لگایا اور وہی بات دہرائی کہ وہ نوجوانی میں حضرت علیؓ کو قتل کرنا نہیں چاہتا۔ حضرت علیؓ نے فرمایا :''بخدا میں تو تمہیں قتل کرنا چاہتا ہوں‘‘۔ یہ سن کر عمرو غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ وہ گھوڑے سے اتر آیا اور اس کی کونچیں کاٹ دیں پھر حضرت علیؓ کی طرف بڑھا۔ اس کی تلوار فضا میں چمکی مگر حضرت علیؓ نے اسے کمال مہارت اور پھرتی سے اپنی ڈھال پر روک لیا۔ حضرت علیؓ نے اس پر وار کیا تو وہ ان کے وار کو روک نہ سکا۔ ذوالفقار نے دشمنِ خدا کے شانے پر ایسی ضرب لگائی کہ خون کا فوارہ پھوٹ نکلا اور قریش کا سورما لڑکھڑا کر زمین پر گر گیا۔ دونوں فوجیں یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ مسلمانوں نے حضرت علیؓ کو دھڑکتے دلوں کے ساتھ دشمن کے مقابلے پر بھیجا تھا۔ جب دشمن کٹ کر گرا تو مسلمانوں نے بے ساختہ نعرۂ تکبیر بلند کیا۔
آنحضورﷺ نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر نہیں دیکھا تھا مگر نعروں کی آواز سن کر آپؐ نے فرمایا :''علی نے عمرو کا کام تمام کر دیا ہے‘‘۔ حضرت علیؓ واپس پلٹے تو آنحضورﷺ نے ان کو گلے سے لگا لیا اورپھر ان سے پوچھا: ''علی تم نے مقابلے کے وقت اپنے دل کی کیا کیفیت محسوس کی؟‘‘ انہوں نے عرض کیا ''یارسول اﷲﷺ اﷲ نے مجھے ایسی تقویت پہنچائی کہ اگر اس وقت مدینہ کی پوری آبادی کے برابر دشمنوں کی تعداد میرے مقابلے پر آ جاتی تو میں اکیلا ان کے لیے کافی تھا‘‘۔
قریش کے دوسرے سورما نوفل بن عبداﷲ کے مقابلے پر حضرت زبیر بن عوامؓ نکلے۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا اور حضرت زبیرؓ پیدل تھے۔ اس نے آپؓ پر وار کیا تو آپ طرح دے گئے۔ پھر آپؓ نے اس پر تلوار سے وار کیا اور اسے دو ٹکڑے کر دیا۔ ضرب اتنی کاری تھی کہ دشمن کے ٹکڑے کرنے کے بعد تلوار گھوڑے کی زین تک اتر گئی۔ یہ منظر دیکھ کر بھی مسلمانوں نے تکبیر کے نعرے بلند کیے اور فرطِ جذبات سے ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ حضرت زبیرؓ جب اپنی صفوں میں واپس آئے تو صحابہ کرامؓ نے ان کا استقبال کیا۔
نورالدین علی بن ابراہیم کے بقول صحابہ نے حضرت زبیرؓ سے کہا: ''اے ابوعبداﷲ ہم نے تمہاری تلوار جیسی تلوار کبھی نہیں دیکھی‘‘۔ اس کے جواب میں حضرت زبیرؓ نے فرمایا: ''برادرانِ عزیز اس میں تلوار کا کوئی کمال نہیں بلکہ تلوار کے دستے پر جو ہاتھ تھا اس ہاتھ کی قوت کا کرشمہ ہے‘‘۔ عام حالات میں ایسی گفتگو کی نہ اجازت ہے نہ یہ اہلِ ایمان کا شعار ہے مگر جنگ کی حالت میں دشمن کے مقابلے پر اپنی قوت کے اظہار اور ساتھیوں کے حوصلے بلند کرنے کے لیے ایسے کلام کی اجازت ہے۔ غزوۂ احد کے واقعات میں بھی ہم حضرت ابودجانہؓ کے اکڑ کر چلنے کا واقعہ ملتا ہے۔ اس موقع پر بھی اﷲ اور اس کے رسولﷺ نے ان کے اکڑ کر چلنے کو پسند فرمایا تھا حالانکہ عام حالات میں اکڑ کر چلنا معیوب اور ناپسندیدہ ہے۔ (السیرۃ الحلبیۃ، ج: 2، ص: 428 تا 429)
قریش کے دو جنگجو قتل ہو گئے تو باقیوں نے راہِ فرار اختیار کر لی اور خندق کو عبور کرکے واپس بھاگ گئے۔ عمرو بن عبدود کے قتل کے بعد ضرار بن خطاب اور ہبیرہ بن ابی وہب نے حضرت علیؓ پر حملہ کیا مگر انہیں جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا کہ یہ جنگجو ان کی طاقت سے زیادہ قوت کا مالک ہے۔ حضرت علیؓ اس وقت عمرو بن عبدود کے ایک وار کے نتیجے میں معمولی زخمی ہو چکے تھے‘ اس کے باوجود دشمن کو میدان سے مار بھگایا۔ اگر وہ بھاگ نہ جاتے تو وہ بھی شیرِخدا کی شمشیر برّاں کا لقمہ بن جاتے۔
روایات میں آتا ہے کہ قریش نے اپنے مقتولین کی میتیں واپس مانگ لیں۔ عمرو بن عبدود کی میت کے لیے تو انہوں نے دس ہزار درہم ادا کرنے کا وعدہ بھی کیا مگر آنحضورﷺ نے فرمایا :''ہم میتوں کے تاجر نہیں ہیں، یہ ناپاک جسم بغیر کسی قیمت کے ان کے حوالے کر دیے جائیں‘‘۔ چنانچہ دونوں مقتولین کی میتیں دشمنوں کے سپرد کر دی گئیں۔
اپنے بہادر ترین شہسواروں کے قتل پر قریش اور ان کے اتحادی خاصے بددل اور مایوس ہو گئے تھے مگر ابھی تک انہوں نے واپسی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ وہ اس خیال میں تھے کہ کسی نہ کسی طرح مدینہ پر فتح پا لیں اور خوب تاخت و تاراج کریں۔ مسلمان سخت مشکلات کا شکار تھے۔ شدید سردی بھی تھی اور ہر جانب سے دشمن کا محاصرہ بھی۔ اس پر مستزاد فقر و فاقہ اور بھوک و افلاس کی آزمائش! اس دوران میں قریش کو بھی راشن کی کمی درپیش تھی مگر یہودی ان کی مدد کے لیے خوراک اور غلہ بھیجتے رہتے تھے۔ اسی طرح کا ایک قافلہ جو بیس اونٹوں پر غلہ لاد کر قریش کے خیموں کی طرف جا رہا تھا کہ مسلمانوں کے ہاتھ لگ گیا۔ یہ مالِ غنیمت آنحضورﷺ کی خدمت میں لا کر پیش کیا گیا تو آپﷺ نے اسے اہلِ مدینہ اور مجاہدین کے درمیان تقسیم کر دیا۔
اللہ نے دشمنوں پر ایسا طوفان بھیجا کہ وہ ناکام ونامراد ہوکر بھاگ گئے۔ حضور کریمﷺ نے فرمایا: اب قریش کبھی مدینہ کا رخ نہ کرسکیں گے۔ اب مدینہ مکہ پر چڑھائی کرے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved