تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     02-05-2023

مُغلوں کی شکست اور انگریزوں کی فتح کے اسباب… (2)

نذیر الدین خان نے اپنی بیشتر عمر سمندروں میں سفر کرتے گزاری اور بحری جہازوں کے سب سے بڑے افسر (کپتان) کے درجہ تک پہنچے۔ جتنی بھی فرصت ملی اُس کا مصرف مطالعہ سے بہتر اور کیا ہو سکتا تھا؟ عزیز الدین کی تحقیق کا مرکزی نکتہ ایک ہی تھا‘ برصغیر پاک و ہند انگریزوں کے زیرِ تسلط کس طرح آیا؟ اس موضوع پر اُنہوں نے ایک بڑی تجزیاتی اور حیرت انگیز کتاب لکھی اور اُس کا نام رکھا: پہلا پتھر۔ آج آپ اس موضوع پر کالم کی دوسری قسط پڑھیں گے۔
''مسلمانوں نے ہندوستان کی طرح ہسپانیہ (Spain) کو بھی فتح کیا تھا اور وہاں بھی آٹھ سو برس تک بڑی شان و شوکت سے حکومت کی تھی، لیکن پھر کیا ہوا؟ آج وہاں ہمارے اسلاف کی قبروں کا نام و نشان تک نہیں۔ وہاں بھی مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ تاریخ کے صفحات میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ وہی کردار کی دیمک‘ جو ہسپانیہ یعنی سپین کی عظمتِ رفتہ کو چاٹ کر کھا گئی‘ وہی دیمک ہندوستان کے مسلمانوں کی عظمتِ رفتہ کو بھی چاٹتی چلی گئی۔ لیکن آج تک کسی میں اتنی اخلاقی جرأت پیدا نہ ہوئی کہ وہ قومی کردار میں لگی اس دیمک کی نشان دہی کرتا۔ انگریز نے ہندوستان کا اقتدار محض عسکری فتح کے ذریعہ حاصل نہ کیا تھا اور نہ انگریز کی غلامی میں عوام کا کوئی عمل دخل تھا اور نہ ہی عوام کو انتقالِ اقتدار کے عمل میں کسی قسم کی دلچسپی تھی۔ انگریز کو کسی سطح پر بھی ہندوستان کے عوام کی طرف سے کسی بھی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑا۔ ماسوائے چند ایک آدھ بار‘ جب باسی کڑھی میں اُبال آیا۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ برصغیر کے عوام ہر دور میں اقتدار کی چھینا جھپٹی سے دُور اور لاتعلق رہے تھے۔ عوام کو صرف مسندِ اقتدار پر بیٹھے ہوئے شخص (یا اشخاص) سے غرض ہوتی تھی۔ قطع نظر اس سے کہ کون اقتدار پر قابض ہے‘ کون نہیں۔ اور نہ ہی اُن کے اذہان میں اقتدارِ اعلیٰ کے لیے کوئی اعلیٰ و ارفع کا معیار مقرر تھا۔ ان کا مقصدِ جہاں توصرف دو وقت کی روٹی کا حصول تھا۔ ان کا معاشرت اور سیاست سے قطعی کوئی تعلق یا واسطہ نہ تھا۔ بہت قلیل تعداد حکمرانوں اور اُمرا کی تھی جو ہر دم عیش و عشرت میں پڑے رہتے۔ عوام کی حیثیت ان کے نزدیک بھیڑ بکریوں یا کولہو میں جُتے ہوئے بیلوں کی طرح تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی حقوق کا موہوم تصور تک یہاں نہ پایا جاتا تھا اور نہ ہی عوام کو اپنے حقوق کا ذرہ بھر احساس تھا۔ انگریز کی غلامی سے پہلے مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ اقتدار کی تاریخ میں برائے نام بھی کوئی ایک مفکر‘ مدبر اور راہ نما پیدا نہ ہوا جس نے قوم کو آگہی اور شعور بخشا ہو۔ نہ ہی ان 800 سالوں میں سیاسی اور معاشرتی علوم پر کوئی ایک کتاب ہی لکھی گئی۔ تمام تر معاشرت اور سیاست اُمرا کے مخصوص طبقہ کے گرد گھومتی رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہر سُوجمود اور سکوت تھا۔ لکیر کی فقیری کی روش پر چلنے کی روایت پختہ تر ہوتی چلی گئی۔ عوام اپنے حقوق کے حصول کے مقصد سے محروم ہوتے چلے گئے۔ وہ آزادی اور اور انسانی حقوق کے تصورات سے بھی محروم ہوتے چلے گئے۔ اقتدار کی راہداریوں میں محلاتی سازشیں چلتی رہیں‘ اقتدار کی مسند ایک غاصب کی جگہ دُوسرا غاصب لے لیتا لیکن عوام بالکل بے تعلق اور دو وقت کی روٹی کے لیے سرگرداں رہتے۔ عوام کے ذہن تو صدیوں سے غلامی قبول کر چکے تھے۔ پہلے وسطی ایشیا‘ افغان جنگجوئوں اور مغلوں کی رعایا تھے اور اب انگریزوں کی رعایا بن گئے۔ انگریز کے جانے کے بعد اپنے ہی رنگ کے دیسی سول اور عسکری حکمرانوں کے غلام بن گئے۔ یہی سبب ہے کہ عوامی سطح پر انگریز کے خلاف مدافعت نہیں ہوئی۔
کڑوی سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کے تمام باشندوں نے انگریز کی غلامی کو صدقِ دل سے قبول کر لیا اور دو سو سال تک تابع فرمان اور فرمانبردار رعایا بنے رہے۔ 1757 ء میں جب انگریزوں نے پلاسی کے میدان میں مغل صوبیدار سراج الدولہ کو شکست دی تو اس وقت دہلی کے تخت پر مغل بادشاہ عالمگیر شاہ ثانی براجمان تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک کلرک (رابرٹ کلائیو) کے تین ہزار سپاہیوں نے بنگال کے نواب سراج الدولہ کی 50 ہزار فوج کو شکست دی تھی۔ مغل صوبیدار کے خلاف جنگ کرنا مغل سلطنت کے خلاف جنگ کرنے کے مترادف تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس جرم کی پاداش میں مغل بادشاہ انگریزوں کو عبرت ناک سزا دیتا مگر مغل بادشاہ نے اس انگریز کلرک کی تعریف کرتے ہوئے اسے صوبہ بنگال کا اقتدار سونپ دیا۔ یہاں ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے میں حق بجانب ہوں گے کہ سراج الدولہ کے خلاف انگریزوں کو مغل بادشاہ کی پشت پناہی حاصل رہی۔ وگرنہ چند ہزار انگریزوں کی کیا مجال تھی کہ وہ مغل سلطنت کے خلاف جنگ کرتے اور جیت بھی جاتے۔ خود فریبی کی دنیا میں سوئے ہوئے خودساختہ دانشور قوم کو فریب کی لوریاں سناتے ہوئے کہیں گے کہ سراج الدولہ کو تو غداروں نے مروایا۔ اگر میر جعفر جیسے مہرے غداری نہ کرتے تو اس جنگ میں کبھی شکست نہ ہوتی اور ہم کبھی انگریزوں کے غلام نہ بنتے۔ یہ درست ہو گا مگر کبھی کسی نے یہ نہ سوچا اور نہ ہمیں بتایا کہ غداری کا بنیادی سبب معاشرے میں عدل و انصاف کا فقدان ہوتا ہے اور عدل مثبت سیاسی نظام کے بغیر کبھی قائم نہیں ہو سکتا۔ برصغیر میں سیاسی ارتقا کبھی ہو ہی نہیں پایا۔ جہاں ہر دور میں طوائف الملوکی کا دور دورہ رہا ہو‘وہاں مستحکم سیاسی نظام قائم نہیں ہو سکتا اور جہاں کوئی سیاسی نظام سرے سے موجود ہی نہ ہو وہاں سیاسی ارتقا کیونکر ممکن ہے؟
جب انگریزوں نے مغل صوبیدار سراج الدولہ کو شکست دے کر قتل کر دیا تو ہندوستانی فرمانروا نے انگریز بہادر کی پیٹھ تھپک کر خوب شاباش دی اور اس نے بنگال کی سونا اُگلتی ہوئی بے حد خوشحال ریاست کی تحویل داری شاہی فرمان کے ذریعہ انگریز کو بخش دی۔ کمپنی کے کلرک رابرٹ کلائیو نے بنگال کے حکمرانوں کا صدیوں کا جمع کردہ خزانہ سمندری جہازوں میں لدوا کر لندن پہنچا دیا۔ پلاسی کی شکست کے شرمناک سانحے کو ابھی سات سال بھی نہ گزرے تھے کہ 1764 ء میں اگلے بادشاہ (جو شہنشاہ کہلاتا تھا) نے بکسرمیں تاریخ کی بدترین اور شرمناک شکست کھانے کے بعد انگریز کے قدموں پر سر رکھ کر اپنی جان کی امان پائی اور اپنی قوم کی غلامی کی بھیک مانگی۔ یہ بادشاہ تھا شاہ عالم؛ وہی شاہ عالم جو ولی عہد مقرر کیے جانے کے باوجود اقتدار کی ہوس میں اس حد تک پاگل ہو گیا کہ اس نے وزیراعظم کیساتھ سازش کر کے اپنے سگے باپ کو قتل کرادیا اور خود اقتدار پر قابض ہو گیا۔ ان حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان میں سب سے بڑے دو غدار یہ دو مغل بادشاہ تھے۔
اب ہم چند قدم پیچھے جا کر سولہویں صدی کے ہندوستان پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 1526 ء میں جب بابر ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اس سے قبل پرتگیزی مہم جو 'واسکوڈے گاما‘ ہندوستان پہنچ چکا تھا۔ گوا اور مالا بار کے ساحلوں پر بغیر کسی مداخلت کے پرتگیزی قابض ہونے لگے تھے۔ پرتگیزی گورنر البوقرق بھی وارد ہو چکا تھا۔ یہ آغاز تھا یورپ کی بالادستی کا۔ بابر کے بعد اس کے نااہل جانشین ہمایوں کو وسیع و عریض سلطنت باپ کی جاگیرکے طور پر مل گئی۔ شراب جب بے اثر ہونے لگی تو وہ افیون چاٹنے لگا۔ بہار کی ایک چھوٹی سی ریاست کا بہادر جاگیردار شیر شاہ سوری ہمایوں کو شکست دے کر اقتدار پر قابض ہو گیا۔ اُس نے چند سالہ حکومت میں کمال کے کام کیے۔ عدل و انصاف اور کسانوں سے مالیہ کی وصولی کا نہایت قابلِ تعریف نظام قائم کیا۔ اس نے جاگیرداری کی لعنت ختم کر کے تنخواہ دار فوج بنائی۔ ہندوستان کی بدنصیبی کہ صرف پانچ سال کی حکومت کے بعد شیر شاہ ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا اور اس کا بیٹا سلیم شاہ سوری سلطنت کو نہ سنبھال سکا اور اقتدار دوبارہ عیش پرست حکمرانوں کو مل گیا۔
آیئے اب ہم ہندوستان کے ساحلوں اور سمندروںکو دیکھیں جہاں پرتگیزی بحری قزاق بحیرۂ ہند پر اپنا تسلط قائم کر رہے تھے۔ اُنہوں نے چند جہازوں سے سارے سمندر اور ساحلی مقامات پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی تھی۔ مغل بادشاہ پرتگالیوں کی جدید بندوقوں اور دُور مار آتشیں توپوں سے خوف زدہ ہو کر ان سے صلح کرنے پر مجبور ہو گئے۔ 1600ء میں جب اکبر خاندیش کے قلعے کو اپنی فرسودہ توپوں سے فتح کرنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا تو اس نے پرتگالیوں سے درخواست کی کہ وہ اسے اپنا برتر توپ خانہ دے دیں لیکن اُنہوں نے انکار کر دیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved