ترک‘ پاکستانیوں سے زیادہ پاکستان کے لیے پریشان ہیں۔وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اس لیے پریشان ہیں کہ انہیں ترکی پہنچ کر پتا چلا کہ آرمی چیف جنرل کیانی نے بیان دیا ہے کہ دہشت گردوں کی شرائط کسی صورت نہیں مانی جائیں گی۔ تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ چند روز قبل مذاکرات کا جو ڈھنڈورا پیٹا گیا تھا وہ بالآخر اپنے انجام کو پہنچ گیا ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ مذاکرات سے پہلے ان کے گرفتار ساتھی رہا کیے جائیں اور فوج کو فاٹا سے بلایا جائے۔ اس دوران طالبان نے سوات میں فوجی افسران کو مار ڈالا۔ جنرل کیانی کہتے ہیں کہ یہ کسی صورت نہیں ہوگا۔ یہ کسی کو علم نہیں ہے کہ جنرل کیانی نے طالبان کی شرائط مسترد کرنے کا بیان دینے سے پہلے سیاسی حکومت کو اعتماد میں لیا تھا ؟ شاید سیاسی حکومت کو علم نہیں ہے کہ فوج کے اندر سے جنرل کیانی پر دبائو ہے کہ جو لوگ ان کے جرنیلوں کو مار رہے ہیں وہ کیسے ان کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ سکتے ہیں ۔ اس دبائو کا نتیجہ جنرل کیانی کے سخت بیان کی شکل میں نکلا اور میدان جنگ میں موجود فوجی کو پتہ چلا کہ ان کا کمانڈر واضح پیغام بھیج رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں کیا ہونے والا ہے۔ ترکوں کی پریشانی اپنی جگہ لیکن اگر پریشان نہیں ہیں تو ہم نہیں ہیں ۔ کبھی ہمارے کالم نگار اور دانشور دنیا بھر میں دعویٰ کرتے تھے کہ ہماری ایجنسیوں نے روس جیسی سپر پاور کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ہے‘ ان کاکوئی جواب نہیں! اخبارات میں ان کی شان میں قصیدے لکھے گئے۔ آج انہی ایجنسیوں کو ترکی نے پیشکش کی ہے کہ آپ اپنے اہلکاروں کو ہمارے پاس بھیجیں‘ ہم انہیں تربیت دیں گے کہ انٹیلی جنس کا کام کیسے کرنا ہے تاکہ آپ اپنے ملک میں دہشت گردی پر قابو پاسکیں۔ گویا جنہوں نے روس کو جھکایا تھا آج وہ خود ترکی سے سیکھیں گے کہ اپنے ملک میں جاسوسی کا نیٹ ورک کیسے بہتر ہوسکتا ہے ۔ کہنے کو تو کہا جا سکتا ہے کہ ایک دوسرے کے تجربات سے سیکھنے کا عمل جاری رہتا ہے۔ اگر ترکی کے پاس بہتر ٹیکنالوجی ہے تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ ان برسوںمیں ہماری حالت اتنی بری کیوں ہوگئی ہے؟ ہم اس سطح پر کیوں نہ پہنچ سکے کہ دنیا بھر کو ہم پیشکش کرسکتے کہ آپ ہمارے ہاں آئیں‘ ہم آپ کو انٹیلی جنس کا کام سمجھائیں گے۔ جنرل مشرف دور میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تباہی اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ انہیں سیاسی جماعتیں بنانے کے کام پر لگا دیا گیا اور اس میں انہوں نے ایسی مہارت حاصل کی کہ اپنا کام بھول گئیں۔ دہشت گردوں نے جی ایچ کیو پر حملہ کر دیا اور انہیں پتا بھی نہیں چلا۔ تاہم ترکی میں سب کو یہ سوال پریشان کر رہا ہے کہ مذاکرات کا کیا بنے گا؟ جب میں نے یہی سوال شہباز شریف سے انقرہ میں کیا تو انہوں نے واضح انداز میں یہ نہیں کہا کہ چاہے کچھ بھی ہو طالبان سے مذاکرات جاری رہیں گے بلکہ یہ کہا چونکہ طالبان نے فوجی افسران کو مارنے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے لہٰذا ان مذاکرات کے بارے میں سوال وزارت داخلہ سے کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ لگتا ہے حکومت کو اندازہ ہوگیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کرنا اتنا آسان کام نہیں رہا۔ میرے ایک بھائی جیسے کالم نگار دوست ناراض ہیں کہ میں نے مذاکرات کے حوالے سے اپنی رائے کیوں دی ہے۔ کیا اب یہ طے ہوچکا ہے کہ چند کالم نگار اور صحافی جو طالبان سے مذاکرات کے لیے فضا ہموار کرتے ہیں‘ کوئی دوسرا اگر ان کی رائے سے اختلات کی جرأت کرے تو اسے طعنے ملنے شروع ہوجائیں گے اور اس کے لیے وہ ہر سطح پر جانے کو تیار ہوں گے؟ اور کچھ نہ ملا تو میرے دوست نے لکھ دیا کہ ہم تو صحافت کے نام پر چین جاتے ہیں، ترکی جاتے ہیں اور ہمیں زمینی حقائق کا علم نہیں ہے اور یہ کہ ہم وزیرستان نہیں جاتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا میرے دوست دنیا کے جن معاملات پر لکھتے رہتے ہیں کیا وہ وہاں جاکر حالات کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر لکھتے ہیں؟ میرے دوست نے کمال طعنہ دیا ہے۔ میرا خیال ہے ان کا طعنہ مناسب نہیں ہے کیونکہ دنیا بھر کے صحافی اپنے پیشہ ورانہ فرائض کے لیے ہر جگہ جاتے ہیں اور جانا بھی چاہیے۔ اگر میرے اس دوست کو میرا چین اور ترکی اپنے ادارے کے خرچ پر جانا اچھا نہیں لگتا تو انہیں امریکہ کے فنڈ سے چلنے والی مشہور زمانہ این جی او کے خرچ پر بنکاک سکیورٹی کانفرنس کے نام پر سیر سپاٹے کے لیے بھی نہیں جانا چاہیے تھا۔ جو لوگ وہاں ان کے ساتھ شریک تھے انہوں نے پختونوں کو تباہ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ آج کل وہی حضرات ریٹائرمنٹ کے بعد پیس میکر (Peace maker)بن چکے ہیں۔ مجھے کبھی شوق نہیں رہا کہ میں فوجی جرنیلوں سے لے کر وزیراعظم کو جا کر مشورے دوں‘ نہ میں نے کبھی گھنٹوں فوجی جرنیلوں کی بریفنگ میں بیٹھ کر انہیںطویل مشورے دیے ہیں۔ مجھے ڈیل میکر (Deal maker)بننے کا شوق نہیں کہ یہ صحافیوں کا کام ہی نہیں ہے ۔ میرے اس دوست کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کے پختونوں کو خطے کی کون سی طاقتیں استعمال کرتی رہی ہیں۔ جنہوں نے اپنے بچے امریکہ اور برطانیہ میں پڑھائے تھے وہ میرے اس دوست کو بندوق تھما کر افغانستان لڑنے بھیج رہے تھے۔ عجیب بات ہے کہ جب یہ چاہیں جنگ شروع کردیں اور جب چاہیں امن کی بات کریں اور ہمیں اپنی رائے دینے کی اجازت بھی نہیں ہے۔ کیا صرف پختونوں پر اس جنگ نے اثرات چھوڑے ہیں؟ صرف پختون صحافی اس بارے میں رائے دے سکتا ہے؟ کیا پنجاب اور دیگر علاقوں کے لوگ اس جنگ سے تباہ نہیں ہوئے کہ اب اپنی رائے تک نہیں دے سکتے؟ کیا جنگ لڑنے سے لے کر اس خطے میں تباہی کے بعد اب ہماری رائے کا اختیار بھی انہوں نے اپنے پاس رکھ لیا ہے ؟ کیا ہم سے پوچھ کر یہ سب کھیل کھیلا گیا تھا۔ میرے یہ دوست جو میرے اپنے گروپ کے خرچ پر چین جانے پر ناراض ہیں۔ کیا میرا دوست بتائے گا کہ جب یہ بندوق لے کر افغانستان میں جنگ لڑرہا تھا‘ جس سے اس خطے میں تباہی آئی‘ کیا وہ اس وقت غلط تھا یا آج غلط ہے؟ کیا طالبان کو میں نے پیغام بھیجا تھا کہ وہ ہمارے فوجی افسران پر حملہ کریں اور پھر ذمہ داری قبول کریں یا پھر جنرل کیانی نے ترکی میں مجھے فون کیا تھا کہ میں بیان دینا چاہتا ہوں کہ وہ دہشت گردوں کی شرائط نہیں مانیں گے؟ میں تو عمر بھر جنرل مشرف سے لے کرجنرل کیانی تک کبھی کسی سے نہیںملا اور نہ ہی شوق ہے۔ جو جنرل کیانی کو مشورے دیتے ہیں انہی کو جنرل کیانی سے ناراض ہونا چاہیے کہ انہوں نے یہ بیان دے کر کیوں ان کے خوابوں کو توڑا ہے۔ میں اپنے دوستوں کو یقین دلاتا ہوں کہ طالبان کے فوجی افسران کو قتل کرنے کی ذمہ داری قبول کرنے سے لے کر جنرل کیانی کے جوابی بیان تک میرا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ اس لیے امید کرتا ہوں کہ اس کا نزلہ وہ میرے اوپر نہیں گرائیں گے۔ بہتر ہوگا میرے چین اور ترکی جانے پر اعتراض کرنے والے ذاتی دوست اور کالم نگار پہلے یہ فیصلہ کر لیں کہ وہ طالبان‘ حکومت اور فوج کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں پیس میکر (Peace maker) بننا چاہتے ہیں یا پھر ڈیل میکر (Deal maker) تاکہ پوری قوم ان کے اس بے پناہ کریڈٹ کو سنہری حروف میں لکھ رکھے اور ہماری آنے والی نسلیں ان کی شکر گزار رہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved