دبئی کی رات ڈھل رہی تھی اور ابن بطوطہ شاپنگ مال کی دکانیں اب بند ہو رہی تھیں۔ ہم مال سے باہر نکلے تو مارچ کی تازہ ہوا نے ہمارا استقبال کیا۔ مال سے اپارٹمنٹ پانچ سات منٹ کی واک تھی۔ مَینا نے کہا :کل صبح ہم ابو ظہبی جائیں گے جہاں لوو (Louver) آرٹ میوزیم ہے۔ یہ میوزیم اپنے فنِ تعمیر اور نوادرات کی وجہ سے سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ یہاں پر مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کے آرٹ کے نمونے رکھے گئے ہیں۔ مَینانے کہا: آپ کو میوزیم یقینا پسند آئے گا‘ یہاں آپ کو آرٹ کے شاہکار نظر آئیں۔ آپ کی آرٹ سے دلچسپی دیکھتے ہوئے میں نے سوچا آپ کو ابوظہبی کا Louver Museum ضرور پسند آئے گا۔ میں نے کہا: ہم ابو ظہبی کیسے جائیں گے؟ مَینا بولی گاڑی پر اور گاڑی میں خود چلاؤں گی۔ اس کی بات سن کر میں ہنس پڑا۔ اب وہ بولی: آپ بالکل نہیں گھبرائیں میں بہت اچھی ڈرائیور ہوں۔ وہ صحیح کہہ رہی تھی۔ ڈرائیونگ اس نے اس وقت سیکھی تھی جب وہ کالج میں پڑھ رہی تھی۔ ہم کراچی میں ملیر کینٹ میں رہتے تھے۔ کہتے ہیں آپ جتنی کم عمری میں ڈرائیونگ شروع کریں اتنے ہی پُر اعتماد ڈرائیور ہوتے ہیں۔ سو طے ہوا کہ اگلے روز صبح نو بجے ہم ابوظہبی کے لیے روانہ ہوں گے۔
رات تھکن کی وجہ سے خوب نیند آئی۔ اگلے روز ہمیشہ کی طرح میں جلدی جاگ گیا۔ تیار ہو کر کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آیا تو دیکھا مَینا ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھی تھی اور اس کا منہ لٹکا ہوا تھا۔ وہ مجھے دیکھتے ہی بولی:ایک مسئلہ ہو گیا ہے۔ میں نے کہا :خیریت ہے؟ وہ بولی: میں نے ابھی گوگل پر چیک کیا تو پتہ چلا کہ میوزیم ہر پیر کو بند ہوتا ہے اور آج پیر کا دن ہے۔اس نے کہا: ہمیں پہلے چیک کر لینا چاہیے تھا۔ میں نے کہا: تو کوئی بات نہیں‘ میوزیم جانا شاید ہماری قسمت میں نہیں تھا‘ چلیں میوزیم نہ سہی کسی اور جگہ چلے جائیں گے۔فی الحال تو چائے پیتے ہیں۔ ہم چائے پی رہے تھے کہ کھڑکی پر بارش کی آواز سنائی دی میں نے پردہ ہٹایا تو باہر بارش کی پھوار شروع ہو گئی تھی۔ چائے کے دوران مَینا کا شوہر طارق بھی آگیا ‘وہ کہنے لگا :ماموں ایک اور دیکھنے والی جگہ Miracle Garden ہے۔ یہ جگہ سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہے۔ میں نے کہا: اگر مجھ سے پوچھتے ہیں تو چاہوں گا کہ Dubai Marina میں پانی کے کنارے کسی ٹرکش ریستوران میں ناشتہ کیا جائے۔ اس پھوار میں دبئی مرینہ کا ماحول اور بھی دلکش ہو گا۔ آج سب بچوں نے سکول سے چھٹی کا پروگرام بنایا تھا اور رات دیر تک جاگتے رہنے کی وجہ سے ابھی تک سو رہے تھے۔ مَینانے بچوں کے لیے message لکھ کر ڈائننگ ٹیبل پر چھوڑا کہ بچے جاگیں تو انہیں پتا ہو ہم کہاں گئے ہیں۔ ہمارے اپارٹمنٹ سے مرینہ دبئی کا فاصلہ دس منٹ کا ہے۔ دبئی اپنے گرم موسم کی وجہ سے جانا جاتا ہے لیکن یہ مارچ کا خوشگوار مہینہ ہے۔ باتوں باتوں میں پتا ہی نہیں چلا اور ہم دبئی مرینہ کے علاقے میں پہنچ گئے۔ مرینہ کا یہ علاقہ یہاں کا سب سے خوب صورت اور پوش (Posh) علاقہ ہے۔ یہاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر ہیں اور اکثر یہاں آپ کو غیر ملکی نظر آئیں گے۔یوں لگتا ہے کہ یہ یورپ کے کسی ملک کا حصہ ہے۔ خوبصورت پانیوں کے اردگرد لوگوں کا ہجوم نظر آتاہے اور پھر ریستورانوں کی ایک لمبی قطار ہے۔ آج ہلکی ہلکی پھوار کے ساتھ خوشگوار ہوا چل رہی ہے۔ وہیں پر ہم نے ایک ٹرکش ریستوران باسفورس (Bosphorus) دیکھا۔ ریستوران کے باہر خوبصورت لان میں کرسیاں اور میز لگے تھے اور ہر میز پر دلآویز رنگوں والی چھتریاں تھیں۔ باسفورس کے نام سے مجھے ترکی کا باسفورس یاد آ گیا اور اس کے ساتھ اُن دنوں کی یاد جو میں نے اپنے بیٹے صہیب کے ساتھ ترکی میں ایک ساتھ گزارے تھے۔ ان چند دنوں میں ہم نے یہاں کے بہت سے تاریخی مقامات دیکھے تھے اور ایک روز سٹیمر میں باسفورس کے پانیوں کی سیر کی تھی۔ یوں بھی جس ہوٹل میں رہ رہے تھے وہ باسفورس کے کنارے پر واقع تھا۔ آج دبئی مرینہ کے کنارے باسفورس ریستوران پر بیٹھے مجھے ترکی کے باسفورس کے پانیوں کی یاد آگئی۔ آج بارش کی ہلکی پھوار نے موسم اور بھی خوشگوار کر دیا تھا۔ ویٹرز ریستوران کی نفیس یونیفارم میں متحرک تھے۔ ہماری میز پر ایک نوجوان ویٹر کریم کی ذمہ داری تھا‘ وہ ہنس مکھ نوجوان مصری تھا اور دبئی میں کام کر رہا تھا۔ معلوم نہیں یہ اس کا کل وقتی کام تھا یا وہ تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی فیس کیلئے نوکری کر رہا۔ میز پر ناشتے کی مختلف ڈشز سج گئیں تو ایک لڑکی ہماری میز پر آئی‘ اس نے بھی ریستوران کی یونیفارم پہنی تھی جس پر اس کا نامCiller لکھاتھا۔ شاید اس کا تعلق فرانس سے تھا اور وہ بھی یہاں جُز وقتی کام کر کے اپنے تعلیمی اخراجات کے لیے پیسے اکٹھے کر رہی تھی۔اس نے پوچھا :ہم ریستوران کی فوڈ کوالٹی اور سروس سے مطمئن ہیں؟ ہمارا اثبات میں جواب سن کر وہ مسکرائی اور کہا: اگر آپ کو کچھ چاہیے تو کریم کو بتائیے۔ ناشتے کے بعد ہم کچھ دیر پانیوں کے ساتھ بنے رستے پر چلتے رہے۔ اب بارش کی پھوار تھم چکی تھی اور ہلکی نرم دھوپ پھیل گئی تھی۔ فیصلہ ہوا کہ اب گھر جایا جائے کیونکہ طارق نے ہمیں گھر ڈراپ کر کے خود یونیورسٹی جانا تھا۔ گھر پہنچ کر میں نے لاؤنج میں حفصہ‘ زینب اور زہرہ کے ساتھ کچھ وقت گزارا۔ پچھلی رات ہم ابن بطوطہ مال میں تیونس کورٹ گئے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ ابن بطوطہ مال کے باقی کورٹس کو بھی دیکھا جائے جن میں چین‘ انڈیا‘ فارس‘ اندلس اور مصر کے کورٹس شامل تھے۔ مینا نے کہا: اگر آپ تھکے ہوئے نہیں ہیں تو ہم ابن بطوطہ مال جا سکتے ہیں۔ میں نے کہا: چلتے ہیں۔ اگر آپ دبئی جائیں تو ابن بطوطہ مال ضرور جائیں یہ اپنے فنِ تعمیر اور مختلف خطوں کی ثقافتی عکاسی کے لحاظ سے یہ ایک منفرد جگہ ہے۔
اب سہ پہر کا وقت تھا۔ ہم تیونس کورٹ سے گزر رہے تھے کہ اچانک میری نظر ایک ریستوران پر پڑی یہ پشکن (Pushkin) ریستوران تھا۔ پشکن روسی زبان کا ایک نامور شاعر‘ ناول نگار اور ڈرامہ نویس تھا۔ مَینانے بتایا کہ دبئی میں پچھلے کچھ عرصے سے روسی باشندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اب مختلف جگہوں پر روسی باشندوں کی ضروریات کی دکانیں کھل گئی ہیں۔ پشکن ریستوران کے پاس ہی مجھے Bombay Chowpatty ریستوران دکھائی دیا۔یہ ایک مانوس نام تھا۔ میرے قدم خود بخود اس کی طرف اٹھنے لگے ‘کاؤنٹر کے پیچھے بورڈ پر یہاں کا مینیو درج تھا۔ اس کے ساتھ ہی کاؤنٹر پر کھڑے لڑکے نے مجھے مینیو کارڈ دیا۔ میں فہرست میں درج ڈشز کے نام دیکھ رہا تھا کہ میری نظر ''راج کچوری‘‘ پر پڑی۔ مَینانے میری طرف دیکھتے ہوئے ہنستے ہو کہا: آپ کے دوست پروفیسر راج کی یاد میں آج ''راج کچوری‘‘ کھاتے ہیں میں نے ہنستے ہوئے کہا :میں بھی یہی سوچ رہا تھا۔ ہم نے دو راج کچوریوں کا آرڈر دیا اور فوڈ کورٹ میں ایک میز کے گرد بیٹھ گئے۔ کچھ ہی دیر میں ہمارا آرڈر آگیا۔ ''راج کچوری ‘‘کے ساتھ ٹھنڈی بوتل کا مزہ ہی کچھ اور تھا۔ مَینانے کہا: میں آپ کی تحریروں کی وجہ سے پروفیسر راج کو جانتی ہوں۔ سانولا چہرہ‘ کشادہ روشن آنکھیں اور ہر موضوع پر خوبصورت گفتگو۔پھر مَینا نے سر اٹھا کر مجھے دیکھا اور کہنے لگی ''پروفیسر راج میںایسی کیا خاص بات تھی کہ آپ اب تک اسے یاد کرتے ہیں‘‘۔میں نے کہا ''وہ عام انسانوں سے بہت مختلف تھا۔ اس کی شخصیت میں علم اور عاجزی یکجا ہو گئے تھے اورشاید یہی اس کی شخصیت کی دل رُبائی کا سبب تھا‘‘۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved