گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ 24 اکتوبر 1954ء کو گورنر جنرل غلام محمد نے آئین ساز اسمبلی تحلیل کر دی۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسمبلی پاکستان کے عوام کی نمائندگی نہیں کرتی اور اس کی جگہ کونسل آف منسٹرز کو نامزد کر دیا۔ تاریخ دانوں کی ایک بڑی تعداد اس بات پر متفق ہے کہ اصل مسئلہ اسمبلی کا نمائندہ یا غیر نمائندہ ہونے کا نہیں تھابلکہ اصل مسئلہ یہ تھا کہ گورنر جنرل غلام محمد کو وہ آئین منظور نہیں تھا جو اسمبلی نے تیار کیا تھا اور اب یہ اس آئین کا اطلاق کرنے والی تھی۔ گورنر جنرل کے اس فیصلے کو سندھ چیف کورٹ میں چیلنج کیا گیا‘ جس نے گورنر جنرل کے احکامات کے خلاف فیصلہ دیا۔
حکومت نے چیف کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ اپیل فیڈرل کورٹ راولپنڈی میں دائر کی گئی۔ گورنر جنرل نے مشہور برطانوی کراؤن کونسل Edward Diplock کو اپنا وکیل مقرر کیا اور سر Ivor Jenningsکو ان کا مشیر مقرر کیا۔ مولوی تمیزالدین خان اور اسمبلی کی طرف سے آئی آئی چند ریگر کو وکیل مقرر کیا گیا۔ اُس وقت فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس‘ جسٹس محمد منیر تھے۔ گورنمنٹ کے وکیل کا استدلال وہی تھا جو چیف کورٹ میں پیش کیا گیا تھا کہ آئین سازی کے لیے گورنر جنرل کی منظوری لازم ہے‘ چونکہ اسمبلی نے یہ منظوری نہیں لی اس لیے اس کے بنائے ہوئے تمام قوانین بے وقعت ہیں اور اسمبلی اپنے وجود کا جواز کھو چکی ہے اور گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار ہے۔ Jennings نے گورنر سے کہا کہ حکومت کے لیے یہ مقدمہ جیتنے کے واضح امکانات موجود ہیں‘ اگر اس عدالت سے حکومت کے خلاف فیصلہ آتا ہے تو یہ بڑی حیرت انگیز بات ہو گی‘ لیکن تمام امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے مناسب تیاری کر لی گئی ہے۔ حکومت کے حق میں یا اس کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں مطلوبہ دستاویزات تیار کر لی گئی ہیں۔ پیشگی تیاری کے طور پر گورنر جنرل نے حکومت کے خلاف فیصلہ آنے کی صورت میں ملک میں ایمرجنسی لگانے کا پروگرام بنا لیا تھا اور اس مقصد کے لیے مناسب اقدامات کر لیے گئے تھے‘ لیکن اس کی نوبت ہی نہ آئی۔ چار اور ایک کی اکثریت سے فیڈرل کورٹ نے گورنر جنرل کے حق میں اور سندھ ہائی کورٹ کی رُولنگ کے خلاف فیصلہ دے دیا۔
بنظرِ غائر اس پورے مقدمے میں اہم ترین ایشو یہ تھا کہ کیا گورنر جنرل کے پاس اسمبلی تحلیل کرنے کا آئینی اختیار تھا ؟ اور گورنر کے اس فیصلے کی آئینی حیثیت کیا تھی؟ مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ فیڈرل کورٹ نے اس ایشو کو سرے سے چھیڑا ہی نہیں۔ اس کے بجائے عدالت نے سندھ چیف کورٹ کے دائرہ اختیار جیسے ٹیکنیکل ایشو کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا اور یہ سوال کھڑا کیا کہ کیا سندھ ہائی کورٹ کے پاس مولوی تمیزالدین کیس کی سماعت کا اختیار تھا یا نہیں ؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ سندھ چیف کورٹ کے پاس یہ اختیار نہیں تھا۔ یہ فیصلہ جسٹس منیر نے لکھا۔ جسٹس منیر نے یہ پوزیشن لی کہ پاکستان اگرچہ ایک خود مختار ڈومینین ہے‘ لیکن یہ ابھی تک دولتِ مشترکہ کا حصہ ہے اور دولت مشترکہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے تمام برطانوی قوانین‘ عدالتی نظائر اور رسوم کا اس پر اطلاق ہوتا ہے۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئین پاکستان کی کوئین کہلائے یا اسے دولتِ مشترکہ کی سربراہ کہا جائے۔ پاکستان دولت مشترکہ کا حصہ ہے اور پاکستان میں تمام سرکاری عہدے بشمول گورنر جنرل‘ کمانڈر انچیف اور ججز کوئین کے نام پردیے جاتے ہیں۔ جسٹس منیر نے لکھا کہ قانونِ آزادیٔ ہند کے مطابق قانون سازی کے لیے گورنر جنرل کی منظوری لازم ہے۔ یہ ایک ایسی شرط ہے جو ابھی تک نافذ العمل ہے اور جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی ایسا آئینی عمل جس میں گورنر جنرل کی منظوری نہ لی گئی ہو‘ اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے‘ لہٰذا جس قانون کے ذریعے سندھ ہائی کورٹ کو سماعت کا اختیار دیا گیا اس کا کوئی وجود نہیں تھا اور اس آئین ساز اسمبلی نے آزادی کے بعد جو بھی کوئی قانون سازی کی وہ گورنر جنرل کی تحریری منظوری کے بغیر کی ہے‘ اس لیے اس کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے۔ اس میں وہ آئین سازی کا عمل بھی شامل تھا جو بقول اسمبلی کے اس نے سات سال کی محنت کے بعد مکمل کر لیا تھا‘ لیکن چونکہ اس آئین سازی کے دوران گورنر جنرل کی منظوری نہیں لی گئی لہٰذا اس آئین سازی کی بھی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس طرح جسٹس منیر نے نہ صرف آئین ساز اسمبلی کی سات سالہ آئین سازی کو غیر قانونی قرار دے دیا بلکہ اس وقت تک بننے والے چھیالیس ایکٹ بھی غیر قانونی قرار دے دیے۔ جسٹس منیر نے کیس کی سماعت سے پہلے کہا کہ یہ ایک سیاسی مقدمہ ہے جس میں کوئی قانونی سوال نہیں ہے اور اس کو سیاسی مکالمے کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔
میک گراتھ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جسٹس منیر نے فریقین کے درمیان ڈیل کرانے کی کوشش بھی کی لیکن مدعا علیہ نے ڈیل کرنے سے انکار کر دیا۔ اس نے مزید لکھا کہ منیر کو پتا تھا کہ جو فیصلہ وہ کرنے جا رہا ہے وہ اس کے ہم وطنوں کو پسند نہیں آئے گا اور ان کے لیے یہ صدمے کی بات ہو گی کہ وہ سات سال کے طویل عرصے تک اپنے آپ کو ایک خود مختار ملک کے شہری تصور کرتے رہے اور آزادی کے لیے اتنی قربانی دینے کے باوجود وہ ابھی تک قانونی طور پر برطانیہ کی رعایا ہیں۔ اس فیصلے کے خلاف جسٹس اے آر کارنیلیس واحد جج تھے جنہوں نے اختلاف کرتے ہوئے تفصیلی اختلافی نوٹ لکھا۔ جسٹس کارنیلیس نے لکھا کہ آئین سازی کے لیے گورنر جنرل کی منظوری ضروری نہیں ہے۔ محض اس بات سے یہ نتیجہ نکال لینا کہ پاکستان دولت مشترکہ کا حصہ ہے اور اس پر برطانوی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے‘ درست نہیں ہے۔ آئین ساز اسمبلی ملک کی قانون ساز اسمبلی نہیں ہے۔ اس آئین ساز اسمبلی نے قانون ساز اسمبلی ابھی بنانی تھی۔ امریکی آئین میں قانون سازی کے لیے صدر کی اجازت ضروری نہیں ہے۔
یہ کیس پاکستان میں آئینی بحرانوں اور جمہوریت کُش اقدامات کی ابتدا ثابت ہوا اور اس فیصلے کی وجہ سے جسٹس منیر کو پاکستان میں نہ صرف جمہوریت اور پارلیمنٹ بلکہ خود عدلیہ کے ادارے کو بھی نا قابلِ تلافی نقصان پہچانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ ملک میں تمام قوانین کو غیر قانونی قرار دینے کے عمل سے ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو گیا۔ اس بحران سے نمٹنے کے لیے گورنر جنرل نے ایمر جنسی کے نفاذ کا فیصلہ کیا تاکہ وہ اسمبلی کے غیر قانونی قرار دیے جانے والے قوانین کو قانونی قرار دے سکے۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل ہوئی اور عدالت نے قرار دیا کہ گورنر اس صورت میں ایمرجنسی کا اعلان نہیں کر سکتا۔ آگے چل کر حکومت نے 16 جولائی 1955 ء کو اہم قانونی معاملات پر عدالت کی رائے لینے کے لیے ایک ریفرنس دائر کیا ۔ عدالت نے قرار دیا کہ بعض حالات میں گورنر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے لکھا کہ عدالت کے لیے بعض حالات میں آئین سے آگے نکل کر کامن لاء اور لیگل میکسم تک جانا ضروری ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں عدالت نے بریکٹن میکسم کا حوالہ دیا کہ ''جو چیز عام حالات میں قانونی نہیں ہے‘ ضرورت اس کو قانونی بنا دیتی ہے‘‘۔ اس سے پاکستان میں نظریۂ ضرورت کا آغاز ہوا‘ جس کو آنے والی آمریت پسند قوتوں نے بار بار جمہوریت کے خلاف استعمال کیا‘ جس کا احوال آئندہ کسی کالم میں پیش کیا جائے گا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved