سوشل میڈیا پر مذہب کے نام پر بھی ایک جنگِ مسلسل جاری ہے۔ اس جنگ کے مجاہدین کا لب ولہجہ‘ سیاسی مجاہدین سے کسی طرح مختلف نہیں۔ اسلحہ بھی ایک جیسا ہے: دھمکی کی تفنگ۔ الزام کی تلوار۔ دروغ گوئی کی ڈھال۔ تہمت کے تیر۔ یہ طے کرنا مشکل ہے کہ کس کی زبان زیادہ دراز ہے۔ سیاسی جنگ کی طرح اس معرکہ آرائی کا پہلا 'شہید‘ سماجی امن ہے۔ جان سے مارنے کے فتوے جاری ہو رہے ہیں اور ایسے فتویٰ بازوں کو قانون ہاتھ لگانے سے انکار کر رہا ہے۔
سیاست میں اخلاقی قدروں کی پامالی قابلِ فہم ہے کہ دنیاوی مفادات کی کشمکش میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ مذہب میں مگر ایسا کیوں؟ مذہب کی منزل آخرت اور زادِ راہ تزکیۂ نفس ہے۔ اس میں تو فرد کی جنگ اُس شیطان سے ہے جو اُس کے نفس کو اپنی گرفت میں لینا چاہتا ہے تاکہ وہ خدا کا بندہ بننے کے بجائے‘ اس کا غلام بن کر جیے۔ تزکیۂ نفس کا ہر تصور‘ تعمیرِ اخلاق کے بغیر ناقص ہے۔ آخرت کا راہ رو تو الزام‘ دروغ گوئی اور تہمت جیسے رذائل سے دور رہتا ہے۔ دنیا داروں و آخرت کے مسافروں میں یہ فرق ختم کیسے ہوا؟
اس سوال کا جواب تو اُن اہلِ مذہب کے ذمہ ہے جو اس میدانِ کار زار میں سرگرمِ عمل ہیں۔ مذہبی سماجیات کے ایک طالب علم کی حیثیت سے‘ البتہ اس رویے کی چند وضاحتیں میرے پاس بھی ہیں۔ 'مذہبی سماجیات‘ عمرانیات کا موضوع ہے‘ مذہب کا نہیں۔ اس دائرے میں‘ مذہبی رویوں کی کجی کو ایک سماجی عمل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ یوں اس ٹیڑھ پن کو سیدھا کرنے کا علاج بھی 'سماجی‘ ہوتا ہے مذہبی نہیں۔اس فرق کو پیشِ نظر رکھنے کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ افراد کی نیتیں نہیں‘ ان کے اعمال زیرِ بحث آتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جاری مذہبی معرکہ آرائی میں شامل ہر مجاہد کا مطمحِ نظر‘ ممکن ہے ایک جیسا نہ ہو۔ یہ معاملہ چونکہ نیتوں کا ہے‘ اس لیے اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے جب ہم ان کے رویے کو دیکھتے ہیں تو وہ ایک جیسا ہے۔ ہم اس کا کھوج لگاتے ہیں تو تفہیمِ مذہب کے باب میں‘ ہمیں ان سرفروشوں کے ہاں ایک کمزوری کا احساس ہوتا ہے۔ آج کا کالم اسی تک محدود ہے۔
ہر علم کی طرح‘ علمِ دین میں بھی علما کے طبقات ہیں۔ علما کا ایک طبقہ وہ ہے جو دینی معلومات کے ساتھ‘ حکمتِ دین میں بھی درک رکھتا ہے۔ اس کے پاس دین کا علم ہے۔ وہ جانتا ہے کہ قرآنِ مجید میں کیا بیان ہوا ہے۔ اسے علم ہے کہ احادیث کے مجموعوں میں کون سی روایات رقم ہیں۔ اسے معلوم ہے کہ متکلمین کے ہاں اختلاف کی نوعیت کیا ہے۔ اسے خبر ہے کہ اصولِ فقہ کیا ہیں اور ان کے اطلاق سے آئمہ فقہ کے نتائجِ فکر کیسے مختلف ہو جاتے ہیں۔
یہ معلومات متفرق ہیں اور ان میں تضادات بھی ہیں۔ بعض اوقات قرآنِ مجید ایک بات کہہ رہا ہوتا ہے اور روایت میں اس سے مختلف بات بیان ہوتی ہے۔ یا دو روایات ہیں اور دونوں ایک دوسرے سے متصادم دکھائی دے رہی ہیں۔ یا پھر کسی فقہ کے پیرو کار ایک حکم پر ایک طرح سے عمل کر رہے ہیں اور حدیث اسی حکم پر عمل کا مختلف طریقہ بیان کر رہی ہے۔ دین کا مآخذ اگر ایک ہے تو یہ تضادات اور تصادم کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے دینی معلومات کفایت نہیں کرتیں۔ اس کے لیے ایک اضافی صلاحیت کی ضرورت ہے‘ جسے حکمت کہتے ہیں۔
'حکمت‘ کیا ہے؟ یہ ظاہر کے پردے میں چھپی حقیقت کی دریافت ہے۔ بظاہر مختلف دکھائی دینے والی اشیا میں تطبیق پیدا کرکے‘ انہیں ایک وحدت کی صورت دینا ہے۔ حکمت‘ سیمنٹ‘ اینٹ‘ لکڑی جیسے مختلف اجزا کو اس طرح جمع کر سکتی ہے کہ وہ ایک دیدہ زیب عمارت میں بدل جائیں۔ دیکھنے والے کے لیے مختلف اور متضاد اجزا‘ ایک سطح پر اس حسن کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں کہ وہ ایک وحدت کی تشکیل میں‘ ایک دوسرے کے معاون دکھائی دیں۔
علمائے دین کا ایک طبقہ وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ علم کے ساتھ یہ حکمت بھی عطا کرتے ہیں۔ یہ علما جب دین کو بیان کرتے ہیں تو ہمیں اس کے اجزا میں تضاد دکھائی نہیں دیتا۔ اگر فی الواقع کہیں تضاد ہوتا ہے تو وہ واضح کر دیتے ہیں کہ فلاں جزو کو زبردستی اجزائے دین میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ درحقیقت اس کا حصہ نہیں ہے۔ اس طرح وہ اپنی حکمت سے تطہیرِ علم کا فریضہ ادا کرتے ہیں۔
علمائے دین کا ایک طبقہ وہ ہے جن کے پاس معلومات تو ہوتی ہیں لیکن حکمت نہیں ہوتی جو کثرت میں وحدت کو دیکھ سکے۔ جو متضاد دکھائی دینے والے اجزا میں ہم آہنگی تلاش کر سکے۔ یہ اس سفر میں کسی ایسے موڑ پر پھنس جاتے ہیں جہاں یہ تضادات ان کو اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ وہ اس سے نکلنے کی کوشش میں‘ کسی ایسی پگڈنڈی پر قدم رکھ دیتے ہیں جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ چند قدم تک تو انہیں پیش قدمی میں کوئی دقت نہیں ہوتی۔ اس 'کامیابی‘ سے انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ انہوں نے صراطِ مستقیم کو پا لیا ہے لیکن جیسے جیسے وہ آگے بڑھتے ہیں‘ الجھتے اور الجھاتے چلے جاتے ہیں۔
میں اپنی بات کو ایک مثال سے واضح کرتا ہوں۔ علمِ دین کے ایک طالب علم کو ایسی روایات سے واسطہ پڑتا ہے جن میں تضادات دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے درجے کا عالم‘ ان روایات کو سب سے پہلے‘ دین کی اجتماعی نصب العین کے تناظر میں دیکھے اور ان کی معنویت کو سمجھے گا۔ پھر وہ اسے احادیث کے پورے ذخیرے میں رکھ کر ان کا سیاق و سباق دریافت کرے گا۔ یوں وہ اکثر اس نتیجے تک پہنچ جائے گا کہ مختلف روایات میں دین کا ایک ہی حکم پیشِ نظر ہے۔ ایک روایت میں ایک موقع کی مناسبت سے اس کا اطلاق کیا گیا ہے اور دوسری روایت میں حالات کا سیاق و سباق بدل جانے سے‘ اس کو ایک دوسرے پہلو سے دیکھا گیا ہے۔ اس طرح وہ جان لے گا کہ روایات‘ حکمِ دین میں اختلاف کو نہیں‘ حالات کے اختلاف کو بیان کر رہی ہیں۔ اگر وہ اس تضاد کو دور نہیں کر سکے گا تو بتا دے گا کہ ان میں سے کون سا جزو ہے جو اصلاً دین کا حصہ نہیں اور کیوں نہیں۔
جو حکمت سے کام نہیں لے گا‘ وہ اس کا سادہ حل تلاش کرے گا۔ مثال کے طور پر وہ یہ کہے گا کہ چونکہ بخاری و مسلم کو امت کی علمی روایت میں اقوالِ رسولؐ کا سب سے مستند مآخذ مانا گیا ہے‘ اس لیے آئیے ہم اس کو بنیاد مان کر قرآن‘ سنت‘ تاریخ‘ سب کو سمجھتے ہیں۔ بظاہر یہ راستہ آسان اور سادہ ہے لیکن اس میں ایک کمزوری ہے۔ اس طریقے میں آپ نے امت کے دو علما کے فہم کو پورے دینی ذخیرے پر حاکم مان لیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس کی سند کیا ہے؟ کیا بخاری و مسلم مامور من اللہ ہیں یا کیا ان کے مرتب کردہ مجموعوں کو رسول اللہﷺ نے اپنے اقوال کا سب سے مستند مآخذ قرار دیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر امام ابو حنیفہؒ اور امام مالکؒ کیوں نہیں؟ پوری امت کے بارے میں ہم کیسے بدگمان ہو جائیں جو امام بخاری و مسلم کی عظمت کے اعتراف کے باوصف‘ ان کی روایات پر جرح کرتی آئی ہے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے؟
سوشل میڈیا پر ہم جو مذہبی جنگ و جدل دیکھ رہے ہیں‘ یہ اسی طبقے کے علما کا پیدا کردہ ہے۔ پھر اس میں تیسرے سے لے کر دسویں درجے تک کے 'علما‘ بھی حسبِ ذوق شریک ہو گئے ہیں۔ عام آدمی کے لیے درست راستہ یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کے پیچھے چلے جنہیں دینی معلومات کے ساتھ حکمت بھی عطا کی گئی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved