اگر ہم بھی نیوزی لینڈ کی طرح کا تعلیمی نظام اپنا لیں تو کیریئر کے انتخاب میں طلبہ کو جو مسائل پیش آتے ہیں‘ وہ بڑی حد تک حل ہو جائیں گے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کئی بچوں کو ماسٹرز کر لینے کے بعد بھی پتا نہیں ہوتا کہ جانا کس فیلڈ میں ہے۔ وہ میٹرک میں کچھ اور سوچتے ہیں‘ انٹرمیڈیٹ اور مضامین میں کرتے ہیں‘ بیچلرز میں کسی تیسرے شعبے کا انتخاب کر لیتے ہیں اور یوں ماسٹرز تک آتے آتے ان کی زندگی میں اتنے موڑ آ چکے ہوتے ہیں کہ وہ بس وقت اور حالات کے مطابق فیصلہ کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں مگر ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں سات سال کی عمر سے ہی بچوں کو یہ موقع دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے رجحان اور پسند کے مطابق کیریئر کا انتخاب کریں۔ اس مقصد کے لیے انہیں بہت سی ورکشاپس اور عملی سرگرمیوں میں مصروف کیا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں سامنے آ سکیں اور وہ اِدھر اُدھر دیکھ کر کیریئر منتخب کرنے کے بجائے خود بااعتماد انداز میں اپنے کیریئر اور مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ زیادہ تر کیسز میں اس طرح کا فیصلہ کامیاب ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں بچے کا شوق اور پسند‘ دونوں شامل ہوتے ہیں۔ چونکہ ابتدائی عمر میں بچوں کے ذہن کورے کاغذ کی طرح ہوتے ہیں اس لیے انہیں اگر درست سَمت میسر آ جائے تو ان کے بھٹکنے کا چانس بہت کم ہوتا ہے۔ اس عمر میں دماغ میں نقش باتیں مضبوطی کے ساتھ خیالات اور ذہن میں چسپاں ہو جاتی ہیں اور بچے کو بعد میں یہ احساس بھی نہیں ہوتا کہ اس نے جو فیصلہ کیا وہ اس پر زبردستی مسلط کیا گیا تھا۔
حال ہی میں نیوزی لینڈ میں بچوں کے کیریئر کے انتخاب کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس کے مطابق ورلڈ اکنامک فورم اور دیگر عالمی اداروں کی مدد سے ایک ایونٹ کا اہتمام کیا گیا‘ جس میں نیوزی لینڈ کے سات سے تیرہ برس کے بچوں نے شرکت کی۔ سروے میں بچوں کو سفید چارٹ پیپر دیے گئے اور اس پر انہیں ایسی تصاویر بنانے کو کہا گیا جیسا وہ مستقبل میں‘ بڑے ہو کر بننا چاہتے ہیں۔ بچوں نے خلاباز سمیت بہت سی تصاویر بنائیں۔ یہ تصاویر ان خیالات کا نتیجہ تھیں جو ان کے دماغ میں آتے تھے۔ یعنی بہت سے بچے خلا باز بننا اور خلا کے سفر کو آئیڈیل سمجھتے تھے اور انہیں خلانوردی کا شوق تھا۔ یہ سب انہوں نے یقینا کتابوں میں پڑھا ہو گا یا فلموں اور کارٹونز میں دیکھا ہو گا۔ بہرحال یہ ان کا ایک شوق تھا‘ جو انہوں نے کاغذ پر اتار دیا۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار تصاویر بنائی گئیں؛ تاہم آدھی سے زیادہ تصاویر بنیادی طور پر نو قسم کے شعبوں سے متعلق تھیں۔ تمام بچوں کی تصاویر کو دیکھا گیا تو پانچ سب سے زیادہ پسندیدہ جابز سے متعلق تصاویر سامنے آئیں۔ ان میں پہلے نمبر پر سپورٹس مین یعنی کھلاڑی تھے۔ ساڑھے سترہ فیصد بچوں نے کاغذ پر سپورٹس مین کی تصاویر بنا ئیں، گویا وہ بڑے ہو کر کھیل کے شعبے کو سنجیدگی کے ساتھ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ نیوزی لینڈ میں کھلاڑیوں اور ایتھلیٹس کو پُرکشش مشاہرہ دیا جاتا ہے جو ساٹھ ہزار ڈالر سالانہ سے شروع ہوتا ہے۔ نیوزی لینڈ کے معروف ایتھلیٹ مائیکل جارڈن کی اب تک کی آمدن سوا تین ارب ڈالر سے زائد ہے۔ دوسرے نمبر پر بچوں نے جو تصاویر بنائیں وہ ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن ٹریننگ سے متعلق تھیں۔ نیوزی لینڈ میں اس شعبے کی بہت مانگ ہے۔ اس میں وہ مختلف ہنر سیکھتے اور انہیں پریکٹس کرتے ہیں۔ گیارہ سے بارہ برس کی عمر میں نیوزی لینڈ میں بچہ کوئی نہ کئی ہنر سیکھ لیتا ہے اور اس کی پریکٹس کرنے لگتا ہے۔ اس کے بعد بھی جب کبھی اسے خود کو اَپ گریڈ کرنا ہوتا ہے تو وہ کوئی نیا ہنر سیکھنے لگتا ہے۔ تیسرے نمبر پر بچوں نے پولیس آفیسرز کی تصاویر بنائیں۔ نیوزی لینڈ میں ساڑھے دس ہزار کے قریب پولیس آفیسر زہیں۔ یہی پولیس ٹریفک اور کمرشل وہیکل کے معاملات بھی دیکھتی ہے۔ نیوزی لینڈ میں ایک پولیس آفیسر کی اوسط سالانہ تنخواہ ستر ہزار ڈالر ہوتی ہے۔ نیوزی لینڈ میں پولیس کا عہدہ کافی معتبر سمجھا جاتا ہے اور وہاں کی پولیس شہریوں کے ساتھ دوستانہ برتائو رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بچوں کے گھر والوں کا جب بھی پولیس کے ساتھ کوئی واسطہ پڑتا ہے تو وہ ان کے رویے سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور یہی چیز ان کی پولیس میں آنے کی وجہ بنتی ہے۔ ہمارے ہاں البتہ معاملہ الٹ ہے۔ پولیس کے شہریوں کے ساتھ برتائو کے جو معاملات تحریری اور وڈیوز کی شکل میں سامنے آتے ہیں ان کو دیکھ کر کم ہی لوگ اس شعبے میں جانا چاہتے ہیں۔ یقینا یہ تمام افراد کی بات نہیں لیکن زیادہ تر نفری عوام کے ساتھ دوستانہ برتائو پر یقین نہیں رکھتی۔ حتیٰ کہ شہری چھوٹی موٹی واردات کے بعد تھانے جانا بھی مناسب نہیں سمجھتے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ وہاں کیا سلوک ہو گا۔ پاکستان میں کتنے بچے بڑے ہو کر پولیس میں جانا چاہتے ہیں اور وہ پولیس کے بارے میں کیا کچھ سنتے ہیں‘ اس کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
چوتھے نمبر پر نیوزی لینڈ کے بچوں نے سب سے زیادہ اپنے مستقبل کیریئر سے متعلق کی جو تصاویر بنائیں وہ استاد یعنی لیکچرر کی تھیں۔ نیوزی لینڈ میں استاد کی بہت عزت و تکریم ہے۔ یقینا اس شعبے میں پیسہ بھی ہے۔ ٹیچنگ اینڈ انٹرنیشنل سٹڈی کے مطابق پینتیس بہترین ممالک میں سے نیوزی لینڈ کے اساتذہ کا معیار چوتھے نمبر پر ہے۔ پہلے پر سنگاپور‘ دوسرے پر اسٹونیا اور تیسرے پر روس ہے۔ نیوزی لینڈ میں ایک استاد کی اوسط سالانہ تنخواہ ساٹھ ہزار ڈالر ہے۔ لیکچرر فی گھنٹہ تیس ڈالر تک وصول کرتا ہے۔ پانچویں نمبر پر بچوں نے سب سے زیادہ جو تصاویر بنائیں وہ سوشل میڈیا سٹار‘ یوٹیوبرز اور انفلوئنسرز کی تھیں۔ ایک نیوز ایجنسی کی ایک رپورٹ کی مطابق نیوزی لینڈ میں انفلوئنسرز بے حساب آمدن کما سکتے ہیں۔ بچوں کو یہ شعبہ اس لیے پسند آیا کہ وہ اس میں اپنی تخلیقی اور قدرتی صلاحیتوں کے جوہر دکھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر پچاس فیصد بچوں نے جو تصاویر بنائیں وہ صرف ڈاکٹرز یا انجینئرز کی نہیں تھیں بلکہ کوئی پلمبر بننا چاہتا تھا‘ کوئی مچھیرا‘ کوئی کان کن‘ کوئی شکاری۔ غرض کہ بچوں نے ایسے ایسے شعبوں سے متعلق بھی تصاویر بنائیں جن کے متعلق ہم اپنے ملک میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہمارا بچہ اس شعبے کا بھی رُخ کر سکتا ہے۔ کوئی بچہ کارٹونسٹ‘ کوئی ایکٹر‘ کوئی فوٹوگرافر بننا چاہتا ہے اور یقینا یہ سب اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب بھی ضرور ہوں گے کیونکہ ان میں بچپن ہی سے یہ شوق پایا جاتا ہے؛ تاہم نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان ایک فرق ہے، وہاں اس شوق کے بدلے میں انہیں بہتر ذرائع آمدن حاصل ہوں گے جبکہ پاکستان میں اس طرح کے شعبوں میں آمدنی اتنی اچھی نہیں اِلّا یہ کہ آپ اتنا معیاری کام کریں اور خود کو اعلیٰ سطح پر منوائیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ نیوزی لینڈ میں بچوں کو تعلیم کے دوران اپنے پسندیدہ شعبے میں عملی طور پر کام کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ وہاں انڈسٹری اور ایجوکیشن آپس میں منسلک ہیں۔ بچے جس کالج‘ یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ان سے کئی پروفیشنل ادارے بھی منسلک ہوتے ہیں جہاں بچے ہفتے میں چند گھنٹے لگا کر کام سیکھتے ہیں اور یوں جب وہ تعلیم مکمل کر کے مارکیٹ میں جاتے ہیں تو انہیں وہ خوف اور وسوسے نہیں لاحق ہوتے جو ہمارے طلبہ کو ہوتے ہیں۔ ہمارے بچوں کو یہ خوف اس لیے ہوتا ہے کہ انہیں علم ہی نہیں ہوتا کہ آفس اور کارخانوں وغیرہ کا ماحول کیسا ہوتا ہے‘ اور ایچ آر‘ ایڈمن‘ پروڈکشن‘ پروکیورمنٹ اور دیگر شعبے کس طرح کام کرتے ہیں۔ وہاں پر بچے بنیادی چیزیں دورانِ تعلیم یا ابتدائی دنوں میں ہی سیکھ لیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں نوجوانوں کو دس دس سال بعد بھی نوکری کے طور طریقے اور اس سے متعلق معلومات نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ چھٹی کی درخواست ٹھیک طرح سے لکھ پاتے ہیں؛ چنانچہ ہمارے ہاں اگر نیوزی لینڈ کی طرح بچوں کو ابتدا ہی سے اپنے پسندیدہ شعبے کو اختیار کرنے کے بارے میں تبادلۂ خیال کرنے کا موقع دیا جائے اور سکول اور کالج لیول پر بچوں کو انڈسٹری کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تو اس سے بچے کنفیوز بھی نہیں ہوں گے اور مستقبل میں اس سے ملکی معیشت اور خود بچوں کے لیے شاندار نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved