عام اصطلاح کیا ہے کہ فلاں آدمی بڑا سوشل ہے‘ یعنی محفلی ہے۔ ایسوں پر رشک آتا ہے کہ کاش ہم بھی ایسے ہوتے۔ طبیعت ہی کچھ ایسی پائی کہ ہم تنہائی پسند ہی رہے۔ اسی لیے اب تک یہ رونا ہے کہ وہ ہوٹلوں اور کلبوں کی پرانی محفلیں کن اندھیروں میں گم ہو گئیں جہاں ہم جیسوں کی تنہائیاں چھپ جایا کرتی تھیں۔ یار باش آدمی تو ہر جگہ محفل برپا کر سکتے ہیں‘ ہم جیسوں کو محفلیں تلاش کرنا پڑتی ہیں۔ پاکستان میں ستم یہ ہوا کہ پارسائی کے نام پر فضول کی پابندیاں لگیں اور ایسی محفلوں کو بند کر دیا گیا۔
ظاہری پابندیوں کے باوجود اندرونِ خانہ سب کچھ چلتا ہے لیکن پھر وہی بات کہ ہم جیسے کہاں ان نجی محفلوں کو ڈھونڈتے پھریں۔ جوئے کا شوق کبھی رہا نہیں‘ ہماری چاہتیں سادہ سی رہی ہیں۔ قائداعظم کا پاکستان رہتا تو شکایت کبھی نہ ہوتی۔ جن نعمت کدوں کی طرف اشارہ ہو رہا ہے ایسی جگہیں قائداعظم کی زندگی میں تو موجود تھیں۔ ان کی موجودگی پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ یہ بھی کہیں نہیں پڑھا کہ کسی وعظ یا عالم نے مطالبہ کیا ہو کہ ایسی جگہوں کو بند ہونا چاہیے۔ کراچی کی نیپئر روڈ اپنے پورے جوبن میں آباد تھی۔ وہاں کی چہل پہل پر کسی کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ لاہور کا وہ تاریخی علاقہ یا یوں کہیے تاریخی بازار جو قلعے سے متصل ہے‘ اُس کی رونقیں بھی اپنے عروج پر تھیں۔ کاروبارِ مملکت اپنے انداز سے چلتا تھا اور روحانی تسکین کے نعمت کدے شاموں کو آباد ہوا کرتے تھے۔
مانا کہ 1977ء کے مخصوص حالات تھے۔ انتخابات میں مبینہ طور پر کی گئی ہیرا پھیری کے سلسلے میں مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتیں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف میدان میں آ گئی تھیں۔ ایک بھرپور تحریک ملک میں چل رہی تھی اور کسی نے بھٹو صاحب کے کان میں یہ کھسر پھسر کی کہ کچھ اسلامی قسم کے اقدامات کر دیے جائیں تو اس تحریک کے غبارے سے ہوا نکل جائے گی۔ 15 اپریل 1977ء کے دن بھٹو صاحب نے کچھ ایسے اقدامات کا اعلان کیا جن سے رندانہ صفت رکھنے والوں کی دنیا برباد ہو گئی۔ جن نعمت کدوں میں تسکین و راحت کے کچھ پہلو میسر ہو جاتے تھے‘ اُن پر تالے لگ گئے۔ نتیجتاً وطنِ عزیز کی شامیں ویران ہو گئیں۔ ان اقدامات سے بھٹو صاحب کو قطعاً کوئی سیاسی فائدہ نہ پہنچا‘ الٹا نقصان ہوا کیونکہ مذہبی رجحان رکھنے والی جماعتوں نے ان اقدامات کو کمزوری کی نشانی سمجھا۔ بھٹو مخالف تحریک نے کمزور ہونے کے بجائے مزید طاقت پکڑ لی۔ بھٹو صاحب خود رندانہ صفت کے مالک تھے‘ اپنی خُو سے گئے اور کچھ ہاتھ بھی نہ آیا۔
چلیں‘ عذر پیش کیا جا سکتا ہے کہ مخصوص حالات تھے‘ بھٹو صاحب نے جو کیا مجبور ہو کر کیا‘لیکن سوچنے کی بات ہے کہ 1977ء کے اُن سیاہ ایام کو گزرے ایک عمر بیت چکی ہے۔ معاشرے فضول کے جذبات کے اسیر ہو جاتے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ان سے نکل آتے ہیں۔ ملکوں میں خانہ جنگی ہوتی ہے لیکن حالات سدھر جاتے ہیں۔ پاکستان کے بہت سے المیوں میں ایک المیہ یہ ہے کہ 1977ء کے اقدامات سے ہم نکل نہیں سکے۔ مخصوص حالات کے تحت جو بیکار کے قوانین ہماری کتابوں میں تب درج ہوئے‘ آج تک موجود ہیں۔ حکمران جو آئے یا تو چھوٹے دل کے مالک تھے یا ان کی ترجیحات ہی اور تھیں۔ زیادہ تر تو ہم نے دیکھا مال و دولت بنانے میں مصروف رہے۔ انہیں اس سے کیا غرض کہ قائداعظم کے پاکستان پر کیا بیتی اور آیا جو کچھ بیتی اُس کا کچھ ازالہ ہونا چاہیے یا نہیں۔ وہ اپنے دھندوں میں مصروف رہے اور آج تک ایسے ہی مصروف ہیں۔ روایتی لیڈروں سے ہٹ کر ایک ابھرا تو اس لیڈر کو بھی ہم نے ہمہ وقت تسبیح لہراتے دیکھا۔
لہٰذا سوال ہے کہ اس دیس کے گناہگار جائیں تو جائیں کہاں؟ پارسائی کی بڑی شاہراہ جو مملکتِ خداداد میں بن چکی ہے‘ اُس کا اول اور سنہری اصول یہ ہے کہ آپ پراپرٹی کے کاروبار کے ہو جائیں۔ اچھی روش ہے لیکن ہرگناہگار اس شاہراہ پر چل نہیں سکتا۔ جیسے عرض کیا ہم جیسوں کی خواہشات بڑی محدود ہیں۔ دن میں کچھ مطالعہ کر لیا‘ مزدوری کی غرض سے اخباری کالم لکھنا ہو تو وہ لکھ لیا اور پھر ہفتے میں ایک دو شاموں کیلئے لاہور جیسے شہر آئے تو جی چاہا کوئی مقامِ راحت دستیاب ہو جہاں شام کی کچھ گھڑیاں گزاری جا سکیں۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں‘ ساری دنیا میں ایسے مقامات میسر ہیں۔ قائداعظم کے پاکستان میں بھی میسر ہوا کرتے تھے اور بانیٔ پاکستان نے ان کی موجودگی پر کبھی انگلی نہیں اٹھائی۔ لیکن مصنوعی پارسائی کے نام پر ہم نے جو اپنا حشر کیا ہے‘ اس کے نتیجے میں شہروں کی رونقیں کڑاہی گوشت کے لوازمات تک محدود ہو گئی ہیں۔ مہنگائی اور معاشی بدحالی نے تو اب زور پکڑا ہے لیکن ان امراض سے پہلے قوم کیساتھ یہ المیہ ہو چکا تھا کہ پارسائی کے نام پر اس کی مسکراہٹیں چھین لی گئی تھیں۔ اب تو وہ فضول کی کہاوت رہ گئی ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا اُس نے کچھ نہیں دیکھا۔ ہم جیسا مسافر لاہور آئے تو اُس نے کون سے تیر مار لینے ہیں۔ ہوٹل میں کمرہ لیا اور وہاں شام گزار لی۔ شکر یہ ہمارے پیر لبھا کا کہ اُن کے آستانے پر کچھ مل جاتا ہے نہیں تو خلوت کے کمرے بھی جہنم کا منظر پیش کریں۔
ابوظہبی ہر اعتبار سے ہم سے بہت آگے ہے‘ اُس کی کیا بات کرنی لیکن سعودی عرب جیسے ملک میں بھی تبدیلی کی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی ہیں۔ ہمیں پتا نہیں کس بدروح کی بددعا لگی ہے کہ یہاں تبدیلی کی ہواؤں نے نہیں چلنا۔ سعودی عرب کے حکمران قدیم روایتوں کو توڑ رہے ہیں‘ ہمارا معاشرہ انہی 1977ء کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ یہاں پھر طالبان نے ہی سر اٹھانا ہے اور یہاں کاروبار یا پراپرٹی کا چلنا ہے یا دہشت گردی کا۔ اور کسی کام کیلئے ہم نے جگہ چھوڑی ہے؟ آج کل کے نوجوانوں نے تو جسے میں قائداعظم کا پاکستان کہہ رہا ہوں‘ نہیں دیکھا لیکن ہماری جنریشن کو پرانے وقتوں کی باتیں یاد ہیں۔ اچھا بھلا ملک ہوا کرتا تھا۔ ابوظہبی کے حکمران یہاں سیروتفریح کیلئے آتے تھے۔ دنیا جہان کی ایئر لائنیں یہاں آتی تھیں۔ ہم نوجوان افسر ملیر چھاؤنی میں تعینات تھے تو کبھی دل بہلانے کیلئے کراچی ایئر پورٹ کا چکر لگا لیتے تھے۔ کیا رونقیں‘ کیا گہما گہمی‘ ہر رنگ و نسل کی ایئر ہوسٹسیں‘ انہیں دیکھ کر آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتیں۔ آج ہم نے ہر چیز کو ویرانستان بنا دیا ہے۔ اہلِ وطن سے یہ تو پوچھا جائے کہ ایسے میں ترقی نام کی چیز کہاں سے آنی ہے؟ ایک قوم نے فیصلہ کر لیا ہو کہ اس نے بیکار کی شاہراہوں پر ہی چلنا ہے تو کون اس کا علاج کر سکتا ہے؟ ہمارا صرف معاشی مسئلہ ہوتا تو جلد یا بدیر اس سے نکل آتے۔ ہمارا اصل مسئلہ کچھ اور ہے‘ اپنے ذہنوں کو ایک خول میں ہم نے بندکر رکھا ہے۔ پارسائی لبوں تک محدود ہے‘ قومی وجود ہمارا پتہ نہیں کن کن چیزوں سے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ منافقت ہماری قومی خصوصیت بن چکی ہے‘ کیونکہ کہتے کچھ اور کرتے اور ہیں۔
اپنی تنہائیوں کا ذکر میں نے کچھ زیادہ ہی کر دیا‘ ایسی بات نہیں‘ شامیں گزر ہی جاتی ہیں‘ لیکن جو اپنے ملک کے ساتھ ہم نے کیا ہے اسے دیکھ کر رونا آتا ہے۔ کہاں جا سکتے تھے ہم اور کس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اب تو کئی چیزوں پر گھن آتی ہے کیونکہ ان روشوں کو دیکھ کر یقین ہو جاتا ہے کہ ہم نے سدھرنا نہیں اور یہاں کسی چیز نے بدلنا نہیں۔ جو گڑھا ہم نے اپنے لیے کھودا ہے اسی میں ہم دھنسے جا رہے ہیں۔ نہ کوئی خیالات نہ نئی سوچ‘ نہ ڈھنگ کا کوئی میرِ کارواں۔ اس پاکستان کو قائداعظم پہچان سکتے؟ وہ کس قسم کے انسان اور لیڈر تھے اور جو ملک ان کی کاوشوں سے منسوب ہے‘ اس کا کیا ہم نے کر دیا ہے۔ معیشت تو ہماری سدھرنی چاہیے لیکن اس سے پہلے ہماری ذہنی اصلاح کی ضرورت ہے۔ وہ کون کرے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved