تحریر : ڈاکٹر منور صابر تاریخ اشاعت     07-05-2023

دنیا کے نئے بر اعظم

دنیا میں اس وقت تین ملک یاعلاقے ایسے ہیں جن کو ایک پورے براعظم سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ اُن ملکوں میں بلاشبہ پہلا نام روس کا آتا ہے‘ جس کا مجموعی رقبہ ایک کروڑ ستر لاکھ مربع کلو میٹر ہے۔ یہ ملک ایشیا اور یورپ‘ دونوں براعظموں کا حصہ ہے۔ اگرچہ ترکی بھی ان دونوں براعظموں کا حصہ ہے مگر ترکی کا صرف ایک شہر یورپ میں آتا ہے۔ روس کو رقبے کے اعتبار سے ایک براعظم کا درجہ دینے کی ایک وجہ تو یہ بنتی ہے کہ دنیا کے کل زمینی رقبے کا گیارہ فیصد سے زائد روس کے پاس ہے۔ واضح رہے کہ براعظم یورپ کا مجموعی رقبہ روس سے کم ہے جبکہ براعظم انٹارکٹیکا اور آسٹریلیا بھی رقبے کے اعتبار روس سے چھوٹے ہیں۔ یعنی اگر روس ایک براعظم ہو تو یہ رقبے کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں بڑا براعظم بنتا ہے۔ اس کے بعد دوسرا ملک جس کو دنیا میں ایک براعظم کی حیثیت حاصل ہے‘ وہ چین ہے۔ اس کی وجہ رقبے کے ساتھ چین کی آبادی بھی ہے۔ چین اب آبادی کے اعتبار سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جبکہ رقبے کے اعتبار سے مغربی سائٹس اس کو امریکہ کے بعد دنیا کا چوتھا بڑا ملک لکھتی ہیں۔ ان سائٹس کے مطابق امریکہ کا رقبہ98لاکھ مربع کلومیٹر جبکہ چین کا 96لاکھ مربع کلومیٹر ہے لیکن یہاں پر بھی ایک تنازع موجود ہے جسے طے کرنا ابھی باقی ہے کیونکہ چین تائیوان کو اپنا علاقہ تصور کرتا ہے جس کا رقبہ تقریباً 36000 مربع کلو میٹر ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی ریاست اروناچل پردیش پر بھی چین اپنا حق جتلاتا ہے‘ اس کا رقبہ 83,700مربع کلو میٹر ہے۔ اگرچہ مغربی میڈیا اور دیگر ذرائع اسے چین میں شامل نہیں کرتے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی‘ کسی بھی ملک کے مجموعی رقبے میں اس کے زمینی رقبے کے علاوہ اس کا سمندری علاقے بھی شامل ہوتا ہے۔ امریکہ کے مجموعی رقبے میں سمندری علاقہ کافی زیادہ ہے کیونکہ اس کے دو اطراف سمندر ہے لیکن اگر صرف زمینی رقبے کو دیکھا جائے تو چین کا رقبہ امریکہ سے زیادہ بنتا ہے اور یوں یہ دنیا کا تیسرا بڑا ملک بن جاتا ہے۔ گویا چین اور امریکہ کے درمیان رقبے کے حوالے سے ایک خاموش مقابلہ جاری ہے۔ واضح رہے کہ جنوبی چین کے سمندر میں قائم کردہ جزیروں کا تذکرہ اور شمار ابھی باقی ہے۔
اب بات ایک ایسے علاقے کی جس کے نام کے ساتھ باضابطہ طور پر ''بر‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا رہا ہے‘ مگر اس ''بر‘‘ کے ساتھ ''اعظم‘‘ نہیں بلکہ ''صغیر‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی برصغیر۔ یاد دلاتے چلیں کہ یہ علاقہ گورے کی آمد سے پہلے تک پوری دنیا کی کل دولت کا ایک چوتھائی پیدا کرتا رہا ہے۔ اس علاقے کو برصغیر یا چھوٹا Continentکہنے کی وجہ اس کی آبادی تھی۔ اُس وقت اس علاقے میں پوری دنیا کی بیس فیصد سے زائد آبادی مقیم تھی۔ اب ہم بات کو آگے بڑھاتے ہوئے تین چیزوں آبادی‘ رقبے اور معاشی پیداوار کے مجموعہ کو بنیاد بنا کر دیکھتے ہیں کہ کون سے ممالک یا علاقے اصل میں ایک براعظم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس معیار کے مطابق بلاشبہ امریکہ بھی ایک براعظم کی حیثیت رکھتا ہے۔ امریکہ کے پاس دنیا کے کل رقبے کا چھ فیصد‘ دنیا کی معاشی پیداوار کا 23 فیصد جبکہ آبادی کا 4.25فیصد ہے۔ اب اگر اس عناصر کا مجموعہ کریں تو امریکہ کا سکور 33سے تھوڑا زیادہ بنتا ہے۔ اس کے بعد روس کے پاس دنیا کے کل رقبے کا 11 فیصد‘ معیشت کا دو فیصد جبکہ آبادی کا بھی تقریباً دو فیصد ہی موجود ہے۔ اب اس کا مجموعی سکور 15بنتا ہے۔اب بات چین کی جائے تو اس کے پاس دنیا کی کل آبادی کا 17فیصد‘معیشت کا 18فیصد جبکہ کل رقبے کا 6.3فیصد ہے۔اس ملک کا مکمل سکور گنا جائے تو یہ 41کا ہندسہ عبور کر جاتا ہے۔ اب بات واضح ہو جاتی ہے کہ کیوں امریکہ ایک تشویش میں مبتلا ہے کہ اس کی عالمی حکمرانی کا سورج دراصل غروب ہو چکا ہے‘ اب بس اعلان اور اس سے بھی زیادہ اس کا اقرار کرنا باقی ہے۔
China is a sleeping giant
یہاں مجھے دنیا کے ایک ممتاز لیڈر نپولین بونا پارٹ کی کہی ہوئی تاریخی پیش گوئی یاد آرہی ہے جس میں اس نے کہا تھا کہ China is a sleeping giant, whenever awaken will Re-shape the world. مطلب چین ایک ایسا دیوتا ہے‘ جب یہ جاگ گیا تو پوری دنیا از سر نو ترتیب دے گا۔ یہ ترتیب آج کل ورلڈ آرڈر کہلاتی ہے۔ اب اس نئے ورلڈ آرڈرکے نتیجے میں دنیا دوبارہ بائی پولر یعنی طاقت کے دو محوروں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ یہاں تک تو بات پہلے بھی بہت دفعہ ہو چکی ہے۔ اگر آگے بڑھیں تو ایک اور بڑی تبدیلی واقع ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ اب امریکہ کی دنیا پر حکمرانی ختم ہونے جا رہی ہے اور دنیا پر دو طاقتوں کی حکمرانی کے بجائے ایک بڑی طاقت یعنی چین اور اس کے ساتھ دیگر کئی چھوٹی طاقتوں کی حکمرانی قائم ہونے جا رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ امریکہ کو ایک ایسا معاشی و سفارتی دھچکا لگنے والا ہے یا بدستور لگ رہا ہے جس کے نتیجے میں وہ ایک چھوٹی یا علاقائی طاقت بن کر رہ جائے گا۔ اس قصے کا ایک حصہ ابھی باقی ہے جو کچھ یوں ہے کہ برطانوی استعمار کے تسلط میں رہنے والے ملکوں کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ وہاں اصل Decolonization اب ہو گی۔ وجہ یہ ہے کہ دنیا میں برطانوی سلطنت کا سورج غروب ہونے کے بجائے امریکہ کو منتقل ہو گیا تھا۔ برطانیہ جو کام ان ملکوں پر با ضابطہ قبضے کے ذریعے کر رہا تھا‘ امریکہ نے وہ کام اپنے ملک میں بیٹھے کرنا شروع کردیا۔ اس سارے عمل میں برطانیہ ایک کارِ خاص کی طرح امریکہ کے ساتھ رہا۔ ان دونوں طاقتوں کے ایک ہونے اور رہنے کی ایک بڑی وجہ برطانوی استعماریت کے دوران اس کے اپنے انداز اور مفاد کے پیدا کردہ لوگوں کا ایک بڑا گروپ ہے‘ جو برطانیہ ان ممالک میں چھوڑ آیا تھا جہاں اس نے حکمرانی کی۔ اس میں سرفہرست سول بیوروکریسی کا نظام ہے‘ جو آج بھی جنوبی ایشیائی ممالک میں ایک مردہ ہاتھی کی طرح موجود ہے۔ اسی طرح جنوبی ایشیا کے دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی اکثریت‘ جو برطانیہ کے یہاں سے چلے جانے کے بعد بھی اس کی وفادار تھی اور آج بھی ہے‘ اس کا امریکہ نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس سب پس منظر میں مغرب کیلئے اپنی حاکمیت قائم رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ یہ بھی تھا کہ براعظم ایشیا کو اس طرح الجھا کے رکھا جائے کہ یہ علاقہ آگے بڑھنے کے بجائے جنگی الجھنوں میں مبتلا رہے۔ اس میں سب سے اہم بات کبھی جنوبی ایشیا کا دنیا کی کل معیشت میں ایک چوتھائی سے زائد کا حصہ ہونا تھا لیکن اب چین جاگنے سے آگے بڑھتے ہوئے دنیا کو از سر نو ترتیب دے رہا ہے۔ اس کا سٹائل‘ پالیسی اور محاذ نرم طاقت والے ہیں۔ اس نرم طاقت کو مثبت طاقت بھی کہا جاتا ہے۔
Sleeping giant to silly giant
بات ہو رہی تھی بر اعظم کا درجہ رکھنے والے ممالک کی تو اس ضمن میں ابھی بھارت کا ذکر باقی ہے۔اس کی آبادی‘رقبے اور عالمی معاشی پیداوار کو جمع کریں تو اس کا سکور 23بنتا ہے لیکن یہاں ایک بات بہت عجیب یا منفی ہے‘جو یہ بتاتی ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ غریب آبادی بھارت میں ہے‘ یہاں پیدا ہونیوالے 40 فیصد بچوں کا وزن کم ہوتا ہے‘ اتنے فیصد آبادی کو ہی ٹائلٹ کی سہولت بھی میسر نہیں ہے۔اس ملک کی تیس کروڑ سے زیادہ آبادی(ہر چوتھے شخص) کو بجلی کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ اس کے باوجود یہ ملک نہ صرف ایک علاقائی مسلح طاقت کا خواب دیکھتا ہے بلکہ ایک گینگسٹر جیسا رویہ اختیار کیے رہتا ہے۔اسی لیے ماہرین اس کو Silly Giantکا نام دیتے ہیں۔اس اصطلاح کی مکمل وضاحت کا سلسلہ بھارت کی حرکات کی طرح جاری رہے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved