Medea Benjamin امریکی صحافی، مصنفہ اور سوشل ورکر ہیں اور وہ ممتاز سماجی سائنسدان نوم چومسکی کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو ہر طرح کے دبائو کے باوجود سچ کہنے اور سچ سننے کا حوصلہ رکھتے ہیں ۔ اس فضا میں جبکہ امریکہ پرشام کے خلاف جارحیت کا جنون طاری ہے اور حملہ کے لیے حیلے بہانے تلاش کر رہا ہے۔اُس پر تنقید آسان نہیں۔ مگر بنجمن ہمیشہ اپنی تحریروں میں خونی امریکی ورلڈ آرڈر کے تحت قتل و غارت، وحشت اور خونریزی کو شدید تنقید کا نشانہ بناتی ہیں، علاوہ ازیں امریکی جارحیت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے مختلف طرح کے مظاہروں میں بھی حصہ لیتی ہیں۔ اس مقصد کے Anti War مقاصد پر مبنی، خواتین، خصوصاً مائوں کیCodepinkکے نام سے تنظیم بھی بنا رکھی ہے۔ انہیں یہ تنظیم بنانے کا خیال کیسے آیا، یہ کہانی بھی بہت دلچسپ اور چشم کشا ہے۔ اس سے پہلے وہ ایک اور تنظیم سے وابستہ تھیں۔ آج کل Medea Benjamin اپنی ساتھیوں کے ساتھ مل کر امریکہ کے شام کے خلاف خون آشام جنگی عزائم کے خلاف ہر روز احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ آج اگر صدر اوباما کو شام پر حملے کے خلاف ہر طرف سے تنقید کا سامنا ہے تو اس میں بنجمن جیسی بہت سی امریکی مائوں کا کردار بنیادی اور اہم ہے، جو جنگ کے شعلوں میں بے گناہ مرنے والے معصوم بچوں، کا درد رکھتی ہیں۔ اس درد کو بنجمن نے پہلی بار کب اور کہاں محسوس کیا کہ اسے لگا کہ اگر بطور ماں اس نے جنگ میں مرنے والے بچوں کے حق کے لیے آواز بلند نہ کی تو اخلاقی جرم کا شکار ہوجائے گی۔ اس نے اس ذمہ داری کو ایک رپورٹر اور مصنفہ کی حیثیت سے زیادہ ایک ماں کی حیثیت سے محسوس کیا۔ بنجمن کئی کتابوں کی مصنفہ ہے، مگر ایک کتاب جو اس نے افغانستان اور پاکستان میں ڈرون حملوں کے حوالے سے لکھی ہے اس میں وہ اس واقعے کا تذکرہ کرتی ہیں۔ اپنی کتاب Drone Warfare- Killing by remote control میں یہ درد دل رکھنے والی صحافی لکھتی ہیں کہ جب 11/9افغانستان میں امریکی جنگ کا آغاز ہوا تو وہ جنگ کے بارے میں فرسٹ ہینڈ انفارمیشن لینے کے لیے افغانستان جانے سے پہلے پاک افغان سرحد پر موجود تھی جہاں ان کی ملاقات ایک گیارہ سالہ افغان بچی رویا سے ہوئی۔ رویا کا چہرہ بہت معصوم اور رنگت سرخ و سپید تھی، مگر اس کے سنہری بالوں میں کئی دنوں کی دھول اور گرد اٹی تھی۔ وہ پھٹا پرانا فراک پہنے ہوئے تھی اور اس کے نرم و گداز پائوں جوتی سے بے نیاز تھے۔ بدحالی کی دھول میں اٹکی، یہ معصوم بچی، پاک افغان سرحد پر بھیک مانگ رہی تھی۔ اسے صرف اپنا پیٹ ہی نہیں پالنا تھا بلکہ گھر میں دو معذور بھائی اور بیمار باپ بھی رویا کے منتظر تھے کہ کب وہ چند سکے لے کر آئے اور وہ کچھ کھانے کو خرید سکیں۔ درد دل رکھنے والی امریکی رپورٹر، بنجمن کی ملاقات رویا سے ہوتی ہے۔ اس نے بچی سے پوچھا کہ تم یہاں بھیک کیوں مانگتی ہو، سکول کیوں نہیں جاتی۔ تب رویا نے اسے اپنی داستان سنائی۔ رویا کا تعلق افغانستان سے تھا بدقسمتی سے اس کا گھر تورا بورا کے نزدیک تھا جو امریکی ڈرون حملوں کا ہدف بنا۔ رویا نے بتایا کہ ایک روز اس کا باپ مزدوری کے لیے گیا ہوا تھا وہ اپنے بہن بھائیوں اور ماں کے ساتھ گھر پر تھی۔ آنگن میں سب بہن بھائی مل کر کھیل رہے تھے کہ اچانک آسمان سے ایک مشین سی اڑتی ہوئی آئی اور خوفناک انداز میں ان کے گھر پر گری۔ دھماکہ ہوا اور اس کے بعد اس کی پیاری ماں اور دو بھائیوں کے جسم چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بدل گئے جبکہ وہ اور اس کے دو بھائی زخمی ہوئے۔ جب باپ گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا گھرانہ اجڑ چکا تھا۔ رویا کہتی ہے کہ انہیں آج تک خبر نہیں کہ وہ مشین ان کے گھر پر کیوں گری۔ وہ کہتی ہے کہ آج بھی اسے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے خوف آتا ہے۔ پھر وہ افغانستان سے پاکستان آگئے۔ اب ایک خیمے میں رہتے ہیں۔ اس کا باپ اور بھائی کما نہیں سکتے۔ اس لیے اسے بھیک مانگنا پڑتی ہے۔ بنجمن کہتی ہے کہ امریکی ڈرون حملے میں اپنا گھر، اپنی ماں اوراپنے دو بھائیوں کو کھو دینے والی افغان بچی کو دیکھ کر اسے اپنی 15 سالہ بیٹی اور اس کی سہلیاں یاد آگئیں۔ جو امریکہ میں بہترین حالات میں اپنے بچپن کے دنوں سے لطف اندوز ہورہی ہیں۔ وہ بہترین سکولوں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ من پسند کھانے کھاتی ہیں، جو چاہا پہنتی ہیں، تحفظ اور پیار کے ماحول میں ان کے گرد خوشیاں ہی خوشیاں ہیں جبکہ رویا اور اس جیسے دوسرے افغان بچے جو جنگ زدہ علاقوں میں ہیں، ان کی زندگیاں خوشی اور تحفظ کے احساس سے بہت دور ہیں۔ میڈیسا بنجمن لکھتی ہے کہ اس لمحے مجھے امریکہ کی بے جواز جنگی پالیسیوں سے سخت نفرت ہوئی۔ میرے دل میں گیارہ سالہ ا فغان بچی کا درد اتر گیا ۔وہیں اس نے فیصلہ کیا کہ وہ امریکی مائوں کو متحرک کرے گی کہ وہ امریکی پالیسی سازوں کے ضمیر کو جگانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ واپس آ کر اس نے انٹی وار تنظیم Codepink کی بنیاد رکھی۔ میڈیا بنجمن کے دل میں مامتا کا جذبہ صرف امریکی بچوں کے لیے نہیں بلکہ دنیا کے تمام بچوں کے لیے ہے۔ یہ خاتون ایک مثال ہے۔ ہماری ان خواتین اور مائوں کے لیے جو کراچی میں کسی کارکن کے قتل اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ ان کی وابستگی اور محبت، سیاسی جماعتوں سے ہے، انسانوں اور پاکستان سے نہیں۔ کراچی جہاں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان طاقت کا کھیل جاری ہے اور طاقت کے کھیل میں ہر گلی مقتل بن چکی ہے۔ معصوم بے گناہ لوگ روزانہ موت کے گھاٹ اترتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ مائیں اور بہنیں، بنجمن کی طرح اپنی جماعت بنائیں اور کراچی میں ہونے والی بے رحم سیاسی دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھائیں اور ایسی سیاست پر لعنت بھیجیں جس میں وہ صرف اپنی سیاسی جماعت سے وابستہ مرنے والوں کے لیے ماتم کناں ہوتی ہیں۔ سڑکوں پر آ کر احتجاج کرتی ہیں؛ بلکہ وہ ایک ماں، ایک بیٹی اور ایک بہن کی حیثیت سے طاقت اور سیاست کے اس کھیل میں ہر مظلوم کا ساتھ دیں اور ہر ظالم کے خلاف آواز بلند کریں۔ Codepink کی ان تمام مائوں کی طرح جو اپنے ہی ملک، امریکہ کی جنگی جارحیت کا شکار ہونے والے دنیا بھر کے تمام مظلوموں کے لیے صدائے احتجاج بلند کرتی ہیں۔ خواہ ان کا تعلق افغانستان سے ہو، پاکستان سے یا دنیا کے کسی بھی ملک سے۔کیونکہ ان کی کمٹمنٹ انسان اور انسانیت کے ساتھ ہے۔!!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved