تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     08-05-2023

صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل ، محرکات اور خواہشات

کرپٹ پریکٹس کی دفعات 167‘ 174‘ 190 اور 190 (اے) کے تحت توشہ خانہ کیس میں فوجداری کارروائی کے تحت 10 مئی کو فردِ جرم عائد ہونے پر سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا رہا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 62 (اے) کے تحت نااہل قرار دے چکا ہے اور اس فیصلے کی روشنی میں ان کے خلاف الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 137 کے تحت فوجداری مقدمہ اسلام آباد کی سیشن کورٹ میں دائر کیا گیا۔ عدالت ِ عظمیٰ‘ عدالتِ عالیہ اور ماتحت عدالتیں تحمل سے عمران خان کے خلاف قائم مقدمات کی سماعت کرتی رہیں اور ان کو اپنے خلاف مقدمات میں آئین و قانون کے مطابق اپنے دفاع کے مواقع فراہم کیے گئے لیکن ان کے وکلا کے دلائل اسی نکتے کے گر د گھومتے رہے کہ عدالتیں ان کے خلاف مقدمات کی سماعت کرنے کی مجاز ہی نہیں۔ خان صاحب کے وکلا کے یہ دلائل ایڈیشنل سیشن جج کو قائل نہ کر سکے۔ اب جبکہ عمران خان 10 مئی کو ذاتی حیثیت میں ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں فردِ جرم کا سامنا کریں گے تو فردِ جرم کے بعد باقاعدہ سماعت شروع ہو جائے گی‘ البتہ بعض قانونی ماہرین کی رائے میں یہ امکان بھی موجود ہے کہ خان صاحب کو عبوری ضمانت مل جائے گی‘ بہرکیف ان کا سیاسی مستقبل اسی کیس سے وابستہ ہے۔
عمران خان الیکشن کمیشن کی توہین کے مقدمہ میں بھی ملوث ہیں اور ان کو غالباً مئی کے دوسرے ہفتے میں الیکشن کمیشن میں پیش ہونا پڑے‘ ان کے ہمراہ اسد عمر اور فواد چودھری کو بھی توہینِ الیکشن کمیشن کیس میں پیش ہونا پڑے گا کیونکہ وہ بھی اس میں ملوث تھے۔ وکلا اور خود عمران خان کو ادراک نہیں کہ الیکشن کمیشن کو پارلیمنٹ ایکٹ کی منظوری سے دفعہ 10 کے اطلاق کا استحقاق بھی دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے 14پریل کے فیصلے کے خلاف نظرِثانی کی جو درخواست سپریم کورٹ آف پاکستان میں دائر کی وہ بھی پڑھنے اور غور کرنے کے لائق ہے۔ اس میں الیکشن کمیشن نے واضح کیا کہ آئین کے آرٹیکل 199 اور آرٹیکل 184 (3) میں واضح فرق ہے۔ الیکشن کی تاریخ کے حوالے سے الیکشن کمیشن نے آئین کے آرٹیکل 184 (3) اور آرٹیکل 224 اور 244(اے) کو ساتھ ملا کر پڑھنے کی استدعا کی اور آئین کے آرٹیکل 244کی تعریف بیان کرتے ہوئے تینوں آرٹیکلز کو یکجا کر کے پڑھنے کا موقف پیش کیا ہے اور علیحدہ علیحدہ آرٹیکلز کو فیصلے کا حصہ نہ بنانے کی اپیل کی ہے۔
عمران خان نے اپنے ساتھیوں کے ورغلانے پر اعلیٰ عدلیہ کے بعض ریٹائرڈ عہدیداروں سے قریبی تعلقات پر انحصار کیا اور ان کی مشکلات میں ان لوگوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے جو شاید مستقبل قریب میں تحریک انصاف کا اہم حصہ بننے کی خواہش پر خان صاحب کو غلط تجاویز دیتے رہے ہیں۔ میں نے اپنی پوری سروس کے دوران ان لوگوں کی قابلیت کا گہری نظر سے جائزہ لیا ہے‘ میرے خیال میں ان کی قابلیت اپنے عہدے تک محدود رہی‘ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے قابلیت کے غبارے سے ہوا نکل جاتی ہے اور بعد ازاں پارٹیوں کے ٹکٹ فروخت کرنے کی راہ پر نکل پڑتے ہیں۔ اسی طرح ریٹائرمنٹ کے بعد بعض جنرلز بھی اپنی قابلیت کا بھرم برقرار رکھنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے سابق چیف جسٹس پر جو الزامات لگائے گئے اس پر ملک کے اعلیٰ اداروں کی جے آئی ٹی تشکیل دی جا رہی ہے اور ان کے خلاف ریفرنس بھی قومی اسمبلی کی وساطت سے الیکشن کمیشن میں دائر ہوچکا ہے۔ اس کے حوالے سے الیکشن ایکٹ 2017ء کی دفعہ 174 کا سہارا لیا گیا۔ الیکشن ایکٹ کی دفعات 60 اور 62 کے تحت کاغذاتِ نامزدگی کے فارم میں بیانِ حلفی میں لکھنا ہوتا ہے کہ پارٹی ٹکٹ کے حصول کے لیے کتنی رقم پارٹی فنڈز میں جمع کرائی اور جب پارٹی کا ٹکٹ ایوارڈ کیا گیا تو کتنی رقم پارٹی کے سربراہ کودی۔یہ اہم شق آج تک ریٹرننگ آفیسرز اور میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہی۔ اب جبکہ ملک کے ممتاز سابق چیف جسٹس کے بیٹے کا معاملہ سامنے آ رہا ہے تو اس شق کو بھی مدنظر رکھا جائے اور جس پارٹی کے امیدوار اس میں ملوث ہیں ان کے کاغذاتِ نامزدگی اسی شق کے تحت مسترد کیے جا سکتے ہیں۔ اس شق کو انتخابی اصلاحات کمیٹی نے میری تجویز پر 2017ء کے الیکشن ایکٹ کا حصہ بنایا تھا کیونکہ میں نے بنگلہ دیش کے انتخابی قوانین کی اہم شقیں انتخابی اصلاحات کمیٹی کو بھجوائی تھیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان جب مذکورہ ریفرنس کی سماعت کرے تواسے ان قوانین پر بھی غور کرنا چاہیے۔
عمران خان نے دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے پس پردہ محرکات کا ذکر کرتے ہوئے قمر جاوید باجوہ پر تنقید کرتے ہوئے بار بار اپنے بیانیہ میں ان کا ذکر کیا ہے کہ انہی کی ایما پر یا مشورہ پر انہوں نے دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کروا دیں۔ میری دانست میں جنرل (ر) باجوہ کو محض شیلٹر کے طور پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے‘ بادی النظر میں خان صاحب کے اس فیصلے کے پیچھے انہی لوگوں کا وژن تھا جو انہیں قانونی مشورے دیتے ہیں اور ملک میں الیکشن کروانے کی راہ ہموار کر کے عمران خان کی دو تہائی اکثریت کے منتظر ہیں تاکہ آئین میں ترامیم کر کے ججز کی مدت ملازمت میں تین سال سے پانچ سال تک کی توسیع کروا دی جائے۔یاد رہے کہ جب عمران خان نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع کروائی اور قومی اسمبلی میں ان کو دوتہائی اکثریت فوری طور پر مل گئی اس وقت میڈیا میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ جب جنرل باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع کا معاملہ عدالت میں اٹھایا گیا تو اس وقت کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مبینہ طور پر اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے لیے عمران خان پر دباؤ ڈالا اور جب عمران خان نے صاف گوئی سے انکار کر دیا تو جسٹس کھوسہ نے عدالتی بحران پیدا کرنے کی کوشش کی جسے اُس وقت کے وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے ناکام بنانے کے لیے وزارت قانون اور پارلیمانی امور سے استعفیٰ دے کر وفاق کا مقدمہ لڑا جبکہ جسٹس کھوسہ نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے فروغ نسیم کی ڈگری پر سوالات اٹھائے اور وزیراعظم آفس کے سینئر بیوروکریٹ کی قابلیت پر بھی تنقید کی تھی۔ ججز کی مدتِ ملازمت کی خواہش یا عمر کے بارے غیر مصدقہ سرٹیفکیٹس پیش کرنے کا سلسلہ جسٹس سجاد علی شاہ کے دور سے شروع ہوا‘ درمیان میں بھی بعض اہم ترین لوگوں نے وہی دعوے کیے کہ ان کے برتھ سرٹیفکیٹ پر نظرِثانی کی جائے‘ جن میں بعض ایسے ججز بھی شامل تھے جن کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں موجود ہے‘ غالباًجسٹس اجمل میاں نے بھی آگرہ سے ایسی دستاویزات منگوائی تھیں جن میں برتھ سرٹیفکیٹ کے تحت عمر میں رد و بدل کرنا چاہتے تھے‘ اسی طرح جسٹس ناظم صدیقی جب چیف جسٹس تھے وہ بھی ججز کی مدت ملازمت میں تین سال کی توسیع چاہتے تھے جسے سینئر ترین جج افتخار محمد چودھری نے ناکام بنا دیا اور اب کہا جاتا ہے کہ عمران خان نے باور کرایا ہے کہ ان کی حکومت آ گئی تو ججز کی مدت ملازمت میں توسیع کر دی جائے گی‘ جیسا کہ انہوں نے جنرل باجوہ کو یقین دہائی کرائی تھی۔ بہرکیف چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے حالیہ ریمارکس میں سوموٹو لینا چھوڑنے اور تحمل کا مظاہرہ کرنے کے حوالے سے جو کچھ کہا ہے وہ ریاست کے مفاد میں ہے۔ ان خوش آئند ریمارکس پر قوم چیف جسٹس آف پاکستان کی احسان مند ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved