تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     08-05-2023

مغلوں کی شکست اور انگریزوں کی فتح کے اسباب…(3)

آپ کو شاید یاد ہوگا کہ پچھلے ہفتہ دوسری قسط اکبر پر ختم ہوئی تھی۔ آج تیسری قسط اکبر کے بیٹے مراد سے شروع ہوگی۔ مراد کثرتِ شراب نوشی سے تیس برس کی عمر میں جبکہ دوسرا بیٹا (دانیال) بھی اسی وجہ سے 33 برس کی عمر میں مر گیا۔ تیسرا بیٹا سلیم (جہانگیر) تھا جو اقتدار کی ہوس میں اپنے باپ کے خلاف علم بغاوت بلند کر کے باپ کی زندگی میں تخت و تاج پر قابض ہونا چاہتا تھا۔ اُس نے بادشاہ کے ایک اہم وزیر ابوالفضل کو قتل کر کے الہ آباد جا کر اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ یہ بغاوت ناکام ہوئی مگر ہزاروں سپاہی ناحق مارے گئے۔ سلیم کی پہلی بیوی راجکماری مان بائی سے بیٹا پیدا ہوا جس کا نام خسرو تھا۔ اکبر سلیم سے نالاں ہو کر چاہتا تھا کہ اپنے پوتے خسرو کو اپنا ولی عہد بنالے۔ سلیم نے علم بغاوت بلند کیا اور اپنے باپ اکبر اور بیٹے خسرو کے خون کا پیاسا ہو گیا۔ مان بائی اس درجہ دل گرفتہ ہوئی کہ اُس نے شدتِ غم سے خودکشی کر لی۔ اکبر کو مجبو راً سلیم کو ہی اپنا وارث بنانا پڑا۔ میری تحقیق کے مطابق سلیم نے سازش کر کے ( زہر دے کر) اپنے باپ کو قتل کروادیا۔ باپ بیٹے کے درمیان اقتدار کی جنگ میں بیٹے خسرو کو شکست ہوئی جسے جہانگیر نے قیدی بنا لیا۔ خسرو قید سے فرار ہوا اور سکھ سردار گرو ارجن سنگھ سے رحم کی بھیک مانگی۔ اُنہوں نے رحم کھا کر خسرو کو پانچ ہزار روپے دیے۔ اُس نے اپنی فوج جمع کر کے دوبارہ اپنے باپ پر یلغار کر دی لیکن شکست کھا گیا۔ جہانگیر نے بیٹے کی جان تو بخش دی لیکن اس کی پوری فوج کو قتل کر دیا‘ سکھوں کے گرو ارجن سنگھ کو بھی۔ اسی بنا پر سکھوں کی مسلمانوں سے ازلی دشمنی شروع ہوگئی جس کا آخری مظاہرہ 1947ء میں تقسیمِ ہند کے وقت پنجاب میں خونیں فسادات کی صورت میں ہوا۔نذیر الدین اپنی کتاب : ''پہلا پتھر‘‘ میں اپنے بیانیہ کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ خسرو کو آگرہ کے قلعہ میں بند کر دیا گیا۔ اس نے راجپوتوں کی مدد سے دوبارہ بغاوت کی لیکن پھر ناکام ہوا۔ جہانگیر نے اس کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر اسے اندھا کروا دیا۔ بصارت سے محرومی بھی اُس کی جان نہ بچا سکی۔ خسرو کے بھائی خرم (شاہ جہان) کو جو اُس وقت دکن میں تھا خوف پیدا ہوا کہ خسرو اندھا ہونے کے باوجود کہیں اقتدار پر قبضہ نہ کرلے۔ اس نے اندھے بھائی کو دکن بلوا کر قتل کروا دیا۔
اب ہم چلتے ہیں جہانگیر کی طرف۔ اُس کی خود نوشت کے مطابق اس کا یہ حال تھا کہ ہر لمحہ نشے میں پڑا رہتا تھا۔ جب کثرت شراب نوشی بھی بے اثر ہونے لگی تو شراب میں افیون ملا کر پیا کرتا تھا۔ 38 برس کی عمر میں بسیار خوری اور بسیار نوشی سے جسم میں رعشہ پڑ گیا۔اکبر کی طرح جہانگیر بھی پرتگالیوں کی بحری قوت اور برتر اسلحہ سے مرعوب تھا اس لئے وہ اُنہیں خصوصی مراعات سے نوازتا رہا۔ حسبِ روایت باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے خرم (شاہجہان) نے بھی اقتدار کی خاطر باپ ہی کے خلاف بغاوت کی اور بھائیوں کو قتل کیا اور مسندِ اقتدار پر بیٹھ کر قوم کی تقدیر کا بلاشرکت غیرے مالک و مختار بن بیٹھا۔ قوم نے بھی حسبِ روایت زندہ باد اور مبارک‘ سلامت کے نعرے لگائے اور مست نیند سو گئی۔ شیر شاہ سوری کی کمال کی اصلاحات اور اکبر کی دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کے اثرات ابھی باقی تھے‘ مملکت میں قدرے سکون تھا‘ طوائف الملوکی نہیں تھی اور (محاورے کے مطابق) چین کی بانسری بجائی جا رہی تھی۔ کم از کم راوی نے یہی لکھا۔ شاہ جہاں کو اپنی وفات پا جانے والی بیوی ممتاز محل سے عشق کو لازوال بنانے کیلئے دنیا کا سب سے عظیم الشان مقبرہ بنانے کی سوجھی۔ تاج محل کی تعمیر پر کل بیس سال لگے۔ اربوں روپے خرچ ہوئے۔ اگر یہ سرمایہ علم کے فروغ اور صنعت و حرفت پر خرچ ہوتا اور زر کی گردش جاری رہتی تو قوم کی کایا پلٹ چکی ہوتی۔ یہ وہ دور تھا جب انگلستان کے تاریک جزیرے میں کیمبرج اور آکسفورڈ یونیورسٹیاں بن چکی تھیں جو علم کی روشنی پھیلانے کیلئے آنے والی صدیوں میں مصروف ہو گئیں دوسری طرف بد قسمت ہندوستان میں قومی پیداوار اور دولت کا بہائوبے لگام حکمران جاگیرداروں کے ذریعہ بادشاہ کے خزانہ میں پہنچ کر ساکت و جامد ہو جاتا تھا۔ ارتقائی عمل کی بنیادی شرط یعنی قانون سازی کا موہوم ساتصور تک نہ تھا۔ معاشرہ بدترین سکوت و جمود کا شکار تھا۔
اب ہم ایک قدم آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ شاہ جہان کا اپنا لختِ جگر (اورنگزیب) اپنے اجداد کی روایت پر عمل کرتے ہوئے اپنے بھائیوں کی لاشوں کو روندتا ہوا اقتدار پر قابض ہو جاتا ہے اور اپنے باپ کو قید میں ڈال دیتا ہے۔ شاہ جہاں اپنے بیٹے کی قید میں مسلسل آٹھ برس تک ایڑیاں رگڑتا رہا۔ لیکن (نام نہاد) ولی صفت بیٹا ایک بار بھی باپ کی شکل دیکھنے قید خانے نہ گیا۔ اورنگزیب کی بادشاہی ختم ہوئی تو عمل اور اصلاح کا وقت گزر چکا تھا اور سزا کا وقت آن پہنچا تھا۔ جب کوئی قوم پیداواری عمل میں شریک ہو کر اپنی محنت شاقہ سے قدرتی وسائل کو استعمال کر کے رزق حاصل نہیں کرتی اور غیر متحرک ہو کر جمود کا شکار ہو جاتی ہے تو دوسری متحرک قوتیں کہیں اور سے آکر ان وسائل پر قابض ہو کر اس غیر متحرک قوم کو غلام بنا لیتی ہیں۔ یہی تقدیر کے قاضی کا ازل سے فتویٰ ہے۔
ہندوستان میں مغلیہ دور کی آخری ایک صدی ریت کی دیوار کی طرح تھی۔ وہ ہوا کے ایک تیز جھونکے کی منتظر تھی جو بالآخر انگریز کی شکل میں آیا جس نے برصغیر ہند کو بلا کسی قابلِ ذکر مدافعت کے (ماسوائے سکھوں اور مرہٹوں اور ٹیپو سلطان) ٹھوکروں میں روند کر صدیوں کے لیے اپنا غلام بنا لیا۔ مغل بادشاہوں نے ہندو ستان کی پوری مملکت کو اپنی ذاتی جاگیر قرار دے کر قوم سے حقِ وراثت اور حقِ ملکیت چھین لیا۔ یہی وہ سب سے بڑا ظلم تھا جو مغلوں نے ہندوستانیوں پر کیا اور بالآخر یہی قوم کی تباہی‘ بربادی اور غلامی کا سبب بن گیا۔ جب افغانی و تورانی مسلمان ہندوستان آئے تو اسلام کی روحانیت کے ساتھ ساتھ اپنے قبائلی رسم و رواج اور ذہنیت بھی لائے۔ مسلمان فاتحین کے ساتھ اسلام روحانی حد تک آیا جبکہ معاشرتی اور سیاسی نظام اسی فرسودہ مطلق العنانیت پر قائم رہا جو تاریخ میں قیصر و کسریٰ جیسی عظیم الشان سلطنتوں کو دیمک کی طرح چاٹ چکا تھا۔ مسلمانوں نے مختلف ادوار میں (ہندوستان اور مشرقِ وسطیٰ اور سپین میں) بڑی بڑی عظیم الشان سلطنتیں قائم کیں لیکن کسی بھی سلطنت کو بقا اور دوام حاصل نہ ہوا۔ کوئی بھی سلطنت کسی بھی ضابطے و آئین اور دستور کے تابع نہیں تھی‘ نہ اختیارات کی تقسیم کا کوئی نظام تھا‘ نہ فرائض کی ادائیگی کا کوئی منظم طریق کار۔ تمام تر اقتدار و اختیارات فردِ واحد کی صورت میں مرتکز رہتے نتیجتاً کبھی بھی انتقالِ اقتدار پرُ امن طور پر نہ ہوا۔ ہزاروں مسلمانوں کی گردنیں کاٹ کر باپ اور بھائیوں کی لاشوں پر چڑھ کر ہی اقتدار کا حصول ممکن ہوتا۔ جو بھی اقتدار پر بزورِ شمشیر قابض ہو جاتا سارا ہندوستان اس کے آگے جھک جاتا۔
چودہویں صدی میں جب سپین میں آٹھ سو سال طویل اقتدار کا خاتمہ ہو رہا تھا ہسپانوی اور پرتگالی قومیں اس اسلامی سلطنت کے خلاف برسر پیکار تھیں۔ پرتگال (رقبہ صرف 38 ہزار مربع میل) کو عروج یوں حاصل ہوا کہ اس نے فن جہاز رانی اور اسلحہ سازی میں حیرت انگیز ترقی کی اور دنیا کو فتح کرنے کیلئے بحری مہمات اور سفر اختیار کیے۔ واسکوڈے گاما وہ پہلا کامیاب مہم جُوتھا جس نے جنوبی افریقہ کا چکر کاٹ کر بحر اٹلانٹک سے بحرہندکو عبور کیا اوربحری گزرگاہ کے نقشے بنائے اور پھر عرب جہاز رانوں کی مدد سے ہندوستان کے ساحل (گوا) پہنچا اور ساتھ ساتھ اس عہد ساز تاریخی سفر کے نقشے بناتا گیا جو پہلے اُس کی اپنی بحریہ اور بعد ازاں انگریز مہم جو ملاحوں کے کام آئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved