سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں نوے روز یا اس کے لگ بھگ مدت کے اندر عام انتخابات بارے کیا فیصلہ کیا ہے یہ تو واضح ہے لیکن ایک سیاسی تجزیہ کار اورکالم نگار کی حیثیت سے اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ پنجاب کے انتخابات کے متعلق کیا دیکھ رہے ہیں تو میں سوال کنندہ سے دو باتیں کروں گا جن میں سے ایک یہ کہ نئی سرکاری پارٹی (ق) لیگ کی ٹکٹوں کی تقسیم اگر تو ہو چکی ہے تو پھر کہا جا سکتا ہے کہ شاید چند دن آگے پیچھے کرتے ہوئے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کا بگل بجا دیا جائے کیونکہ تحریک انصاف میں ٹکٹوں کی تقسیم کے بعد ادھر کے محرومین سے رابطوں میں دوسری جانب سے تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے اند رسے دو جماعتوں کی آبیاری کا پلان نا چیز تک کب کا پہنچ چکا ہے۔اطلاعات یہ ہیں کہ پنجاب اور کے پی سے سات سے دس مقامات پر لوگوں کو بلایا جا رہا ہے‘ یہ جگہیں کون سی ہیں‘ اس بارے صرف اتنا ہی بتا سکوں گا کہ ایسی ہی جگہوں پر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ہونے والے عام انتخابات کیلئے ہر ضلع اور تحصیل سے با اثر اور برادری والے لوگوں کو بلا کر ٹکٹ تھمائے جاتے رہے۔ ا ب (ق) لیگ کیلئے پھر وہی سہولت کاری کی جا رہی ہے اور اس کیلئے فرید کوٹ ہائوس کی بھر پور مدد لی جا رہی ہے‘ بلکہ کچھ لوگوں نے تو وہاں سے ایک دو فہرستیں بھی دیکھ رکھی ہیں جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ ملک احسان اﷲ ٹوانہ جیسے ایماندار اور زندگی بھر اپنی کر کے کھانے والے کا نام بھی ان فہرستوں میں شامل دیکھا جا چکا ہے۔ ان سے کبھی ملنے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن ان کی شرافت اور ایمانداری کا ایک زمانہ گواہ ہے اور مانا جاتا ہے کہ خوشاب میں ان کی کامیابی کے اتنے ہی امکانات ہیں جتنے عمران خان کے میانوالی سے۔
اب کچھ ذکر 14مئی کے پنجاب کے متوقع انتخابات کا اور اس سلسلے میں بتاتا چلوں کہ وسط اپریل میں جب پٹرول کی قیمتوں میں دس روپے کا اضافہ کیا گیا تو میں نے اسی وقت کہہ دیا تھا کہ 14 مئی کو انتخابات کا سوچئے گا بھی نہیں کیونکہ اگر شہباز شریف اور زرداری صاحب کو یقین ہوتا کہ پنجاب میں الیکشن چودہ مئی کو ہو کر رہیں گے یا ان کے اتحادی ان انتخابات کیلئے ذہن تیار کر چکے ہوتے تو پٹرول کی قیمتیں بجائے بڑھانے کے بیس سے تیس روپے تک کم کی جانی تھیں۔ تحریک انصاف سے (ق) لیگ کی جانب محوِ سفر ایک صاحب جو ابھی راستے ہی میں ہیں‘ کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ بجٹ میں پٹرول سمیت بہت سی اشیا کی قیمتیں اسی طرح کم کی جائیں گی جس طرح 2018ء میں میاں نواز شریف نے شاہد خاقان عباسی کی وزارت عظمیٰ کے جھنڈے تلے اسحاق ڈار سے بجٹ پیش کراتے ہوئے مراعات دی تھیں‘ جس میں تنخواہ دار طبقے کیلئے انکم ٹیکس کی نئی سلیب کی ر عایت بھی شامل تھی۔ نواز لیگ اور پی پی پی جب الیکشن جیتنے والا بجٹ پیش کر یں گے تبھی سمجھئے گا کہ الیکشن کی تاریخ کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔اس وقت تو ملک کی ہرسیاسی طاقت کی اولین ترجیح ایک ہی ہے کہ عمران خان سیاست سے باہر ہوں اور لندن سے میاں نواز شریف کی باعزت واپسی کا امکان پیدا ہو۔جب تک ان کی ضمانت اور نا اہلی کے خاتمے کی یقین دہانیاں ہیلی کاپٹر کیس اور مشرف کے طیارہ کیس کی سزا کے خاتمے کی طرح نہیں ہوتیں الیکشن کا فیصلہ نا ممکن نظر آتا ہے۔شنید ہے کہ لندن کی ضد ہے کہ خان صاحب کو نا اہل کرنے کے علا وہ کم از کم تین سال کی سزا بھی ہو اور لندن کیلئے ما حول یوں سازگار ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو قید کی سزا کے خلاف اپیلوں کی سماعت کو کم ازکم ایک سال تک معرضِ التوا میں رکھا جا ئے۔
ا س عرصے میں ان کی جماعت کو (ن) لیگ‘ (ق) لیگ اور پی پی پی آپس میں بانٹ لیں اور اس کیلئے بعض مہربانوں کی شفقت اس قدر جوش مار رہی ہے کہ اگر ایسے حالات بن جائیں تو کسی کو یقین ہی نہیں آئے گا کہ عمران خان کا کوئی سیاسی مستقبل بھی ہو سکتا ہے‘ لیکن چیف جسٹس اور آئین پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کیلئے لاہور میں نکالی جانے والی ریلی سے عمران خان کا خطاب بھی ایسا ہے جس کی معنویت پر غور ہونا چاہیے۔ خان صاحب نے کہا کہ اس وقت ملک کو الیکشن کی ضرورت ہے، الیکشن کے ذریعے عوامی نمائندوں کو آگے آنے کا موقع دیا جائے۔ حکومت کی صرف یہ کوشش ہے کہ سپریم کورٹ کے 14 مئی کے فیصلے پر عمل نہیں کرنا، پاکستان کے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی جو یہ کر رہے ہیں‘ یہ کسی غلط فہمی میں نہ رہیں کہ قوم باہر نہیں نکلے گی۔ چیف جسٹس اور عدلیہ کے خلاف مافیا پروپیگنڈا کر رہا ہے، اگلے ہفتے سے جلسے شروع کروں گا، 14 مئی تک جلسے کروں گا عوام کو تیار کروں گا، دو نگران حکومتوں کی مدت ختم ہو چکی ہے، ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، ہم ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ ہمیں الیکشن دیا جائے، پنجاب کے الیکشن کے لیے اپنی مہم شروع کر رہا ہوں۔70 فیصد پاکستان میں عوام کی کوئی نمائندگی نہیں ہے، اس وقت پنجاب یا کے پی میں عوامی نمائندگی نہیں ہے، اگر یہ حکومت چلتی رہی تو ملک کا دیوالیہ نکال جائے گا۔ خان صاحب کے خلاف 140 سے زائد مقدمات کا اندراج کوئی معمولی بات نہیں‘ اس سے دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہو رہی ہے‘ ہر حرکت اور عمل کا رد عمل ہو رہا ہے جس کا شاید احساس بھی ہو رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ انتقامی جذبے یا من مانی سے کئے گئے فیصلے ملک و قوم کے لیے دیر پا نقصان کا سبب بن سکتے ہیں اور ایسے وقت میں ان کی شدت زیادہ ہو سکتی ہے جب ملک کے کونے کونے سے جذبات اور اشتعال کے احساسات پائے جارہے ہوں۔
آپ نے شاید دیکھا ہو کہ سوشل میڈیا کی مدد سے بہت سے لوگ 1947ء میں بچھڑنے والے خاندانوں کو آپس میں ملا رہے ہیں‘ان وڈیوز سے پاکستان پہنچنے والے خاندانوں کی دکھ بھری تکالیف اور بربریت سہنے کے قصے ہر کوئی جانتا ہے۔ 76 برسوں سے بچھڑے ہوئے بہن بھائیوں‘ماں باپ اوربیٹوں بیٹیوں کی داستانوں سے اندازہ ہو تا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا تھا۔ آج ہزاروں ایسی مائوں کی کہانیاں دیکھی سنی جا رہی ہیں جو بھارتی پنجاب میں ہی رہنے پر مجبور کر دی گئیں۔ندی نالوں میں لاشیں‘ دریائوں‘ سڑکوں اور ریلوے لائنوں پر لاشیں‘ میدانوں اور کھیتوں میں لاشیں‘یہ تھے وہ حالات جن سے گزر کر ہمارا آزاد وطن حاصل کیا گیا‘ آج جس وطنِ عزیز کو سیاسی مفادات کے قدموں تلے کیچڑ زدہ جوتوں سے لٹیروں اور قبضہ گروپوں کی طاقت سے روندا جا رہا ہے۔
ترازو ہمارے سامنے ہے‘انصاف کی کچہری موتی کی طرح چمکتی ہوئی سب کو دکھائی دے رہی ہے‘ اگر اس دودھ جیسی رنگت والی سفید پتھروں سے سجائی گئی عمارت اور اس کے اوپر بڑی ترتیب اور نفاست سے رکھے گئے ترازو اور اس پر کنندہ کئے گئے رب کریم کے فرمان کو نظر انداز کرتے ہوئے امانت میں خیانت کا سوچا جائے تو پھر آئین اور قانون کی پاسداری کی توقعات دم توڑ جائیں گی۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ جھوٹ کے بے ہنگم شور کا استعمال کرکے سب کی قوتِ سماعت کوختم کر سکتا ہے تو یاد رکھئے کہ یہ جو '' پبلک ہے سب جانتی ہے‘‘۔ایسا نہ ہو نوے روز کی آئینی مدت کا معاملہ قومی تاریخ کا سیاہ باب بن کر اس قوم کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن کر رہ جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved