تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-09-2013

انتظار

ابھی شاید اللہ کو منظور نہیں۔ ابھی کچھ دن اور ۔ مایوسی کا مگر سوال ہی نہیں ، اس لیے کہ مایوسی اور ایمان کسی دل میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے اور امیدبندوں سے نہیں ، اللہ سے ہوتی ہے ۔ مالک مضطرب کی دعا سنتاہے اور اہلِ تقویٰ ہی نہیں ، وہ خطاکاروں کا رب بھی ہے ۔ ؎ نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 25سے مولانا فضل الرحمٰن کے صاحبزادے اسعد محمود کے مقابلے میں تحریکِ انصاف کے داور خان کنڈی کی بے داغ فتح کس چیز کی مظہر ہے ؟ تجزیہ نگار ممکن ہے کہ بعض نئے نکات ہم پر منکشف کریں ۔ سامنے کی اس حقیقت کو بہرحال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ چند ماہ قبل اسی حلقے سے مولوی صاحب واضح اکثریت سے جیتے تھے ۔ پیہم ایک سوال پریشان کرتا ہے ۔کیا سیاست میں عمران خان کا ظہور محض ایک عمل انگیز (Catalyst)کے طور پر ہوا۔ کیا بالآخر وہ کچھ سنہری یادیں چھوڑ کر رخصت ہو جائیں گے یا اپنی غلطیوں کا ادراک کریں گے اورکامران ٹہریں گے ؟ 11مئی کی المناک شکست میرے لیے ایک ذاتی صدمہ بھی تھی ۔ سترہ برس تک بساط بھر کوشش کی تھی، خواب بنے تھے۔ بہت سی خارجی مزاحمتوں کے علاوہ ، خود اس کی طرف سے بھی رکاوٹیں کھڑی ہوتی رہیں۔ کبھی میں تفصیلات لکھ سکا تو پڑھنے والے ششدر رہ جائیں گے ۔ اگر یہ صدمہ میں برداشت کر سکا تو اس لیے کہ کئی ہفتے قبل ، ذہناً میں تیار ہوگیا تھا۔ رفتہ رفتہ اب وہ خود بھی اعتراف کرنے لگا ہے ۔ کچھ کر چکا، باقی کا کر لے گا۔ ساری زندگی وہ یہی کرتا رہا۔ فروری 1997ء کے الیکشن میں بائیکاٹ پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ مان گیا لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا ۔ اسی طرح مشرف ریفرنڈم۔ دلیل اس کے پاس کوئی نہ تھی۔ بات سن کر وہ خاموش ہو جاتا ۔ آخر وہ شب آگئی ، جب خود اسی کے بقول اس نے زمین کو گھومتے ہوئے پایا۔ پھر آئی ایس آئی نے اس کے ساتھیوں کو تتّر بتّر کر دیا۔ صرف ایک سیٹ وہ جیت سکا اور اس کی پارٹی زندہ بچ گئی ۔ عملی سیاست سے اس ناچیز کو کبھی دلچسپی نہ تھی ۔ خاندان میں کئی سیاستدان تھے اور سبھی کامیاب ۔ میرا میدان صحافت تھا اور میں نے ہمیشہ ایک آزاد آدمی کی لا ابالی زندگی گزاری تھی ۔ سیاست سے ایک طرح کی کوفت اور کراہت تھی ۔ عملی سیاست کے دائو پیچ سمجھنے کی اگر کوشش کی تو فقط اس کے لیے ۔ وہ جو دوسرے موثر رہنمائوں کے برعکس ذاتی طور پر ایک ایماندار آدمی تھا ۔ کوئی کام ادھورا نہ چھوڑتا تھا اور ہمیشہ کا رجائیت پسند تھا۔ جس نے پاکستان کے لیے کرکٹ کا عالمی کپ جیتا، شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی تعمیر کی ۔ میرے خاندان کا شمار امرا میں کبھی نہ تھا۔ وہ نچلے متوسط طبقے سے اٹھے اور جانفشانی کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے متوسط طبقے میں داخل ہوئے۔ وہ مجھ سے بڑے تھے ۔ملک کے ممتاز ترین لیڈروں سے ان کے گہرے ذاتی مراسم رہے۔ مجھ سے زیادہ بارسوخ اور باخبر ۔ ایک عشرے کی پیہم کوششوں سے ، ان سب کو میں نے تحریکِ انصاف کی پشت پر لا کھڑا کیا۔ ان سے بھی زیادہ اس درویش کے پورے قبیلے کو ، سیاست اور اقتدار جس کا مسئلہ ہی نہیں۔ ایک زمانہ جس کی بصیرت پہ گواہ ہے اور جس کا اندازہ شاذ و نادر ہی غلط ہو تا ہے ۔ حیرت انگیز طور پر ان میں سے کسی نے مجھ سے شکایت نہ کی ۔ میرے خالہ زاد بھائی ، سینیٹر طارق چوہدری نے بھی نہیں ، جن سے آخری ایام میں ، میں نے قومی اسمبلی کا ٹکٹ واپس کرنے کی درخواست کی ۔ عمران خان کے ایک دوست کی خواہش تھی کہ ٹکٹ کسی اور کو دیا جائے ۔ میرے گرامی استاد نے صرف اتنا کہا ’’ہم دھوکہ کھا گئے‘‘۔ یہ شفقت اور کرم کی حد تھی کہ اگر کوئی اس کا ذمہ دار تھا تو یہ خطاکار، وہ نہیں۔پھر قرآنِ کریم کی اس آیت پر میں سوچتا رہا ’’عسیٰ ان تکرھو شیئا و ھو خیر لکم وعسیٰ ان تحبو شیئا و ھو شرلکم‘‘۔ ’’ایک چیز کو تم نا پسندکرتے ہو ؛حالانکہ اس میں تمہارے لیے خیر ہو تی ہے۔ ایک چیز سے تم محبت کرتے ہو؛ حالانکہ اس میں تمہارے لیے شر ہو تا ہے‘‘۔ لازماً اسی میں بہتری ہوگی۔ غلطیاں بالکل واضح تھیں ۔ بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ اس نے یہ گمان کیا کہ وہ اللہ کا پسندیدہ آدمی ہے اور کامیابی اس کا مقدر ہے۔ 30 اکتوبر 2011ء کے عدیم المثال جلسہ ء عام کے ساتھ یہ رویّہ عروج کو پہنچا اور اس کے ساتھ ہی زوال کا آغاز ہو گیا۔ ڈاکٹر اعجاز شفیع کی بات الگ وگرنہ سب جانتے ہیں کہ 2011ء کے موسمِ خزاں سے 2012ء کے موسمِ بہار تک تحریکِ انصاف ملک کی مقبول ترین جماعت تھی ۔ اب زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت تھی کہ جیتا ہوا میچ ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ اسی وقت حماقت کی انتہا ہوئی ۔ انکل سام، بعض عرب ممالک اور میڈیا گروپوں سمیت، ملک کے مالدار طبقات اس کے خلاف متحد ہو نے لگے اور اسی وقت پہاڑ ایسی غلطیاں ۔ پارٹی کے بے تکے الیکشن ، جو سال بھر جاری رہے اور تباہی لائے ۔ سازش اور روپے کے بل پر جیتنے والوں کی حوصلہ شکنی سے اس کا گریز ۔ ڈھنگ کے لیڈر تلاش کرنے کی بجائے ، ہر قماش کے لوگوں کا خیر مقدم ۔ بار بار توجہ دلانے کے باوجود ایک سیاسی کمیٹی یا کور گروپ تشکیل دینے کی بجائے ، جو پارٹی کی سمت سیدھی رکھ سکے ، شاہ محمود اور دوسرے بقل بطوروں پر اعتماد۔ قرآنِ کریم نے اس بڑھیا کی مثال دی ہے ، جو اپنا کاتا ہوا سوت ضائع کر دے ۔ تابوت میں آخری کیل یہ کہ کسی نظام اور معلومات (Data)کے بغیر ادنیٰ لوگوں کی سفارش پر ٹکٹوں کا اجراہوا ۔ سپریم کورٹ سے فیصلہ صادر ہونے کے باوجود سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ یکسر نظر انداز کر دئیے گئے ۔ ایک ہفتے سے زیادہ کی مشق یہ نہیں تھی ۔ احتجاج کیا جاتا تو عدالتِ عظمیٰ الیکشن کمیشن کو پابند کر دیتی ۔ اسے بتا دیا گیا اور اس نے کوئی پرواہ نہ کی ۔ کیا اس کے گرد دشمنوں کا حصار قائم تھا؟ جب فوجی قیادت پر مسلسل میں نے تنقید کی کہ کراچی میں وہ دھاندلی نہ روک سکی توایک اعلیٰ افسر نے مجھے جتلایا: ہمیں تو الیکشن کمیشن نے اختیار ہی نہ دیا۔ اس پارٹی کو کس نے روکا تھا کہ 80 فیصد پولنگ سٹیشنوں پر اس کے ایجنٹ ہی نہ تھے… ادنیٰ لوگوں پر انحصار! یہ انحصار اب بھی قائم ہے ۔ اب بھی لاہور میں بلدیاتی الیکشن کے انچار ج علیم خان ہو ں گے ۔ 11مئی کو ہارون خواجہ ہو سکتے تھے لیکن اسد عمر اور میرے عزیز دوست جہانگیر ترین نے ان کی ڈٹ کر حوصلہ شکنی کی اور بد مزہ ہو کر وہ چلے گئے ۔ خدا کی پناہ ! ماجد ایسے ہیرو کو برطرف کرنے والا کپتان اب ایک ظالم خاندان کی نورِ نظر عائلہ ملک کا مقدمہ لڑتا ہے ۔پختون خوا کا تازہ نتیجہ یہ خبر لایا ہے کہ تحریکِ انصاف اب بھی زندہ رہ سکتی ، پھل پھول سکتی ہے ، اگر موزوں حکمتِ عملی اختیار کرے ۔ کفر کے سب فتوے دھرے کے دھرے رہ گئے اورڈیرہ اسمٰعیل خاں میں ایک جشن برپا ہے ۔ بجا طور پر کہ جس ملک میں فضل الرحمٰن جیسے لیڈر موثر ہوں ، اس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔ کیا وہ اپنا احتساب کرے گا؟ یہی مشکل مرحلہ ہے ۔حقائق کی بجائے ، جب کوئی سپنوں کی دنیا میں جیے ۔ خیر خواہوں کی بجائے خوشامدیوں کے نرغے میں رہے ۔ تقدیر اٹل ہے اور آدمی کی افتادِ طبع ہی اس کی تقدیر ہے ۔ فیصلہ بہرحال عمران خان اور تحریکِ انصاف کے کارکنوں کو کرنا ہے ۔ کیا علیم خانوں، عائلہ ملکوں اور گل بادشاہوں سے نجات ممکن ہے ؟ذاتی پسند اورنا پسند سے قطع نظر ، کیا کارکن بالکل درست معلومات کی بنیاد پر بدنام لیڈروں کے بارے میں کوئی لائحہ عمل طے کر سکتے ہیں ؟ ابھی شاید اللہ کو منظور نہیں۔ ابھی کچھ دن اور ۔ مایوسی کا مگرسوال ہی نہیں ، اس لیے کہ مایوسی اور ایمان کسی دل میں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے اور امیدبندوں سے نہیں ، اللہ سے ہوتی ہے ۔ مالک مضطرب کی دعا سنتاہے اور اہلِ تقویٰ ہی کا نہیں ، وہ خطاکاروں کا بھی رب ہے۔ ؎ نہ ہو نومید‘ نومیدی زوالِ علم و عرفاں ہے امیدِ مردِ مومن ہے خدا کے رازدانوں میں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved