تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     09-05-2023

انتقام

میں نے ہمیشہ اس کام سے اسے منع کیا۔ افسوس! ماننا تو دور کی بات ہے‘ اس نے میری بات پر کبھی سنجیدگی سے غور تک نہ کیا! شاید اس کے گھر کا ماحول ایسا تھا کہ جس میں سچ اور جھوٹ‘ ایمانداری اور بے ایمانی‘ اخلاص اور خود غرضی میں کسی قسم کے فرق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جن گھرانوں میں اخلاقی اور دینی قدروں کا خیال رکھا جاتا ہے ان گھرانوں کے بچے بڑے ہو جائیں تو جتنے بھی غلط نکلیں‘ ان قدروں کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور باقی رہتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس کا گھرانہ کسی اور ہی قسم کا تھا۔ جب بھی بات کرتا‘ اس میں کچھ نہ کچھ گنجلک‘ کچھ نہ کچھ پیچ ضرور رکھتا۔ ایک بات کہہ کر‘ دوسرے دن‘ اس سے الٹ بات کہہ دینا اس کا روزمرہ کا معمول تھا۔ کبھی کبھی ہم‘ اس کے رفقائے کار‘ اس کی حرکتیں دیکھ کر ششدر رہ جاتے!
ایک بار اس نے ہم سب کو کھانے کی دعوت دی۔ ہم ریستوران میں پہنچ گئے۔ کھانا کھا چکے تو اس نے سب کو مخاطب کرکے کہا کہ اپنے اپنے حصے کے پیسے دو۔ ہم بہت حیران ہوئے۔ دھچکا بھی لگا۔ یقین نہیں آرہا تھا۔ جب وہ اپنے حصے کی رقم رکھ کر ریستوران سے باہر نکل گیا تب ہم نے حیرت پر قابو پایا اور صورتحال کو قبول کیا۔ ایک بار وہ کسی صندوکڑی میں کچھ رقم ڈال رہا تھا۔ یاد نہیں‘ یہ صندوکڑی کسی مسجد کی تعمیر کے لیے تھی یا کسی اور فلاحی کام کے لیے۔ اس نے کرنسی نوٹ صندوکڑی کے سوراخ میں رکھے۔ آدھے اندر۔ آدھے باہر! ادھر فوٹوگرافر نے کڑِک کرکے تصویر بنائی‘ اُدھر اس نے نوٹ باہر نکالے اور جیب میں ڈال لیے۔ جب میں یا دوسرے ساتھی اُس سے ان باتوں پر سوال جواب کرتے تو اسے حیرت ہوتی۔ یوں لگتا تھا جیسے اسے ان تمام حرکتوں پر کوئی ندامت نہیں تھی۔ جواز اور عدم جواز کے حوالے سے اُس کے تصورات ہی عجیب و غریب تھے۔ اگر ایک بچے کو‘ جو ماں کے پیٹ میں ہو‘ آپ سمجھانے کی کوشش کریں کہ جب تم دنیا میں آؤ گے تو وہاں ٹرین ہو گی جو اس طرح کی ہو گی اور ہوائی جہاز ہو گا جو اس طرح کا ہو گا‘ تو اس بچے کے پلے کچھ بھی نہیں پڑے گا کیونکہ اس کے ذہن میں ان چیزوں کا کوئی تصور ہی نہیں۔ بالکل اسی طرح‘ جس دوست کا میں ذکر کر رہا ہوں‘ اس کے ذہن میں بھی جائز ناجائز کا کوئی تصور نہیں تھا۔
ہم جس ادارے میں کام کر رہے تھے‘ وہاں کے قوانین سخت تھے۔ سال میں معینہ تعداد سے زیادہ چھٹیاں نہیں ہو سکتی تھیں۔ کسی معقول وجہ کا ہونا بھی لازم تھا۔ ہمارا یہ دوست کبھی کسی عزیز کی شدید بیماری کا بہانہ بناتا‘ کبھی کسی کی فرضی موت کو بنیاد بنا کر گھر بیٹھ جاتا! خالہ سے لے کر پھپھی تک‘ دادی سے لے کر نانی تک‘ چچا سے لے کر ماموں تک‘ کزن سے لے کر بھابی کی تائی تک سب کو نہ جانے کتنی بار بیمار کیا‘ مارا‘ ان کے جنازوں میں شامل ہوا اور ان کی برسیاں منائیں! پھر وہ وقت بھی آیا جب اس ظالم نے چھٹی لینے کے لیے اپنے باپ کو مارا۔ اس دن میرا پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا۔ میں نے اسے شرم دلائی کہ خدا کا خوف کرو! قدرت کے کاموں میں اس حد تک دخیل نہ ہو جاؤ کہ کل تم پچھتاؤ! مگر وہ آگے سے ایسے ہنس رہا تھا جیسے اس کے لیے یہ ایک بالکل عام سی بات ہو! کرنا خدا کا کیا ہوا کہ کچھ دن کے بعد اس کا والد حقیقت میں وفات پا گیا۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ دیکھو! یہ تمہارے لیے ایک خدائی وارننگ ہے۔ دروغ گوئی اور جعل سازی سے توبہ کرو۔ مگر اس کے دل پر شاید مہر لگ چکی تھی۔ والد کی اچانک وفات بھی اس کا دل نرم نہ کر سکی۔ یہاں تک کہ وہ وفات کے دوسرے دن کھیل تماشے کے لیے کسی دوسرے شہر کو جانے لگا تھا۔ سب نے روکا کہ ابھی تو ہر چہار طرف سے لوگ تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔ سب سے پہلے مرحوم کے بیٹے کا پوچھیں گے۔ تمہیں نہ پا کر مایوس ہوں گے اور پھر یہ بھی ہے کہ جتنے منہ‘ اتنی باتیں! بہت مشکل سے رُکا۔ یوں بھی تعزیتیں اور جنازے اس کے نزدیک لاحاصل کام تھے۔ قریب ترین احباب کے جنازوں میں شریک ہوا نہ تعزیت ہی کے لیے کبھی کسی کے پاس گیا۔
کرنا خدا کا‘ انہی دنوں ایک حادثے میں اس کا بازو زخمی ہو گیا۔ کچھ دن تک تو اس حادثے کی وجہ سے اس کی غیر حاضری جائز تھی اور منطقی بھی! مگر کافی عرصہ بعد جب اس کا بازو تندرست ہو گیا تب بھی اس نے اس حادثے کو اپنے مقاصد کے لیے خوب خوب استعمال کیا اور یوں استعمال کیا کہ دیکھنے والے اور جاننے والے ششدر رہ گئے۔ اب تو گویا ایک سِحر‘ ایک طلسم‘ اس کے ہاتھ آگیا۔ اب اس کے بازو پر ہمیشہ پٹی بندھی ہوئی نظر آتی۔ بازو کی وجہ سے اب چھٹی لینا اس کا خاص حربہ بن گیا۔ کبھی کہتا کہ ٹانکے کھل گئے ہیں! کبھی کہتا اس میں پیپ پڑ گئی ہے۔ کبھی کہتا کہ جھٹکا لگنے سے زخم پھر ہرا ہو گیا ہے۔ جب بھی ادارے کو اس کی زیادہ ضرورت ہوتی‘ یا کوئی خاص موقع ہوتا یا بیرونِ ملک سے کلائنٹ آئے ہوئے ہوتے وہ غائب ہو جاتا۔ اس کی درخواست آ جاتی کہ حضور! بندہ پرور! میں تو بازو ہلا تک نہیں سکتا! چہ جائیکہ ڈیوٹی پر آؤں اور بالکل ہی کام سے جاؤں! اتفاق سے اس کے ایک قریبی عزیز کا اپنا نجی ہسپتال بھی تھا۔ وہ اپنی بیماری اور زخمی بازو سے متعلق تمام مشکوک رپورٹیں اور سرٹیفکیٹ اسی ہسپتال سے بنوا کر حاضر کرتا!
پھر گردشِ زمانہ نے مجھے اس سے جدا کردیا۔ شکم پروری کے لیے میں کئی اقلیموں‘ کئی ولایتوں اور کئی شہروں میں باد پیمائی کرتا رہا اور جزیروں اور سمندروں میں مسافرت جھیلتا رہا۔ اب جب سر اور مونچھوں اور بھوؤں کے بال برف کی طرح سفید ہو گئے ہیں تو وطن واپس لوٹا ہوں۔ اہلِ خانہ ایک عمر کے بعد مجھے اپنے درمیان پا کر بہت ہی خوش ہوئے ہیں۔ بچے‘ جو اس عرصہ میں جوان ہو کر اپنے اپنے کام میں لگے ہیں‘ مجھ سے سفر کی داستانیں اور غربت کے تجربے سنتے رہے ہیں۔ کئی دنوں بعد پرانے دوستوں کا خیال آیا۔ ایک ایک کو ڈھونڈ نکالا۔ خوب صحبتیں ہوئیں۔ ایک دوسرے کی آپ بیتیاں سنیں اور سنائیں۔ گُل شدہ چراغوں کے دھوئیں یاد کیے۔ اچانک مجھے اُس کا خیال آیا۔ احباب سے پوچھا کہ اس کی کیا خیر خبر ہے؟ کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ تعجب ہوا کہ میرے استفسار پر سب خاموش ہو گئے۔ پہلے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے پھر نیچے زمین کی طرف! ایک دو نے سرد آہیں بھی کھینچیں! دوبارہ پوچھا تو کہنے لگے: ہم سے کیا پوچھتے ہو‘ خود جا کر مل لو اور حال احوال جان لو۔ دوسرے دن صبح ہی میں اسی قدیم محلے میں پہنچا جہاں اس کا‘ پرانی وضع کا‘ آبائی گھر تھا۔ کُنڈی کھڑکائی تو اندر سے ایک منحنی سا آدمی نکلا۔ پہلی نظر میں پہچاننے کا سوال ہی نہ تھا۔ غور سے دیکھا تو وہی تھا۔ مجھے اندر لے گیا۔ اس کی آنکھوں میں سے عجیب بجھی بجھی سی زندگی جھانک رہی تھی۔ بازو پر‘ کندھے سے لے کر ہاتھ تک‘ پٹی بندھی تھی۔ حیرت ہوئی۔ پوچھا تو شکستہ آواز میں بولا کہ تم درست کہتے تھے۔ بازو حقیقت میں خراب ہو گیا ہے۔ بہت علاج کرائے مگر رستا رہتا ہے۔ پیپ ایسی پڑی ہے کہ خشک ہی نہیں ہوتی۔ قدرت نے مجھے انتقام کے نشانے پر رکھ لیا ہے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved