حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان انتخابات کے معاملے پر مذاکرات بظاہر ختم ہو چکے ہیں۔ فریقین مذاکرات کیلئے ذہنی طور پر تیار ہی نہیں تھے۔ مولانا فضل الرحمن تو روزِ اول سے مذاکرات کا حصہ نہیں تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت میں خواجہ آصف اور جاوید لطیف کے بیانات ریکارڈ پر ہیں‘ جن میں وہ مذاکرات کو لاحاصل بحث قرار دیتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود مذاکرات کو موقع دیا گیا تاہم اب پی ٹی آئی کے رہنما پرویز خٹک نے بھی کہہ دیا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرت کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔ مذاکرات کے تین ادوار ہوئے جس سے اندازہ ہوا کہ فریقین اپنی مرضی سے نہیں بیٹھے بلکہ انہیں زبردستی بٹھایا گیا ہے‘ علامہ اقبالؔ نے کیا خوب کہا کہ
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
ان تمام تر حقائق کے باوجود چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے لاہور میں کہا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان اب بھی مذاکرات جاری ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدالتیں سیاسی معاملات کو سیاسی انداز سے حل کرنے کیلئے موقع فراہم کر رہی ہیں لیکن معاملات کی سنگینی نے عدلیہ اور پارلیمان کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔ پارلیمان کو اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ کے فیصلوں پر تحفظات رہے ہیں مگر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ججز کو پارلیمنٹ یا قائمہ کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کیلئے کہا گیا ہو۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف دورۂ لندن پر ہیں‘ انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف کو سزا دینے والے ججز کو پارلیمنٹ کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ جولائی 2017ء کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے نواز شریف کے خلاف فیصلہ دیا تھا جن میں جسٹس آصف سعید کھوسہ‘ جسٹس اعجاز افضل خان‘ جسٹس شیخ عظمت سعید‘ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے۔ دوسری طرف سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے بیٹے کو مبینہ آڈیو لیک کے معاملے پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی جانب سے قائم کی گئی خصوصی کمیٹی نے طلب کر رکھا ہے۔ بلوچستان سے رکنِ قومی اسمبلی اسلم بھوتانی اس کمیٹی کے چیئرمین ہیں‘ انہوں نے کہا ہے کہ سابق ثاقب نثار صاحب کو اپنا مؤقف پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا۔ قائمہ کمیٹی کے پاس کسی بھی سرکاری افسر‘ عہدیدار حتیٰ کہ سابق عہدیدار کو طلب کرنے کا آئینی اختیار موجود ہے۔ سیاستدان تو احتساب کے کڑے نظام کا سامنا کرتے آئے ہیں‘ وہ اپنی فیملیوں کے ساتھ عدالتوں میں پیش بھی ہوتے رہے ہیں‘ اب دیکھنا یہ ہے کہ ثاقب نثار صاحب اپنے بیٹے کے ساتھ خصوصی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر سرخرو ہوتے ہیں یا وہ کوئی دوسرا راستہ اختیار کریں گے؟
اُدھرتحریک انصاف عدلیہ کے حق میں ریلیاں نکال رہی ہے‘ ان ریلیوں کا سوائے اس کے کیا مطلب ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ عدلیہ پی ٹی آئی کی آخری امید ہے مگر اس بار معاملہ مختلف دکھائی دیتا ہے‘ اب پی ٹی آئی کو مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل نہیں ہے تو نظام انصاف کیلئے ماضی کی طرح بڑے فیصلے کرنا شاید آسان نہ ہو گا۔ ہم نے گزشتہ کالم میں بھی تحریر کیا تھا کہ مذاکراتی عمل نے اتحادی حکومت کو مضبوط کر دیا ہے۔ چند دن پہلے تک حکومت کے پاس الیکشن کرانے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا مگر اب صورتحال یہاں تک تبدیل ہو چکی ہے کہ عمران خان اور سرکاری عہدیداران کے احتساب کی بات کی جا رہی ہے۔ خان صاحب بلاول بھٹو کے دورۂ بھارت کے حوالے سے اپنا مؤقف دے رہے تھے مگر ان کی گفتگو کی تان قومی اداروں کے خلاف بول کر ہی ٹوٹتی ہے۔ جس پر آصف علی زرداری نے بھر پور ردِعمل دیا ہے کہ عمران خان اداروں کو بدنام کرنے کی ہر حد عبور کر چکے ہیں‘ اب مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس کی مذمت کی ہے کہ عمران خان انٹیلی جنس افسران پر بغیر ثبوت الزامات لگا رہے ہیں جسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ عمران خان کی تقریر پر سابق صدر آصف زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے فوری ردِعمل اس امر کا پیش خیمہ ہے کہ خان صاحب جو الزامات لگا رہے ہیں‘ اس ضمن میں ان سے ثبوت طلب کیے جائیں گے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب کو بھی حالات کی سنگینی کا ادراک ہو چکا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کو دوبارہ سڑکوں پر لانے کیلئے تیار کر رہے ہیں۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ 2014ء میں چینی صدر کا دورۂ پاکستان طے تھا تب بھی خان صاحب کنٹینر پر تھے‘ اب چین کے وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا اور خطے کے مجموعی امن کیلئے اہم پیش رفت ہو ئی ہے تو خان صاحب سٹرکوں پر نکلنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ خان صاحب کے اس طرزِ عمل سے خارجہ سطح پر حاصل کی گئی کامیابیاں سبوتاژ ہونے کا اندیشہ ہے۔
اپنے دورۂ پاکستان کے دوران چینی وزیر خارجہ چن گانگ نے افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی پر زور دیا ہے کہ جب تک افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی رہے گی‘ خطے میں امن کا قیام ایک خواب رہے گا۔ چینی وزیر خارجہ اور افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ امن اور ترقی پاکستان سے زیادہ افغانستان کی ضرورت ہے۔ پڑوسی ہونے کے باعث اس کا براہِ راست تعلق پاکستان سے ہے۔ پاکستان‘ چین اور افغانستان کے اتحاد سے امن و ترقی کا خواب پورا ہو سکتا ہے۔ اس اعتبار سے چینی وزیر خارجہ اور افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ کا حالیہ دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ان سطور کی تحریر سے قبل سینیٹر فار افغانستان اینڈ مڈل ایسٹ کے زیر اہتمام ایک تقریب میں افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر خان متقی نے خطاب کیا اور بعدازاں سوال جواب کا سیشن ہوا‘ جس میں انہوں نے پاک افغان تعلقات کی پائیداری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اب افغانستان میں امن قائم ہے‘ انہوں نے تاجروں کو دعوت دی کہ وہ بلا خوف و خطر افغانستان میں تجارت کے مواقع سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ امیر خان متقی نے ٹی ٹی پی کو پرانا مسئلہ قرار دیتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ افغانستان نے اپنے تئیں پاکستانی ریاست اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی حتی المقدور کوشش کی۔ امیر خان متقی نے اس امر کا اظہار کیا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مسئلہ مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔ امیر خان متقی نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان برادر اسلامی ملک ہے‘ ہم یہاں امن کے متمنی ہیں‘ انہوں نے پاکستان اور وسط ایشیا سے معاشی تعلقات استوار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔
حکومت کے اقدامات طویل مدتی منصوبہ بندی کی عکاسی کرتے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں حکومت اپنی مدت پوری کر لے گی‘ تب تک ان اقدامات کے ثمرات موصول ہونے والے نہیں‘ یعنی حکومت کو بظاہر ان اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا مگر ملک کو معاشی و سکیورٹی لحاظ سے فائدہ ضرور ہوگا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو دنیا پاکستان پر اعتماد کیلئے تیار ہے مگر اہلِ سیاست باہمی معاملات کو اتفاقِ رائے سے حل کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ اس منفی روش کا خاتمہ کیے بغیر کوئی بھی حل نکالا گیا تو وہ عارضی ہوگا۔ دیرپا حل کیلئے ضروری ہے جس طرح خارجہ سطح پر اقدامات کیے گئے ہیں‘ اندرونی خلفشار کے خاتمے کیلئے بھی ویسے اقدامات کیے جائیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved