تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     20-09-2013

اسلام آباد کے بعد واشنگٹن‘ یرغمال

سکندر نے اسلحے کے زور پر اسلام آباد کو ساڑھے پانچ گھنٹوں تک یر غمال بنائے رکھا‘ ٹھیک ایک ماہ بعد آرون ایلیکسس Aaron Alexis نے بندوق کی نالی سے بارہ گھنٹے واشنگٹن پر اپنا قبضہ رکھا ۔دونوں واقعات میں کچھ باتیں ملتی جلتی ہیں جو سبق آموز ہو سکتی ہیں ۔سکندر پولیس کی گولی سے زخمی ہوا اور اب تک بیان دینے کے قابل نہیں ہوا۔ (آرون عبرانی لفظ ہے اور ہارون کا عربی متبادل؛ لہٰذا اب میں اس کالم میں آرون کو ہارون ہی لکھوں گا) ہارون پولیس سے لڑ کر مارا گیا‘ اس کے ساتھ سُنبل جیسی وفا شعار بیوی اور دو سر فروش بچے نہیں تھے ۔ وہ بھی سکندر کا تقریباً ہم عمر تھا۔ اس نے بھی شادی کی تھی اور دو بچے پیدا کئے تھے مگر وہ اپنے کنبے کو ساتھ نہیں رکھتا تھا ۔ وہ فورٹ ورتھ‘ ٹیکسس سے قومی دارالحکومت آ یا تھا اور سکندر بھی تقریباً اتنا ہی فاصلہ طے کرکے دوبئی سے جہاں اس کی پہلی بیوی اور بچے پائے جاتے ہیں ملک کے صدر مقام تک پہنچا ۔ٹیلی و ژن پر صبح سے شام تک یہ ڈرامہ دیکھنے والوں کو ہارون نظر نہیں آیا مگر سکندر ان کے سامنے انرجی ڈرنک اور سگریٹ پیتا صاف دکھائی دیتا تھا ۔سکندر کو ایک مقامی پولیس افسر سے مذاکرات کے تین دور کرنے کی آزادی تھی۔ ہارون کو آئین کی پہلی ترمیم کے تحفظ کے با وصف ایسی کوئی سہولت میسر نہیں آئی۔ مقدر کے سکندر کی زندگی میں زمرد خان تھا مگر ہارون کو ایسے کسی مرد مجاہد کی خدمات نہ ملیں جو اس کی جان بچا سکتا ۔سکندر نے کرائے کی گاڑی ٹریفک کے مخالف چلا کر کھلی سڑک پر مخالفین کا سا منا کیا مگر ہارون نے بحریہ کے ایک پُر ہجوم دفتر میں گھس کر جان دی۔ مجھے اس علاقے میں کام کا طویل تجربہ ہے اس لئے آپ کو بتا سکتا ہوں کہ سی سسٹم نیول ہیڈ کوارٹرز میں جعلی شناختی کارڈ پر داخل ہونا جان جوکھوں کا کام ہے اور ہارون اپنی جان پر کھیل گیا۔ نائن الیون کے بعد وفاقی عمارتوں میں داخلے پر سخت شرائط عائد کر دی گئی تھیں ۔ ایک کے سوا بلڈنگ کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے تھے ۔ملازموں کے پاس تو الیکٹرانک شناختی کارڈ ہیں جو عمارت کی سلامتی کے ذمہ داروں نے جاری کئے ہیں اور کام پر ان کی حاضری کے ضامن ہیں۔ اگر کوئی غیر متعلق فرد گیٹ ہاؤس پر نمو دار ہوتا ہے تو اسے بھی اپنی شناخت کرانی پڑتی ہے تب مسلح گارڈ اس ملازم کو فون کرتا ہے جس کا نام نو وارد دیتا ہے ۔وہ ملازم اپنی نشست سے اٹھ کر صدر دروازے پر آتا ہے اور اس فرد کو اپنی ذمہ داری پر ساتھ لے جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ لازمی جانچ پڑتال‘ معمول بن جاتی ہے ۔ہارون شناختی کارڈ لہرا کر ملازمین کی قطار میں لگ گیا اور اپنے اسلحے سمیت چوتھی منزل پر جا پہنچا ۔ سرکاری ملازمین کو اپنے دفاتر کی چار دیواری میں تحفظ کا جو احساس تھا اس واقعہ کے بعداس میں کمی آئے گی۔ صدر اوباما نے دنیا بھر میں امریکی فوجی تنصیبات پر حفاظتی انتظامات پر نظر ثانی کا حکم دے دیا ہے ۔ سوا آٹھ بجے کے لگ بھگ ٹیلی وژن کھولا۔ خبروں کے سارے چینل واقعہ کو کور کر رہے تھے ۔ نیوی یارڈ میٹرو ( ٹرین) سٹیشن کے چوک سے دریائے انا کوسٹیا کے کنارے وسیع و عریض بحری دفتر کے گیٹ تک بسوں اور کاروں کا ہجوم تھا اور اوپر پو لیس کے ہیلی کاپٹر گھرے ہوئے لوگوں کی جان بچانے کے لئے اڑانیں بھر رہے تھے۔ پولیس نے علاقے کی تمام عمارتوں‘ سکولوں یہاں تک کہ سینٹ کی تالہ بندی کر دی جس کا مطلب تھا کہ کوئی فرد ان میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ باہر جا سکتا ہے ۔ علاقے میں ایک بحران کا عالم تھا جو بظاہر قابو میں نظر آتا تھا اور اس دلدوز منظر کو دیکھنے اور ٹیلی وژن کیمروں کی نگاہ میں آنے کے لئے دھینگا مشتی نہیں تھی ۔صدر اوباما کو قبل از دوپہر معیشت کی بحالی پر ایک تقریر کرنا تھی ۔ٹی وی نے ان کے بیان کو نظر انداز کیا مگر ان کے ابتدائی کلمات نشر کر دیئے جن میں اس واقعے کو ایک بزدلانہ اقدام سے تعبیر کیا گیا تھا ۔میئر نے اسے ایک ہولناک المیہ کہا اور ایوان نمائندگان میں ڈی سی کی رکن الینور نورٹن نے اسے جنوب مشرقی واشنگٹن کی ترقی کے لئے ایک جھٹکا قرار دیا ۔ تین خواتین‘ مقامی پولیس‘ پارک پولیس اور ایف بی آئی کی ترجمانی کے لئے وقفوں وقفوں سے چار باراخبار نویسوں کے سامنے آئیں مگر کسی نے اسے دہشت گردی کے مترادف نہیں جانا کیونکہ انہیں ہارون کے اقدام کا محرک معلوم نہیں تھا ۔جب سے اوباما نے اقتدار سنبھالا ہے‘ انبوہ پر فائرنگ کی یہ 19ویں واردات ہے ۔اس واردات کا ملزم ان کی اپنی نسل سے ہے ۔ بجلی کا تربیت یافتہ کاریگر ہے ۔بحریہ کی ایک سویلین فرم میں ملازم ہے اور تفتیش کار ذرائع ابلاغ کو ایسی اطلاعات لیک کرہے ہیں کہ وہ ذہنی امراض کا شکار ہے ۔ اس کا اتہ پتہ معلوم ہونے پر امریکی مسلمانوں نے سکھ کا لمبا سانس لیا ۔وہ آرمی کے میجر ندال حسن اور باسٹن کے چیچن بھائیوں کی طرح ان میں سے نہیں تھا اور نہ اس نے پاکستان یا مسلم اکثریت کے کسی اور ملک میں دہشت گردی کی تربیت حا صل کی تھی ۔مغربی ساحل پر کبھی کبھار وہ بودھ تارکین وطن کے ہمراہ‘ گیان دھیان کرتا تھا اور نیوی ریزرو کی حیثیت سے ایک تھائی ریستوران میں بیرا گیری بھی کر لیتا تھا ۔سکندر نے اسلحے سے پولیس والوں کو ڈرایا تھا۔ ہارون نے عمارت کی چوتھی منزل سے کیفے ٹیریا میں جمع ہونے والے مخالفین کو نشانہ بنا یا ۔ نجی شعبے سے جسے صدر آئزن ہاور نے طنزاً ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کہا تھا چونکہ کروز میزائل‘ ڈرون طیارے‘ طیارہ بردار جہاز‘ جاسوس طیارے‘ آبدوزیں اور دوسرا جدید جنگی سازوسامان یہی دفتر خریدتا ہے اس لئے دائیں بازو کے ایک چینل نے اس واردات کے ڈانڈے‘ شام میں فوجی مداخلت کے امریکی عزم سے جوڑنے کا عندیہ دیا مگر اس کی یہ لائن مقبول نہیں ہوئی ۔ شام ہونے پر جب تالہ بندی ختم ہوئی اور سرکاری دفاتر کے تین ہزار کارکن جن میں بحریہ کے باوردی اور سویلین ملازمین بھی شامل تھے اپنے عزیز و اقارب کے جلو میں گھروں کو روانہ ہوئے تو پتہ چلا کہ 13افراد جن میں ایک ہارون ہے گولی کا نشانہ بنے ہیں ۔ واشنگٹن ہاسپٹل سنٹر کی چیف میڈیکل افسر جینس اورلوسکی Janis Orlowski زیر علاج شہریوں کی حالت بیان کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں اور بولیں کہ ’’ہمارے معاشرے میں کوئی برائی در آئی ہے۔ ہم سب کو مل کر اس برائی کا خاتمہ کرنا ہے‘ میں نہیں چاہتی کہ میں گولی سے زخمی ہونے والوں کے علاج معالجے کی ماہر کہلاؤں‘‘۔ نورٹن نے کہا ’’جب عوام بے خبر ہوں تو تشدد کا بخار تیز ہو جاتا ہے‘‘۔ سانحے کی مذمت کرتے ہوئے صدر اوباما نے یہ بھی کہا کہ ’’نیوی کے ملازمین محب وطن ہیں ملک سے باہر انہیں اکثر دشمن کا سامنا ہوتا ہے اور اب ثابت ہوا کہ ملک کے اندر بھی وہ عافیت میں نہیں ہیں‘‘۔ سکندر دو خود کار ہتھیار خرید کر اسلام آباد پہنچا تھا ایرن ایلیکسس نے تین بندوقوں کے ساتھ واشنگٹن پر دھاوا بو لا۔ صدر اوباما اسلحہ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ان کے پاس ضروری ووٹ نہیں ہیں ۔امریکی آئین کے تحت اپنے گھر کی چادر اور چار دیواری کی حفاظت کے لئے ہتھیار پاس رکھنا ہر شہری کا حق ہے جس کی پاسداری کے لئے ایک طاقتور گن لابی مو جود ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved