بنو قریظہ کے یہودی مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کے باوجود غزوۂ خندق میں حسبِ سابق کفار کی طرف داری پر تل گئے ۔ آنحضورﷺ نے ان کے پاس وفد بھیجا کہ وہ غداری نہ کریں۔ دراصل یہودی اس خام خیالی میں مبتلا ہوگئے تھے کہ اس سے قبل کفارِ مکہ اور یہودِ مدینہ کے دو قبائل کے مقابلے پر مسلمانوں کی طرف سے جو چار جنگیں لڑی گئیں، ان میں مسلمان تعدادمیں اگرچہ قلیل تھے لیکن دشمنوں کی فوج بھی کبھی اتنی بڑی نہ تھی جتنے بڑے لشکر اب آگئے۔ ان کی شیطانی فطرت نے انہیں یہ امید دلادی کہ اس مرتبہ تو مدینہ کی ریاست کا خاتمہ یقینی ہے۔ اس لیے وہ ڈٹ گئے کہ کافروں کی حمایت کرکے اسلام کو جڑ سے اکھاڑ دیں۔
سازش یہ طے کی گئی تھی کہ باہر سے قریش، بنو غطفان اور عرب کے دیگر مشرک قبائل حملہ آور ہوں گے اور شہر کے اندر یہودی اپنی کارروائی کریں گے، جس کے نتیجے میں مسلمان حواس باختہ ہو کر نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کی کیفیت میں مبتلا ہوجائیں گے۔ نبی اکرمﷺ نے چار صحابہ کرام کو بنو قریظہ کے پاس بھیجا۔ ان میں سردارِ اوس سیدنا سعد بن معاذؓ اور سردارِ خزرج حضرت سعد بن عبادہؓ نمایاں تھے۔ دیگر ارکانِ وفد میں حضرت عبداللہ بن رواحہؓ اور حضرت جُبیر بن خوّاتؓ کا نام بیان کیا گیا ہے۔ وہ دونوں بھی بہت بلند پایہ صحابی تھے۔ حضرت سعد بن معاذؓ بنو قریظہ کے دورِ جاہلیت سے حلیف تھے۔ انہوں نے ان لوگوں پر کئی احسانات بھی کیے تھے مگر آج انہیں ان کا طرزِ عمل دیکھ کر سخت افسوس اور دکھ ہوا۔
بنو نضیر کا شریر اور مفسد سردار حُیَیّ بن اخطب خیبر سے خصوصی طور پر بنو قریظہ کے پاس پہنچا اور انہیں غدر پر آمادہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس بدبخت پر سردارِ خزرج حضرت سعد بن عبادہؓ کے بڑے احسانات تھے مگر وہ ان کو بھی خاطر میں نہیں لا رہا تھا۔ اس نے انتہائی طوطا چشمی سے کہا کہ ہمارا تمہارا تعلق اگر ہے تو دشمنی ہی کا ہے اور دشمنوں سے انتقام لینا نہ صرف عقل مندی ہے بلکہ بہت بڑی نیکی ہے ۔ ان سردارانِ مدینہ کے ساتھ بدبخت یہودیوں نے نہایت توہین آمیز سلوک کیا اور کہا کہ کس معاہدے کی بات کر رہے ہو اور کس رسو ل کا حوالہ دے رہے ہو‘ ہم محمد(ﷺ) کو رسول ہی نہیں مانتے، پھر بعض بدبختوں نے توہینِ رسالت تک کا ارتکاب کر ڈلا۔ (معاذ اللہ) صحابہ کرامؓ کا خون کھول اٹھا مگر نبی اکرمﷺ نے جس انداز میں ان کی تربیت کی تھی، اس کے تحت ان میں شجاعت و جرأت بھی بے پناہ تھی مگر ساتھ ہی تحمل و بردباری اور موقع محل کی نزاکت کا ادراک اور حکیمانہ طرزِ عمل اختیار کرنے کا ملکہ و صلاحیت بھی اعلیٰ پائے کی تھی۔
اس موقع پر غصے اور اشتعال کا اظہار بہت نقصان دہ ثابت ہو سکتا تھا۔ حضرت سعد بن معاذؓ کو آنحضورﷺ نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کا مثیل قرار دیا تھا۔ آپﷺکا ارشاد تھا کہ مہاجرین میں ابو بکر ''صدیق‘‘ ہیں اور انصار میں سعد بن معاذ ''صدیق‘‘ ہیں۔ حضرت سعد بن معاذؓ اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اشاروں کنایوں میں آپ کو بتادیا کہ یہود شرارت اور بد عہدی پر تلے بیٹھے ہیں۔ (البدایہ والنہایہ، 4؍103تا 104، صحیح بخاری 2؍120، 3؍24 تا 25، مسلم5؍ 160 تا 161)۔
اسی روز سے حضرت سعد بن معاذؓ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنا شروع کر دی تھی کہ اللہ میری موت سے قبل یہودانِ بنی قریظہ پر ایسا عذاب مسلط فرما کہ میرا سینہ ٹھنڈا ہوجائے۔ ظاہر ہے کہ سچے مُحِبِّ رسول حضرت سعد بن معاذؓ پر وہ لمحے انتہائی شاق گزرے تھے جب ان کے سامنے ان کے محبوب کی شانِ اقدس میں گستاخی کی گئی تھی۔ حضرت سعدؓ کو جنگِ خندق میں لگنے والے تیر کے زخم سے شدید تکلیف تھی۔ انہیں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ اب ان کی مہلتِ عمر بہت مختصر رہ گئی ہے‘ اسی لیے ان کی تمنا تھی کہ وہ ان بدبخت یہودیوں کا انجام دیکھ کر ہی موت کی وادی میں اتریں ۔ سیدنا سعدؓ کا یہ کوئی ذاتی معاملہ نہ تھا ، حُبِّ رسولؐ ہی اس کا واحد سبب تھا ۔ حضور اکرمﷺ کو بھی حضرت سعدؓ سے بے پناہ محبت تھی۔ آپﷺ خود اپنے جاں نثار کی بار بار عیادت کیا کرتے تھے۔ اسی وجہ سے سردارِ اوس کا خیمہ مسجد نبوی میں لگایا گیا تھا۔ درد کی شدت کے باوجود صدیقِ انصار کی تمنا تھی کہ وہ بنو قریظہ کا انجام دیکھ کر ہی جامِ شہادت نوش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس عظیم بندے کی یہ خواہش پوری کردی۔ (سیرت النبیﷺ از شبلی نعمانی 1؍ 245)
یہودی پہلے ہی خباثت پر تلے ہوئے تھے۔ اس وفد کے واپس جانے کے بعد انہوں نے مسلم علاقوں اور رہائشی محلوں کی جاسوسی کیلئے کچھ جاسوس بھیجے کہ وہ کمزور مقامات کے بارے میں معلومات جمع کرکے لائیں تاکہ مسلمانوں کے گھروں پر حملہ کر کے ان کی عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیا جائے۔ اسی سلسلے میں پہلے جاسوس کو حضرت صفیہؓ بنت عبد المطلب نے خواتین کی حویلی کے باہر قتل کرکے اس کا سرکاٹ کر الگ پھینک دیا تھا۔ دوسرے جاسوس نے جا کر اس صورتِ حال کی اطلاع دی (اس واقعہ کو ابن ہشام نے تفصیلاً بیان کیا ہے)۔
اس یہودی جاسوس کا قتل ایک بڑا اہم واقعہ تھا، جس کے بعد بنو قریظہ کو احساس ہوا کہ مسلمانوں کے محلے، جہاں ان کے خیال کے مطابق عورتوں اور بچوں کے سوا کوئی نہ تھا، بھی مسلح دستوں سے خالی نہیں ہیں ، حالانکہ عملاً وہاں صرف خواتین اور بچے ہی تھے ۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور فیصلہ کن واقعہ بھی رونما ہوا۔ حضرت نُعَیْم بن مسعودؓ جو قبیلہ بنو غطفان سے تعلق رکھتے تھے، عین میدانِ جنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دل میں قبولِ اسلام کی خواہش پیدا ہوگئی۔ وہ آنحضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپﷺ سے ان کی ملاقات اور جنگی حکمتِ عملی نے بھی دشمنانِ اسلام کی سازشیں ناکام بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس کا تذکرہ غزوۂ احزاب کے حالات میں ملتا ہے۔
جنگِ خندق میں کفار ناکام و نامراد ، پراگندگی کی حالت میں محاصرہ اٹھا کر بھاگنے پر مجبور ہوئے۔ نبی اکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ نے اتحادی فوجوں کی ہزیمت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ مدینہ کے گردونواح میں ان کا کہیں نام و نشان بھی نہ تھا۔ اس صورتِ حال میں مسلمان اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ نبی اکرمﷺ کی زبان پر بے ساختہ اللہ کی حمدو ثنا اور تسبیح آگئی۔ سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 25 میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا، وہ کوئی فائدہ حاصل کیے بغیر اپنے دل کی جلن لیے یونہی پلٹ گئے اور ''جنگ میں مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لیے کافی ہوگیا۔ اللہ بڑی قوت والا اور زبردست ہے‘‘۔
نبی اکرمﷺ اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرما رہے تھے ''لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ صَدَقَ وَعْدَہٗ وَ نَصَرَ عَبْدَہٗ وَاَعَزَّ جُنْدَہٗ وَھَزَمَ الْاَحْزَابَ وَحْدَہٗ فَلَا شَیْئٌ بَعْدَہٗ یعنی اللہ وحدہٗ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس (ذات بابرکات) نے اپنا وعدہ پورا کر دیا ہے۔ اس نے اپنے بندے کی نصرت فرمائی ہے، اسی نے اپنے لشکر کو فتح و عزت بخشی ہے اور اسی اکیلے نے متحدہ لشکروں کو شکست سے دوچار کیا ہے۔ وہی باقی و قائم ہے، مخلوق میں سے کسی کو دوام و بقا نہیں ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ،جلد: 5، ص: 441، بحوالہ صحیحین)
اب اس صورتِ حال میں آنحضورﷺ نے اپنے ہتھیار کھول دینے کا ارادہ کیا مگر عین اسی وقت جبریلِ امین آپﷺ کے پاس حاضر ہوئے۔ اُس وقت آنحضورﷺ حضرت ام سلمہؓ کے گھر میں تھے اور آپﷺ ہتھیار کھول چکے تھے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپﷺنے سر مبارک بھی دھو لیا تھا۔ آپﷺ سے جبریل علیہ السلام نے پوچھا: ''یا رسول اللہﷺ! کیا آپ نے ہتھیار کھول دیے؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ''ہاں‘‘ تو انہوں نے کہا: ''مگر فرشتوں نے تو اپنے ہتھیار نہیں رکھے۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ آپﷺ ابھی اٹھیں اور بنو قریظہ کے خلاف جنگ لڑیں‘‘۔ نبی اکرمﷺ اسی لمحے اٹھے، اپنے ہتھیار لیے اور صحابہ کرامؓ کو حکم دیا کہ تم میں سے کوئی بھی نمازِ عصر ادا نہ کرے، جب تک بنو قریظہ کی بستی میں نہ پہنچ جائے۔ اس وقت آنحضورﷺ نمازِ ظہر سے فارغ ہو چکے تھے۔ (صحیح بخاری ج: 3، ص: 24، مسند احمد ج: 6، ص: 56)
جبریلِ امین کی آمد اور بنو قریظہ پر چڑھائی کے حکمِ ربانی پر آنحضورﷺ فوراً ہتھیار بند ہو کر گھر سے نکلے اور صحابہ کرام کو بھی اس غزوہ میں شرکت کا حکم دیا۔ نبی اکرمﷺ نے بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوتے ہوئے حضرت عبد اللہ ابن ام مکتومؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین مقرر کیا اور عَلمِ قیادت حضرت علیؓ کو عطا کیا۔ اسی شام صحابہؓ کی جماعت کے ساتھ آپﷺ نے بنو قریظہ کے قَلعوں کا محاصرہ کر لیا۔ یہ محاصرہ پچیس دن رات جاری رہا۔ بنو قریظہ کی تمام شیخیاں خاک میں مل گئیں۔ علامہ ابن کثیر نے اپنی معروف تاریخِ اسلام کے علاوہ اپنی شہرہ آفاق تفسیرِ قرآن میں بھی اس کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد: 5 ، ص: 445 تا 446) (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved