میں اور میرا دوست اکثر ویک اینڈ پر رات گئے راولپنڈی کے ڈھابوں پر پائے جاتے ہیں۔ ان کا تعلق ڈیرہ غازی خان کے ایک علاقے سے ہے۔ کبھی وہ ڈپٹی کمشنر ڈیرہ غازی خان بھی رہے۔ ان کی سادگی یا ایمانداری ملاحظہ فرمائیں کہ چند برس پہلے ایک ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی لگے‘ کچھ دنوں بعد میرے پاس آئے اور کہنے لگے: اگر تمہیں میری ذرا سی بھی فکر ہے تو کسی کو کہہ کر مجھے او ایس ڈی کرا دو‘ ورنہ ساری عمر جیل پکی۔ کسی کو کہا تو وہ بندہ آگے سے بولا: تمہارا دوست واقعی سادہ ہے‘ لوگ ایسی پوسٹنگ کے لیے کروڑوں جیب میں لیے پھرتے ہیں اور اربوں کماتے ہیں اور وہ سفارشیں ڈھونڈ رہا ہے کہ اسے اس پوسٹ سے ہٹوا دیں۔ میں نے اس افسر دوست کو ایک واقعہ سنایا کہ ہمارے علاقے کے ایک ملازم پیشہ کی اگلے گریڈ میں ترقی ہوئی تو اسے ٹرانسفر کر دیا گیا۔ اس نے بہت سفارشیں کرائیں کہ اسے وہیں رہنے دیا جائے حتیٰ کہ پیشکش کی کہ اس کی پروموشن واپس لے کر اسے وہیں اپنے شہر رہنے دیا جائے۔ آخر تنگ آکر درخواست لکھی کہ جب فدوی ترقی نہیں کرنا چاہتا تو اسے زبردستی کیوں ترقی دی جارہی ہے؟ میں نے بھی یہی کہا: جب وہ پیسے نہیں کمانا چاہتا تو اسے کیوں مجبور کیا جا رہا ہے۔ موصوف نے سیاسی بڑوں کے کہنے پر غلط کام نہیں کیے تو دو تین برس او ایس ڈی بن کر گھر بیٹھے رہے کہ ایمانداری کا یہی صلہ ملنا تھا۔
میں اکثر دوستوں کو کہتا ہوں کہ بیورو کریسی ہمارے بہت سے مسائل کی ذمہ دار ہے۔ وہ جواباً یہ گلہ صحافت اور صحافیوں بارے کرتے ہیں۔ یوں ہم دونوں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا کر اپنے اپنے رانجھے راضی کر لیتے ہیں اور ضمیر پر کوئی بوجھ لیے اگلی رات پھر آوارہ گردی پر نکل جاتے ہیں۔ اکثر ہماری راتیں کسی پنڈی کے ڈھابے پر گزرتی ہیں یا اندرون پنڈی شہر نکل جاتے ہیں۔ پنڈی میں گندگی دیکھ کر دل جلتا ہے۔ میں اکثر انہیں کہتا ہوں‘ کیا ہماری بیوروکریسی کبھی شہروں کا دورہ نہیں کرتی یا ان کے بچے بازار نہیں جاتے؟ انہیں کچھ پتا نہیں ہے شہر کتنے گندے ہو چکے ہیں۔ ان افسروں کو کیوں نہیں لگتا کہ ان کی تھوڑی سی دلچسپی سے شہر خوبصورت ہو سکتے ہیں۔ اب تو بڑے عرصے سے بلدیاتی اداروں کے سربراہ بھی یہی بابوز ہیں‘ یہی سرکاری افسران ہیں۔ اب سب کچھ ان کے کنٹرول میں ہے۔ مان لیا یہ خود کچھ نہیں کر سکتے یا ان کی اتھارٹی کچھ نہیں کر پاتی تو کتنی دیر لگتی ہے کہ ہر چھوٹے بڑے بازار کی چھوٹی بڑی مارکیٹس کے تاجروں کو پابند کیا جائے کہ وہ ڈیلی چند سو روپے پر ایک بندہ مستقل ملازم رکھیں گے جو ان کی دکانوں کے آگے صفائی کرے۔ تمام ہوٹلوں کو پابند کرے کہ اگر کوئی گندگی نظر آئی تو ان پر بھاری جرمانہ ہوگا۔ ان تاجروں کو کیا فرق پڑتا ہے کہ روز ایک ایک سو روپے چندہ کر کے کوئی بندہ صفائی کے لیے رکھ لیں۔ ڈپٹی کمشنر کو چاہیے کہ روز رات کو نکل کر اپنے اپنے علاقوں کے چکر لگائیں تاکہ انہیں علم ہو کہ شہر رات کو کتنے بدصورت اور گندے لگتے ہیں۔ سکستھ روڈ پر سڑک کے عین درمیان گندگی کے ڈرم میں سے سارا گند بکھرے دیکھ کر دوست کو کہا: اب دیکھیں‘ یہ ڈرم عین سڑک کے درمیان رکھا گیا ہے‘ یہ سوِک سینس ہے اتھارٹی کے افسران اور اہلکاروں کی اور اس سے زیادہ ان دکانداروں کی جنہیں نہ شرم ہے اور نہ کسی کا خوف۔ ہر طرف گندگی ہی گندگی ہے اور ہمارے افسران اپنے گھروں کے اندر سرکاری مالی اور صفائی کرنے والے اپنے پاس رکھ کر خوش ہیں۔ شہر میں کیسی گندگی پھیلی ہوئی ہے‘ اس کی انہیں کوئی پروا نہیں۔
دوست بتانے لگے کہ راولپنڈی کے کمشنر اس حوالے سے بہت اچھی شہرت رکھتے ہیں کہ جن شہروں میں رہے‘ انہیں خوبصورت بنایا۔ ان شہروں میں اچھے کلب تک بنوائے تاکہ لوگوں کی شام کی سوشل لائف بہتر ہو خصوصاً جو کام انہوں نے ڈیرہ غازی خان میں کیے اس پر وہ دوست کچھ دیر تک تعریفی انداز میں بولتے رہے۔ بتانے لگے کہ موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب بھی ایک بہترین افسر اور انتہائی شریف النفس انسان ہیں۔ ایک دفعہ وہ اپنے علاقے کی طرف جاتے ہوئے حیران ہوئے کہ راستہ نہ صرف صاف ستھرا تھا بلکہ پھول بوٹے بھی لگے ہوئے تھے‘ تو انہوں نے اس ضلع کے ڈی سی کو بلا کر تھپکی دی۔ میں نے کہا: چیف سیکرٹری صاحب کی واقعی تعریف سنی ہے کہ اچھے افسر ہیں۔ کمشنر راولپنڈی بھی یقینا اچھے افسر ہوں گے لیکن ہم اپنی نظروں کا کیا کریں جن کے سامنے پنڈی بدترین گندگی کا شکار ہے۔ اس قدیم اور شاندار شہر کی حالت ملاحظہ کریں۔ جس صوبے کا چیف سیکرٹری صفائی پسند ہو اور کمشنر پنڈی بھی صفائی پر تھپکی لے چکا ہو وہاں ہمارے سامنے گندگی کے مینار تعمیر ہو رہے ہوں تو پھر کس منہ سے تعریف کی جائے۔
میں نے کہا: بیوروکریسی کا ایک اور واقعہ سن لو۔ میرے ایک جاننے والے کا ریونیو کا ایک کیس ملتان انتظامیہ کے ایک بڑے افسر کے پاس تھا۔ اس عزیز نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ہمارا کیس جینوئن ہے لیکن اس افسر کا پرائیویٹ سیکرٹری تین لاکھ مانگ رہا ہے۔ کیا کریں؟ ان کا خیال تھا کہ میں کوئی سفارش ڈھونڈ دوں گا۔ میں خاموش رہا تو وہ کہنے لگے: وہ کہتے ہیں کہ تین لاکھ دے دوں تو کام ہو جائے گا۔ میں نے کہا: آپ کا کام اگر جینوئن ہے تو آپ کسی کو ایک روپیہ نہ دیں۔ اللہ پر بھروسا رکھیں۔ اس نے میری بات مان لی۔ کچھ دن پہلے ان کا فون تھا۔ آواز میں مایوسی تھی اور بولے: آپ نے منع کر دیا تھا کہ تین لاکھ روپے رشوت نہ دینا‘ میں نے نہیں دی‘ اب اس افسر کے فرنٹ مین نے دوسری پارٹی سے تین لاکھ لے کر ریونیو کا فیصلہ ہمارے مخالفوں کے حق میں کر دیا ہے۔ وہ بولے: یہ حالت ہے یہاں‘ دھڑلے سے پیسہ بنایا جا رہا ہے۔ میں نے ملتان کے اس افسر کا نام پوچھا تو سن کر حیران ہوا کہ اب ایسے بڑے عہدوں پر بیٹھے لوگوں کی قیمت بھی صرف تین لاکھ ہے۔ وہ دوست بولا: دن میں دو تین پارٹیاں لگ جائیں تو دس پندرہ لاکھ ایک دن کا کما لیتے ہیں جو یہ بابوز بیرونِ ملک سیٹل اپنی فیملی کو بھیج دیتے ہیں۔
میں نے اپنے دوست کو کہا: اب بتائیں اس ملک کا پڑھا لکھا طبقہ نہ گورننس پر یقین رکھتا ہے‘ نہ شہر کی صفائی اس کا ایشو ہے‘ نہ ایمانداری سے اس کا کوئی لینا دینا ہے تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ جتنا گند ملک میں ہاؤسنگ سوسائٹیز نے پھیلایا ہے اس میں بھی آپ کو یہی بیوروکریسی نظر آئے گی۔ ہر ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک بیوروکریٹس کا دوست ہے بلکہ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالکان نے تو اب باقاعدہ اپنی سوسائٹی میں سیاستدانوں‘ بیوروکریٹس اور بعض میڈیا ہاؤسز کا حصہ رکھ دیا ہے۔ ان کی حمایت کے بغیر وہ یہ کام نہیں کر سکتے۔ اچھی خاصی زرعی زمینیں اب سریا اور سیمنٹ کے انبار سے بھر گئی ہیں اور یہ کام بیوروکریسی کی مدد سے کیا جاتا ہے جو انہیں زمینوں کے قبضے لے کر دیتی ہے۔ کہیں چلے جائیں‘ آپ کو کہیں کوئی ڈھنگ کی جگہ نہیں ملے گی۔ لیہ کے ایک سابق ڈپٹی کمشنر کے بارے پتا چلا ہے اس نے ایک بندے کو درجہ چہارم کی نوکریاں بیچیں جو اس نے آگے چند اہم برادریوں کو دیں۔ آج کل وہی سابق ڈی سی لاہور میں بڑا افسر لگا ہوا ہے۔ جبکہ وہ ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک پنجاب اسمبلی میں ایک بڑی پارٹی کا ٹکٹ خرید کر الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اب ایسی حب الوطنی سے لبریز بیوروکریسی کی مدد سے نئی ملکی قیادت ابھرے گی تو پھر ملک کا یہ حال کیوں نہیں ہوگا جس کا رونا ہم روز روتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved