سیاسی جھگڑے دل اور دماغ کی ہنستی بستی وادیوں میں اُدھم مچانے لگ جائیں تو سمجھیں معاملات بہت بگڑ چکے ہیں، انتشار اور خلفشار کے سائے گہرے ہونے کو ہیں اور ایک بحران کی کوکھ سے دیگر بحران جنم لینے کو ہیں۔ ایک سال قبل اقتدار کی کشمکش نے سیاست کی نائو میں جو سوراخ کیا تھا‘ وہ اب مکمل تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ یہ کشتی ڈوبنے کو ہے مگر ستم یہ ہے کہ ہمیں بطور قوم احساسِ زیاں تک لاحق نہیں۔ سیاسی اختلافات نے پہلے آئینی اور معاشی اعتبار سے ہمارے اندر کے کھوکھلے پن کو عیا ں کیا اور یہ اب ہمارے اخلاقی معیار کو بے نقاب کر رہے ہیں۔ ہر طرف الزامات کی سرکش ہوائوں کا راج ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ کون سچ بول رہا ہے اور کون جھوٹ۔ اقدار و اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے۔ یقین نہ آئے تو سیاسی رہنمائوں کے بیانات سن لیں اور پھر سوشل میڈیا پر عوام کا ردِعمل دیکھ لیں‘ تمام غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی۔ جہاں بیانات کا دفاع کرنے والے بے شمار ہوں‘ وہاں بدکلامی کرنے والوں کی کمی نہیں ہو گی۔
وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ عمران خان گرفتار ہو گئے۔ القادر ٹرسٹ کیس میں نیب نے رینجرز کی مدد سے انہیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ انہیں اس وقت کیوں گرفتار کیا گیا؟ کیا ان پر مزید مقدمات بنائے جائیں گے؟ اس گرفتاری کا پی ٹی آئی کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ میری معلومات کے مطابق عمران خان کو القادر ٹرسٹ میں گرفتار کرنے کا ابھی کوئی ارادہ نہیں تھا مگر ان کے اشتعال انگیز بیانات نے حکومت کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیا۔ اب اس کیس کیساتھ ساتھ ان پر دیگر کیسز بھی چلائے جائیں گے اور سب سے اہم کیس ایک حاضر سروس آفیسر پر سنگین الزامات کا ہو گا۔ اس بات میں کیا شبہ ہے کہ عمران خان دورِ حاضر کے مقبول ترین سیاستدان ہیں۔ وہ سیاہ کریں یا سفید‘ سچ بولیں یا غلط بیانی سے کام لیں‘ عوام میں ان کے بیانیے کی بھرپور پذیرائی ہوتی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ مقبولیت بے لگام ہوتی ہے نہ آزادیٔ رائے لامحدود۔ آپ جو سوچتے ہیں‘ اس کا ابلاغ کرنا بنیادی حق ہے مگر کیا بغیر ثبوت کسی پر الزام تراشی کی جا سکتی ہے؟ کیا کسی اہم عہدے پر تعینات آفیسر کو عوام کی عدالت میں لایا جا سکتا ہے؟ کیا مقبولیت کے زعم میں غلط کو صحیح اور صحیح کو غلط کہا جا سکتا ہے؟ کیا سیاسی مقاصد کے لیے کسی کی نیک نامی پر تنقید کے نشتر برسائے جا سکتے ہیں؟ عمران خان کا الزام نیا نہیں ہے مگر پہلے وہ تشبیہات سے کام لیتے تھے۔ اس لیے کسی پر گراں نہیں گزرتا تھا۔ اس دفعہ انہوں نے جلسۂ عام میں کھل کر نام لیا اور عوام کو مخاطب کرکے کہا کہ اگر مجھے قتل کیا گیا تو فلاں آفیسر ذمہ دار ہو گا‘ عوام اس کا نام یاد رکھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ خان صاحب کا الزام عوام کو بھڑکانے کے مترادف تھا۔ یہ الزام آئین و قانون سے انحراف کے مترادف ہے۔ آئین فوج اور عدلیہ پر بہتان تراشی کرنے کی اجازت نہیں دیتا مگر پھر بھی ایسا کیا جائے تو ردِعمل تو آئے گا۔ آئی ایس پی آر نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ ''چیئرمین تحریک انصاف نے بغیر کسی ثبوت کے ایک حاضر سروس سینئر فوجی آفیسر پر انتہائی غیر ذمہ دارانہ اور بے بنیاد الزامات عائد کیے ہیں۔ من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی الزامات انتہائی افسوس ناک، قابلِ مذمت اور ناقابلِ قبول ہیں۔ گزشتہ ایک سال سے فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے اہلکاروں کو سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اشتعال انگیز اور سنسنی خیز پروپیگنڈے کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہم متعلقہ سیاسی رہنما سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قانونی راستے کا سہارا لیں اورجھوٹے الزمات لگانا بند کریں۔ ادارہ صریحاً جھوٹے اور غلط بیانات کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے‘‘۔
صرف فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ نے ہی نہیں‘ وزیراعظم شہباز شریف اور سابق صدر آصف زرداری نے بھی خان صاحب کے بیانات کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس قسم کے غیر ذمہ دارانہ رویے کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ شہبازشریف اور آصف زرداری نسبتاً ٹھنڈے مزاج کے سیاستدان ہیں‘ اگر ان کی طرف سے اتنا سخت ردِعمل آیا ہے تو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تلخی آخری حدوں کو چھو چکی ہے اور عمران خان کے بیان کی حدت بہت دور تک محسوس کی گئی ہے۔ واقفانِ حال کہتے ہیں کہ عمران خان کے مذکورہ الزامات کے بعد وزیراعظم نے لندن میں میاں نواز شریف سے ملاقات کی اور ساری صورتحال ان کے گوش گزار کی۔ اس میٹنگ میں فیصلہ ہوا ہے کہ عمران خان کے الزامات کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جائے گا اور ان کے خلاف ہر ممکن قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ اسی میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ اگر عمران خان کی گرفتاری بھی عمل میں لانا پڑی تو گریز نہیں کیا جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فی الوقت تو ایک نیب کیس میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا ہے‘ آگے چل کر انہیں کن کن مقدمات اور سنگین دفعات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ اطلاعات ہیں کہ عمران خان کے گرفتاری بھرپور تیاری کے بعد کی گئی ہے تاکہ آسانی سے انہیں ضمانت نہ مل سکے۔ پی ٹی آئی کے دیگر اکابرین بھی اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔ وزارتِ داخلہ اس حوالے سے لسٹیں بنا چکی ہے اور جلد دیگر افراد کے خلاف بھی کارروائی متوقع ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے بھی جوابی حکمتِ عملی پر کام شروع کر دیا ہے اور فیصلہ کیا گیا ہے کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا‘ احتجاجی تحریک کا دائرہ وسیع کیا جائے گا‘ شہر شہر ہنگامے کیے جائیں گے‘ جلسے‘ جلوس اور ریلیاں نکالی جائیں گی تاکہ حکومت کو پریشر میں لایا جا سکے۔
جہاں سے میں دیکھ رہا ہوں‘ ملک کا سیاسی منظر نامہ انتہائی تلخ ہونے جا رہا ہے۔ الیکشن سے پہلے پہلے پی ٹی آئی کو سیاسی نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کی جائے گی اور اس کا جواز عمران خان نے اب خود فراہم کر دیا ہے۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ خان صاحب کو اتنی جلدی کس بات کی تھی؟ وہ ہر معاملے میں عجلت کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں؟ وہ اپنے سیا سی کارڈ وقت سے پہلے کیوں شو کر دیتے ہیں اور مخالفین کو متحد ہونے کا موقع کیوں فراہم کرتے ہیں۔ انہیں کیا ضرورت تھی اس قدر متنازع بیان دینے کی؟ ہو سکتا ہے کہ ان الزامات سے انہیں سیاسی فائدہ پہنچتا ہو مگر ملک کو جو نقصان ہوتا ہے‘ اس کی فکر کیوں نہیں دکھائی دے رہی؟ عوام میں جو بے چینی پھیلتی ہے‘ اس کا ادراک کیوں نہیں؟ عالمی سطح پر اداروں کے خلاف جو اشتعال انگیزی کی جاتی ہے‘ اس کا فہم کیوں نہیں؟ عمران خان عام آدمی نہیں ہیں‘ وہ ملک کے سابق وزیراعظم اور ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ ان کی مقبولیت دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اگلا الیکشن آسانی سے جیتنے کی پوزیشن میں ہیں مگر ان کا اندازِ سیاست انتخابات پر دھند کی طرح چھایا ہوا ہے۔ آگے کچھ نظر نہیں آ رہا ہے۔ جب یہ بات طے ہے کہ الیکشن جتنے بھی لیٹ ہوں‘ اکتوبر میں ضرور ہو جائیں گے‘ پھر اتنی ناامیدی اور افراتفری پھیلانا کہاں کی سیاست ہے؟
پی ٹی آئی اور عمران خان سیاست میں توازن کی علامت ہیں۔ اس جماعت کا وجود پاکستان کے بہتر مستقبل کے لیے بہت ضروری ہے۔ خدارا! خان صاحب کی گرفتاری کے بعد تحمل سے کام لیں۔ اگرسیاسی انتشار بڑھا تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس وقت جمہوریت دو‘ تین سیاستدانوں کے کندھوں پر ٹکی ہوئی ہے۔ اگر اسے سہارا نہ دیا گیا تو ملک کا بہت نقصان ہو جائے گا۔ ہم ایک‘ ڈیڑھ دہائی پیچھے چلے جائیں گے۔ عمران خان کو سوچنا چاہیے تھا کہ اگر وہ گرفتار ہو گئے تو پی ٹی آئی کی الیکشن مہم کون چلائے گا اور اگر کسی کیس میں ان کی نااہلی کا فیصلہ آ گیا تو پی ٹی آئی کو کون ووٹ دے گا؟ گرفتاری ان کی جماعت کو منتشر کر دے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید حکومت خان صاحب کو اتنی جلدی رہا نہیں ہونے دے گی۔ اگر اس کیس میں ضمانت مل گئی تو کسی اور کیس میں گرفتار کر لیا جائے گا۔ اب توشہ خانہ کیس میں ان پر فردِ جرم بھی عائد ہو گی اور جلد فیصلہ بھی متوقع ہے۔ اگر عمران خان نااہل ہوئے تو شاید اقتدار پی ٹی آئی کے ہاتھ سے بہت دور نکل جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved