اس بحث میں پڑے بغیر کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کو شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس کے لیے بھارتی شہر گوا جانا چاہئے تھا یا نہیں اور یہ کہ اس دورے سے کیا حاصل ہوا‘ بحث طلب بات یہ ہے کہ ان کے گوا میں قیام کے دوران بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے بلاول بھٹو اور پاکستان سے متعلق جو زبان استعمال کی‘ سفارتی اخلاقیات کی جس طرح دھجیاں اڑائی گئیں‘ جو فقرے کہے گئے‘ جو الزامات لگائے گئے اور جس قسم کا ہتک آمیز رویہ رکھا گیا‘ اس پر پوری پاکستانی قوم تو سُن ہو کر رہ گئی لیکن پی ڈی ایم کی قیادت کی طرف سے ایک بھی بیان سامنے نہیں آیا۔ یہی پی ڈی ایم ہے جو سابق وزیراعظم کے ایک بیان یا کسی ایک فقرے کو لے کریک زبان ہو کر ٹی وی چینلز کی سکرینوں پر اس طرح چڑھ دوڑتی ہے جیسے ذرا سی بھی دیر کر دی تو کہیں برطرفی نہ ہو جائے۔ مگر جے شنکر کے بیان پر اس کی دوسری‘ تیسری سطح کی لیڈرشپ نے بھی کوئی ردِعمل نہیں دیا اور وزیر خارجہ اور چیئرمین پیپلز پارٹی کے ساتھ روا رکھے گئے غیر سفارتی رویے پر کوئی صدائے احتجاج بلند نہیں کی۔ یہ صرف عمران خان ہی تھے‘ جنہوں نے جے شنکر کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے اس ملک کے23کروڑ عوام کے جذبات کی ترجمانی کی کہ جے شنکر سفارتی آداب سے ذرا سی بھی آشنائی نہیں رکھتا کیونکہ کسی مہمان کے ساتھ ایسا رویہ نہیں رکھا جاتا۔ پی ڈی ایم کے کچھ رہنمائوں نے میڈیا کے سوالات پر ڈھکے چھپے الفاظ میں جے شنکر کی ہرزہ سرائی کا جواب دینے سے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ہم بھارت سے تعلقات خراب کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ کچھ رہنمائوں کا کہنا تھا کہ جان بوجھ کر ہمیں اس پر ردِعمل دینے پر اکسایا جا رہا ہے تاکہ ہمیں اشتعال دلایا جائے لیکن ہم نے کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلیں۔ حکومت کے چند اہم ذمہ داران کا نجی گفتگو میں کہنا تھا کہ یہ وقت بین الاقوامی تعلقات خراب کرنے کا نہیں ہے۔
میڈیا پر جب بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کی ملک کے خلاف زہر افشانی کے خلاف بلاول بھٹو زرداری اور سابق صدر آصف علی زرداری کی معنی خیز خاموشی بارے سوالات اٹھائے جانے لگے اور بعض میڈیا اراکین نے پی پی پی کی سینئر لیڈر شپ سے جے شنکر کے بیان کا جواب نہ دینے پر احتجاج کیا تو اس کاجواب اس قدر حیران کن اور معنی خیز تھا کہ کچھ دیر کیلئے سب ششدر رہ گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اسی خاموشی سے اپنے لیے وہ کچھ حاصل کریں گے جو عام حالات میں ممکن نہیں۔ اس پر یہ بات یاد آ گئی کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ اور اُس وقت کے صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے2013ء کے غیر سرکاری انتخابی نتائج آنے کے تیسرے روز لاہور کا دورہ کیا تھا ا ور بلاول ہائوس لاہور میں سینئر صحافیوں اور میڈیا پرسنز سے ملاقات کی تھی۔ اسی ملاقات میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ 2013ء کے الیکشن کے سامنے آنے والے نتائج عوام کے ووٹوں سے نہیں بلکہ مخصوص ROs کے مرتب کردہ ہیں۔ اس بات پر جب واویلا مچا تو اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے کالا شاہ کا کو کے قریب جوڈیشل اکیڈمی کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے زرداری صاحب کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے کہا کہ آر اوز کی تعیناتی ان کا ختیار تھا جو انہوں نے بحیثیت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ استعمال کیا اور جسے انہوں نے مناسب سمجھا‘ اسے تعینات کیا، لہٰذا کسی کو اس پر انگلی اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ اس وقت بھی زرداری صاحب سے ان کے جواب الجواب بارے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کچھ معاملات میں خاموشی بیان بازی سے زیادہ فائدہ مند ہوتی ہے۔
آصف علی زرداری کی سیاست سے متعلق دو آرا نہیں ہو سکتیں۔ سیاسی بساط پر مخالفین کو چت کرنے کے حوالے سے ان کی شاطرانہ چالیں مثال کا درجہ رکھتی ہیں۔ اخباری ریکارڈ گواہ ہے کہ عمران خان حکومت کے خاتمے سے کئی ماہ پہلے ہی انہوں نے للکارتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جب چاہیں کپتان کو گھر بھیج سکتے ہیں اور پھر سب نے دیکھا کہ تمام کمان ان کے ہاتھوں میں دے دی گئی اور انہوں نے سندھ ہائوس میں ایسا میلہ سجایا کہ ہر کوئی وہاں بنائے جانے والے مزیدار پکوان کھانے کیلئے چڑھ دوڑا۔حکومت کی رخصتی کے لیے انہوں نے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کو سامنے رکھا مگر جب عدم اعتماد پر ووٹنگ ہوئی تو ایک بھی منحرف رکن ووٹ ڈالنے کے لیے نہیں آیا بلکہ حکومت کی اتحادی جماعتوں (ایم کیو ایم، بی این پی اور بی اے پی) کو اپنے ساتھ ملا کر نمبر پورے کیے گئے۔ اس طرح پی ٹی آئی کے منحرف اراکین آرٹیکل 63کی زد میں آنے سے بچ گئے اور بعد ازاں اپوزیشن لیڈر اور چیئرمین پبلک اکائونٹ کمیٹی جیسے پُرکشش اور ''اپوزیشن‘‘ کے لیے مخصوص عہدوں سے بھی نواز دیے گئے۔ جارحانہ انداز میں ایک قدم آگے بڑھنا اور حالات دیکھ کر دو قدم پیچھے ہٹ جانا پیپلز پارٹی کی قیادت کی سیاست کا پرانا وتیرہ رہا ہے۔ اب زرداری صاحب کافی عرصے سے یہ خواہش ظاہر کر رہے ہیں کہ وہ بلاول بھٹو زرداری کو ملک کا اگلا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں۔ بعض باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ''ہوم ورک‘‘ پورے زور و شور سے جاری ہے اور بلاول کو وزیر خارجہ بنانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ وہ شاید اس حوالے سے برطانوی ماڈل کو فالو کر رہے ہیں جہاں بیشتر وزیر خارجہ (فارن سیکرٹری) بعدازاں وزیراعظم یا نائب وزیراعظم منتخب ہوئے۔ بلاول بھٹو نے گزشتہ ایک سال میں لگ بھگ سبھی اہم ملکوں کا دورہ کر کے اپنی ایک الگ پہچان بنانے کی کوشش کی ہے۔ باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت بلاول کے لیے وزارتِ عظمیٰ کو لے کر بہت سنجیدہ ہے اور اس مقصد کے لیے دی جانے والی قربانیوں کو اگر گنوانا شروع کریں تو ایک طویل سلسلہ درکار ہو گا؛ تاہم چند اہم قربا نیاں بطور نمونہ پیش کی جا رہی ہیں۔
سب سے پہلے چلتے ہیں مصطفی نواز کھوکھر کی جانب‘ انہوں نے جب پارٹی کی لائن سے ہٹ کر انسانی حقوق اور آئین و قانون کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کی تو انہیں کھڈے لائن لگا دیا گیا اور بعد میں ان سے سینیٹر شپ سے استعفیٰ لے لیا گیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ جب سینیٹر اعظم سواتی کو اٹھایا گیا تو انہوں نے قانون اور انسانی حقوق کی پاسبانی اور اپنے ساتھی سینیٹر پر کیے جانے والے تشدد کے خلاف آواز بلند کی تھی مگر جیسے ہی ان کی یہ آواز میڈیا کے ذریعے بلند ہوئی تو ایک زلزلہ سا آ گیا۔ اگلے ہی لمحے مصطفی نواز کھوکھر کو پیغام دیا گیا کہ اپنے بیانات واپس لے کر معافی مانگیں مگر اس نوجوان بیرسٹر نے معافی مانگنے کے بجائے سینیٹ کی نشست کو قربان کرنا زیادہ مناسب سمجھا اور آزادی اور خود داری کو ترجیح دیتے ہوئے اپنا نام تاریخ میں ہمیشہ کیلئے انصاف، قانون اور انسانی حقوق کے محافظ کے طور پر درج کرا لیا۔ پی پی پی کے سینئر رہنما اور معروف قانون دان لطیف کھوسہ نے جیسے ہی آئین اور قانون کی بات کی اور نوے روز میں انتخابات کرانے کی آئینی مدت کی حمایت میں ٹی وی چینلز پر اپنے خیالات کا کھلم کھلا اظہار کیا تو پوری پارٹی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے لطیف کھوسہ کو پیپلز لائر فورم کی صدارت سے ہٹا دیا گیا۔ سینئر قانون دان اعتراز احسن نے جب موجودہ رجیم کے لتے لیے اور پی ٹی آئی کے ساتھ ہو رہی نا انصافی پر آواز بلند کی تو اعتراز احسن جیسے پارٹی کے دیرینہ رکن کو شوکاز نوٹس بھجوا دیا گیا۔ خواجہ آصف نے ایک باقاعدہ پریس کانفرنس کی جس میں پی ڈی ایم رہنمائوں کے خلاف بیان بازی پر اعتراز احسن پر آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ چلانے کے علاوہ یہ بھی دعویٰ کیا کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اعتزاز احسن سے متعلق اچھے خیالات نہیں رکھتی۔ اور یہ معاملہ تو ابھی نسبتاً تازہ ہے کہ کراچی سے تعلق رکھنے والے مرکزی وزیر صحت قاد رپٹیل ایئرپورٹ پر کسی شخصیت کی آمد کے موقع پر خود کو ملنے والے دھکوں اور ایک جگہ پابند کر دیے پر جانے پر اس قدر غصہ ہوئے کہ پارلیمنٹ میں دھواں دھار تقریر کی۔ اگلے ہی روز وہی قادر پٹیل ٹی وی پر اپنی تقریر کا دفاع کرتے نظر آئے، حالانکہ پارلیمنٹ کے فلور پر دیے گئے بیان کو استثنا حاصل ہوتا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved