تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     11-05-2023

تبدیلی اب آئی ہے

عمران خان صاحب کی گرفتاری‘کیا تاریخ کا ایسا نادر ‘انہونا اور منفرد واقعہ ہے کہ اس پر پورے ملک کو آگ لگا دی جائے؟
پاکستان کاکوئی ایک قابلِ ذکر سیاسی راہنما ایسا نہیں ہے جو جیل نہیں گیا۔ بڑے بڑے لوگوں نے کئی کئی سال قید میں گزارے۔مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی‘ ولی خان‘ عبدالصمد اچکزئی‘غوث بخش بزنجو‘مفتی محمود ‘ذوالفقار علی بھٹو‘نوابزادہ نصر اللہ خان۔ان میں سے کسی پر کرپشن کا الزام نہیں تھا۔ غداری کے مقدمات ضرور بنے تھے مگربعد میں ریاست نے ان سے رجوع کر لیا۔یہ سب وہ تھے جنہوں نے ملک کو آئین جیسا تحفہ دیا۔انہیں بھی جیل جانا پڑا۔پھر عمران خان صاحب کے چاربرس کے عہدِ اقتدار میں کیا ہوا؟ نوے نوے دن کے ریمانڈ دیے گئے۔کیا اس کا ردِ عمل یہی ہوا کہ ریاستی املاک کو خاکستر کر دیا گیاہو؟عوام کی جان لی گئی؟
ماضی میں تو قانون کا احترام بھی نہیں کیا جاتا تھا۔خان صاحب کی گرفتاری کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون کے مطابق قرار دیا۔اگلے دن‘ وہ اپنے وکلا کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ابھی تک کچھ خلافِ قانون نہیں ہوا جس سے ان کی ذات کو کوئی نقصان پہنچا ہو۔اللہ کرے کہ آئندہ بھی قانون ہی کا احترام کیا جائے۔ اگر قانون کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو خان صاحب اور ان کے مداح یہ حق رکھتے ہیں کہ احتجاج کریں۔احتجاج بھی وہ جس سے کسی کے جان و مال کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ قومی املاک کو نقصان نہ پہنچے۔
سوال یہ ہے کہ اب کیا ہو گا؟اس گرفتاری سے ملک کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ ریاست کس سمت میں آگے بڑھے گی؟ عمران خان صاحب کی حکمتِ عملی کیا ہو گی؟کیا تحریکِ انصاف کوئی کامیاب احتجاجی تحریک اٹھا سکے گی؟ حکومت اور ریاستی اداروں کا لائحہ عمل کیا ہو گا؟دیگر سیاسی جماعتوں کا ردِ عمل کیا ہو گا؟ کیا خان صاحب کی یہ حکمتِ عملی‘ ان کے مقاصد کے لیے درست ثابت ہو ئی؟
آخری سوال‘سب سے پہلے۔عمران خان صاحب کیا چاہتے تھے؟ فوری انتخابات۔وہ یہ مقصد گزشتہ سال اپریل ہی میں حاصل کر سکتے تھے اگر تحمل کا مظاہرہ کرتے۔ یہ اب ایک کھلا رازہے کہ شہبازشریف صاحب مستعفی ہو نے کا فیصلہ کر چکے تھے۔ان کو نوازشریف صاحب کی ہدایت بھی یہی تھی۔اتحادیوں سے مشاورت ہو چکی تھی۔ان کی تقریر لکھی جا چکی تھی۔عمران خان صاحب کو یہ بات معلوم تھی۔انہوں نے اس سے سیاسی فائدہ کشید کر نا چاہا اورحکومت کو استعفے پر مجبور کرنے کے لیے اسلام آباد پریلغار کا اعلان کر دیا۔
ان کا خیال یہ تھا کہ اس کے بعد جب شہباز شریف صاحب حکومت کے خاتمے کا اعلان کر یں گے تویہ ان کی سیاسی کامیابی شمار ہوگی کہ انہوں نے حکومت کو اس پر مجبور کردیا۔یہی بات حکومت کی پالیسی میں تبدیلی کا باعث بنی۔وہ انہیں یہ کریڈٹ نہیں دینا چاہتی تھی۔یوں انتخابات کی منزل قریب آ کر دور ہو گئی۔اس کے بعد بھی انہوں نے چاہا کہ احتجاج اور زور زبردستی سے‘ حکومت کو جلد انتخابات پر مجبور کریں۔اس کے لیے لانگ مارچ کیا گیا۔وہ وزیر آباد میں ایک حادثے کی نذر ہو گیا۔اس سے یہ بھی واضح ہو گیا تھاکہ لانگ مارچ میں زیادہ لوگ شریک نہیں ہیں اور اس عوامی قوت کے ساتھ احتجاج نتیجہ خیز نہیں ہو گا۔
اس کے بعد دو صوبوں میں اپنی حکومت کے ساتھ اسمبلیاں بھی ختم کردی گئیں۔اس کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ایک بنیادی غلطی وہ ابتدا ہی میں کر چکے تھے اور وہ قومی اسمبلی سے استعفیٰ تھا۔جب سب حربے ناکام ہو گئے تو انہوں نے اسمبلی میں دوبارہ جانا چاہا لیکن اس وقت یہ فیصلہ ان کو نہیں‘ دوسرے فریق کو کرنا تھا۔یوں ان پر اسمبلی کے دروازے نہ کھل سکے۔ درمیان میں کئی مراحل آئے جب وہ مذاکرات کے ذریعے حکومت کو جون تک انتخابات پر آمادہ کر سکتے تھے۔ان کی کوئی چال کامیاب نہ ہوئی‘ یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے باوجود‘جلد انتخابات ممکن نہ ہو سکے۔اس حکمتِ عملی کو کیسے کامیاب کہا جا سکتاہے؟
اس دوران میں انہوں نے دوسری بڑی غلطی یہ کی کہ مقتدرہ سے تعلقات کو خراب کیا اور انہیں سیاست میں مزید پیش قدمی کا موقع فراہم کیا۔ ان کی حکمتِ عملی یہ ہونی چاہیے تھی کہ وہ اہلِ سیاست سے مل کر مقتدرہ کو اس پر مجبور کرتے کہ وہ 'نیوٹرل‘ رہتی اور اقتدار کی سیاست سے مکمل طور پر الگ ہو جاتی۔اس کے برخلاف انہوں نے آئے دن فوج کو ہدف بنایا اور اسے سیاسی فریق بنا کر پیش کیا۔یہ اگر امرِ واقعہ تھا تو بھی ان کی پالیسی یہی ہونی چاہیے تھی کہ انہیں غیر جانبدار بناتے۔نو مئی کو جس طرح تحریکِ انصاف نے ساری توانائیاں مقتدرہ کے خلاف استعمال کیں‘اس کے بعدانہوں نے اسے ایک بار پھر مکمل طور پر سیاست میں دھکیل دیا ہے۔
یہ سیاست کسی طرح عمران خان صاحب کے مفاد میں ہے نہ ملک کے مفاد میں۔آج انتخابات کے امکانات کم و بیش ختم ہو چکے۔ تحریکِ انصاف کے خلاف صرف ایک دن میں اتنے شواہد جمع ہو گئے کہ انہیں اگراسے خلافِ قانون قرار دلوانے کے لیے عدالت سے رجوع کیا جائے تو اس کا بچنا محال ہو جائے۔پشاور کے واقعات غیر معمولی ہیں۔خود عمران خان گرفتار ہو چکے اورشاید ایک طویل عرصہ وہ کوئی فعال کردار ادا نہ کر سکیں۔
تحریکِ انصاف کو اگر سیاست میں زندہ رہنا ہے تواس کو اب ایک کٹھن مر حلے سے گزرناہے۔انہوں نے سیاسی قوتوں اورمقتدرہ سے بیک وقت جنگ چھیڑ رکھی ہے۔اگر اس نے نو مئی کی پالیسی کو جاری رکھا تو پھران کی کامیابی کی واحد صورت یہ ہے کہ وہ خود کو طیب اردوان ثابت کر دیں اور تحریکِ انصاف اے کے پارٹی بن جائے۔کیا یہ ممکن ہو سکے گا؟ اس کا فیصلہ آنے والے چند دنوں میں ہو جا ئے گا۔
اس لیے لازم ہے کہ خان صاحب کی گرفتاری کے بعد‘تحریکِ انصاف احتجاج کو ایک تحریک بنا دے۔پنجاب اور کے پی کی حکومتوں نے فوج کو طلب کر لیا ہے۔گویا اب ان کا معاملہ براہِ راست فوج کیساتھ ہو گا۔اگر تحریکِ انصاف اس صورتِ حال کا کامیابی سے سامنا کر لیتی ہے تو پھر پاکستان میں ترکیہ کی تاریخ دہرائی جا سکتی ہے۔اگر یہ نہ ہوسکا تو خان صاحب اور ان کی جماعت سیاست میں قصۂ پارینہ بن جائیں گے۔ مجھے اس وقت درمیان کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا۔
اگر (ن) لیگ زندگی کا کوئی ثبوت فراہم کر تی ہے تو وہ عوام کے اُس مایوس طبقے کا رخ اپنی طرف پھیر سکتی ہے جو خان صاحب کی اس سیاست سے نالاں ہیں۔ملک میں مثبت سیاست کے لیے جگہ موجود ہے۔ عوام کا ایک بڑا طبقہ ریاستی اداروں سے تصادم نہیں چاہتا۔وہ امن اورسکون کا طلب گار ہے۔وہ اس معاشی نظام کا خواہاں ہے جس میں سب کے لیے ترقی کے مساوی مواقع موجود ہوں۔(ن) لیگ اگر اس طبقے کواپنی طرف متوجہ کر سکے تووہ سیاسی منظر نامے کوتبدیل کر سکتی ہے۔ اگر تحریکِ انصاف اپنی حکمتِ عملی میں تسلسل برقرار رکھتی ہے توپھر صورتِ حال بالکل مختلف ہے۔
نو مئی پاکستان میں ایک بڑی تبدیلی کا نقطۂ آغاز ہے۔سیاست اب وہ نہیں رہے گی جو پہلے تھی۔اب ہم اس مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اقبال نے کہا تھا:
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved