القادر ٹرسٹ مبینہ کرپشن کیس میں عمران خان کی گرفتاری کی خبر ملتے ہی ملک میں امن و امان کی صورتحال بگڑنے لگی۔ عمران خان کے حامی سڑکوں پر نکل آئے اور جارحانہ ا نداز اپناتے ہوئے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا لیکن دوسری جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی کیونکہ ایسا کرنے کی صورت میں حالات مزید ابتر ہونے کا اندیشہ تھا۔ حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر حکومت نے ملک میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا تک رسائی بند کردی۔ حالات ابھی تک معمول پر نہیں آ سکے۔ صوبے میں امن و امان کے قیام کے لیے پنجاب حکومت کی جانب سے پاک فوج کی خدمات طلب کی گئی تھیں جس پر وفاقی وزارتِ داخلہ نے پاک فوج کی خدمات کی منظوری دے دی۔محکمہ داخلہ کے مطابق پاک فوج کی دس کمپنیوں کی خدمات پنجاب حکومت کے سپرد کی گئی ہیں۔ صوبے میں امن وامان قائم کرنے کے لیے پاک فوج ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرے گی۔یہ قدم آئین کے آرٹیکل 245 اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 1997ء کے سیکشن 4 (3) کے تحت سویلین طاقت کی مدد اور امن و امان کی صورتِ حال کو برقرار رکھنے کے لیے اُٹھایا گیا ہے۔
حالات کی سنگینی کے پیش نظر اسلام آباد اور خیبر پختونخوا میں بھی فوج طلب کی جا چکی ہے۔ گزشتہ روز پشاور میں پی ٹی آئی کارکنان نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔احتجاج کے دوران مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مظاہرین کی جانب سے ریڈیو پاکستان کی عمارت میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی۔اب قانون نے اپنا راستہ بنانا شروع کر دیا ہے۔ ہنگامہ آرائی پر تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاریاں عمل میں لائی جا رہی ہیں۔ تادمِ تحریر شاہ محمود قریشی‘ علی زیدی اور اسد عمر کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔تحریک انصاف کے مزید رہنماؤں کی گرفتاری کے بھی امکانات ہیں۔اگر صورتحال ایسی ہی رہتی ہے تو پھر خدانخواستہ کھیل کسی کے ہاتھ میں نہیں رہے گا۔
اُدھر نیب راولپنڈی نے سابق وزیراعظم عمران خان کوعدالت میں پیش کرکے اِن کا 14 روزہ جسمانی ریمانڈ طلب کیا جبکہ احتساب عدالت نے القادر ٹرسٹ کرپشن کیس میں عمران خان کے 8 روزہ جسمانی ریمانڈ کی منظوری دی۔ ہر عمل کا ایک ردِ عمل ہوتا ہے۔ سیاست میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔پہلے عمران خان مسندِ اقتدار پر براجمان ہوکر اپنے مخالفین کو احتساب کا نشانہ بناتے رہے اور اب یہی انتقام کا طوفان عمران خان کو اپنا نشانہ بنا رہا ہے۔عمران خان کی گرفتاری کے بعد حکومت کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ ایک طرف عمران خان اپنے مخالفین کے خلاف کرپشن کے الزامات لگاتے تھے‘ دوسری جانب وہ خود کرپشن کرتے رہے۔ القادر ٹرسٹ کی بات کریں تو یہ کیس یقینی طور پر تحقیقات طلب ہے۔میں القادر ٹرسٹ کیس کا پس منظر بتا دیتا ہوں تاکہ پڑھنے والوں کو سمجھنے میں آسانی ہوسکے۔اس کیس میں عمران خان پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ انہوں نے ملک کے ایک پراپرٹی ٹائیکون سے رشوت لے کر 50 ارب کی رقم کو سیٹل کیا۔ہوا کچھ یوں کہ پراپرٹی ٹائیکون کے خلاف برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے تحقیقات کیں۔اگست 2019ء میں ان تحقیقات کے نتیجے میں 8 بینک اکاؤنٹس کو فریز کیا گیااور ان بینک اکاؤنٹس میں 12کروڑ پاؤنڈز کی رقم موجود تھی۔برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے پراپرٹی ٹائیکون کے 2کروڑ پاؤنڈز دسمبر 2018ء میں بھی منجمد کیے تھے اور لندن میں واقع ہائیڈ پارک کا ایک اپارٹمنٹ بھی قبضے میں لے لیاتھا۔اس اپارٹمنٹ کی مالیت 5 کروڑ پاؤنڈز بتائی جاتی ہے۔ بعد ازاں نیشنل کرائم ایجنسی نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ یہ رقم غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی۔برطانوی ایجنسی اور پاکستانی پراپرٹی ٹائیکون کے درمیان تصفیہ ہوااور اس کے نتیجے میں 190ملین پاؤنڈز کی رقم برطانوی ایجنسی میں جمع کروادی گئی۔تصفیے سے حاصل ہونے والی رقم پاکستان منتقل تو کردی گئی لیکن اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے کابینہ سے ایک بند لفافے کی منظوری لی۔ اُس وقت یہ بتایاجاتا رہا کہ پاکستان میں منتقل کی گئی یہ رقم قومی خزانے میں جمع کروانے کے بجائے سپریم کورٹ کے اس اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی کہ جس میں اُس پراپرٹی ٹائیکون نے سپریم کورٹ کو 460 ارب روپے کی ادائیگی کرنا تھی مگر اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی کابینہ سے 3 دسمبر 2019ء کوایک سر بمہر لفافے میں بند ڈاکیومنٹ کی منظوری لی۔اس بند لفافے میں وزیراعظم کے اثاثہ ریکوری یونٹ کی جانب سے ایک ڈاکیومنٹ پیش کیا گیا تھا۔کابینہ نے یہ نوٹ دیکھے بغیر ہی اس کی منظوری دے دی۔ وزیراعظم نے یہ ہدایات بھی جاری کیں کہ اس ڈاکیومنٹ کو راز رکھا جائے۔حکومت نے 50 ارب کی یہ رقم ایک معاہدے کے تحت پراپرٹی ٹائیکون سے ایڈجسٹ کی۔ 24 مارچ 2021ء کو اس معاہدے پر دستخط ہوئے اور اس معاہدے کے مطابق پراپرٹی ٹائیکون نے 458کنال اراضی القادر یونیورسٹی کو عطیہ کی۔اس زمین کی مالیت کاغذات کے اندر 93کروڑ روپے ظاہر کی گئی جبکہ اصل قیمت اس سے کئی گنا زیادہ سمجھی جا رہی ہے۔اس معاہدے کے تحت ایک طرف اراضی کے عطیہ کنندہ کے دستخط ہیں اور دوسری جانب عمران خان کی اہلیہ کے دستخط ہیں۔یہ قیمتی اراضی القادر ٹرسٹ کے نام پر منتقل کی گئی جس کے اصل میں دو ہی ٹرسٹی بتائے جا رہے ہیں۔ایک عمران خان اور دوسری اُن کی اہلیہ۔ بعد میں ڈاکٹر عارف نذیر بٹ اور فرح خان کو ٹرسٹیز بنادیا گیا۔اب دلچسپ پہلودیکھئے کہ عطیہ کی گئی اراضی کے معاہدے پر اُس وقت دستخط کیے گئے جب عمران خان القادر یونیورسٹی کے چیئرمین اور اس ملک کے وزیر اعظم کے عہدے پربراجمان تھے۔اس حوالے سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ 22 اپریل2020ء کو عمران خان نے القادر ٹرسٹ اسلام آباد کے چیئرمین کی حیثیت سے جوائنٹ سب رجسٹرار اسلام آباد کو ایک خط لکھا اورترمیم شدہ ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ ٹرسٹ کا دفتر‘ سیکٹر ایف 8 سے عمران خان کے بنی گالا ہاؤس منتقل کردیا گیا۔یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب عمران خان وزارتِ عظمیٰ کی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اب نیب عمران خان سے اس کیس کہ چھان بین کرے گا۔خان صاحب اور ان کی اہلیہ پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے رقم کی سیٹلمنٹ پر 7 ارب روپے اور اُس وقت کے مشیر احتساب شہزاد اکبر نے 2 ارب روپے بنائے۔اب اس خفیہ معاہدے کے نتیجے میں بھاری رقوم کس کھاتے میں منتقل ہوئیں اور القادر ٹرسٹ کے نام پر کس طرح سے فائدہ اٹھایا گیا‘ یہ معاملہ تحقیقات طلب ہے۔ بہرحال عمران خان کو اپنے عمل کے بدلے میں احتساب کے ردِ عمل کا سامنا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس کا سامنا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام رہتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved