بعض شعر قریب سے چلائے ہوئے تیر کی طرح ہوتے ہیں۔ ایسے پیوست ہوتے ہیں کہ اپنے رگ و ریشے ادھیڑ کر ہی انہیں نکالا جا سکتا ہے۔ اس کلیے میں ایک اور مسلمہ کا اضافہ بھی کر دوں تو غلط نہیں ہوگا۔ جس عمر میں انسان کو شعر کا لپکا شروع ہوتا ہے۔ اور جدید تر شاعروں کو پڑھنے کا آغاز ہوتا ہے (اور اکثر اس وقت شعر گوئی کا آغاز نہیں ہوا ہوتا) اس زمانے میں دل میں ترازو ہو جانے والے شعر پیوست ہی رہتے ہیں۔ آپ جب کبھی کسی ایسے شعر کا چراغ رگڑیں‘ اس کا جن اپنا زمانہ‘ اپنا ماحول‘ اپنے عشق اور اپنی کیفیات ساتھ لے کر حاضر ہو جاتا ہے۔ ایسے بہت سے شعر وں کی نوکیں میں بھی سینے میں لیے پھرتا ہوں۔ آپ بھی چاہیں تو یہ پیکان سینے پر سجا لیں
اک عمر جس کی مار پہ رہ کر بچے رہے
پہنچے جو اوٹ میں تو وہی تیر کھا لیا
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کر چلی حیات
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا
ظفر اقبال تو اپنے پہلے شعری مجموعے آبِ رواں کے ساتھ ہی 60کی دہائی میں اُس افق پر بہت روشن ہو گئے تھے جہاں بڑے بڑے ستارے پہلے ہی جگمگا رہے تھے۔ لیکن ہم ادبی شعور کو پہنچے تو 80کی دہائی میں بھی یہ ہمارے لیے تازہ تر مجموعہ تھا۔ اس کے شعر ہم پڑھتے‘ یاد کرتے‘ بانٹتے اورجذب کرتے تھے۔
پڑے رہو کہ یہ جھنکار ہی غنیمت ہے
کروگے حلقۂ زنجیر سے نکل کر کیا
دل کا پتا سرشکِ مسلسل سے پوچھیے
آخر وہ بے وطن بھی اسی کارواں میں تھا
یہاں کسی کو بھی کچھ حسبِ آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تُو نہ ملا
وہ مجھ سے اپنا پتا پوچھنے کو آ نکلے
کہ جن سے میں نے خود اپنا سراغ پایا تھا
بہت سال پہلے ایک دن میں اپنی لَلک میں بیٹھا تھا کہ کچھ شاعر دوست ملنے آگئے۔ کہنے لگے کہ ابھی ہم ظفر اقبال کی طرف سے آرہے ہیں انہوں نے کہا کہ فنون کے تازہ پرچے میں مجھے اس بار تو صرف ایک شاعر سعود عثمانی کی غزلیں اچھی لگیں۔ ان سے میرا تعارف نہیں‘ اگر آپ جانتے ہوں تو کہیے کہ مجھے ملیں۔ میں ملنے گیا اور واپسی پر ایک رجحان ساز شاعر کی بہت سی داد بھر کر لایا۔ یہ ان سے شاید پہلی باقاعدہ ملاقات تھی۔ آثار کی حالیہ محفل میں بیٹھے ہوئے میں برسوں پہلے کی ایک اور محفل میں جا پہنچا۔ ایسی ہی محفلیں اسلام آباد اور کراچی میں بھی نامور شعراء کے ساتھ منعقد ہوئی تھیں۔ پی ٹی وی سٹیشن لاہور کے سٹوڈیو میں ڈرائنگ روم کا سیٹ لگا ہوا تھا۔ گویا کہ یہ ظفر اقبال کا گھر ہے اور لاہور کے کچھ شاعر اور ادیب ان سے ملنے آئے ہوئے ہیں۔ سعود عثمانی بھی ان خاص ملاقاتیوں میں سے ایک تھا۔ بعد کے ماہ و سال میں بھی کبھی کالم کے ذریعے اور کبھی زبانی جناب ظفر اقبال کی داد مجھے پہنچتی رہی ہے اور میں اسے اپنی خوش قسمتی سمجھتا رہا ہوں۔ ادھر اپنے مزاج اور اپنی کم آمیزی سے میں ہمیشہ تنگ رہا۔ اس لیے کہ اس نے مجھے بہت سے مشاہیر کا مداح ہونے کے باوجود ان سے ملاقاتوں سے محروم رکھا۔ میں اس مزاج کو کون سے دریا میں ڈبو دوں کہ راوی میں اب چلو بھر پانی بھی کم کم ملتا ہے۔ اس کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ کہ جناب ظفر اقبال سے میری ملاقاتیں کم کم ہوئیں لیکن ان کی شاعری سے اَن گنت اور گھنٹوں پر محیط ملاقاتیں رہی ہیں۔
کچھ دن پہلے ادبی جریدے آثار کی سجائی ہوئی محفل میں ہمارے عہد کے بڑے اور منفرد شاعر جناب ظفر اقبال سٹیج پر تھے۔ ان کے دائیں بائیں اور سامنے خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے لاہور اور اطراف کے نامور شعراء اور شاعرات موجود تھے۔ آثار نے اپنے نئے عہد میں‘ نئی ادارتی مجلس کے ساتھ انہی روایات کا احیاء کیا ہے جو سابقہ دور میں بھی اس کی شناخت رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ہے جو ایک خطیر رقم کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ آثار ایسے کئی ایوارڈز سابقہ دور میں نامور لوگوں کو پیش کر چکا تھا اور اب ظفر اقبال کا نام اس فہرست میں شامل ہوگیا ہے۔ جناب ظفر اقبال کو اس بار کافی مدت کے بعد دیکھنے کا موقع ملا اور یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ علالت اور طبعی کمزوری کے باوجود ان کا ذہن اسی طرح حاضر اور براق ہے۔ یہ کوئی چھوٹی بات نہیں کہ وہ اب تک روزانہ کی بنیاد پر کالم نگاری کے ساتھ ساتھ مسلسل غزلیں بھی کہہ رہے ہیں اور ان میں ظفر اقبال کا اپنا لہجہ بھی بولتا ہے۔ لہجہ بھی کوئی ایسا ویسا؟
روک لینا تھا ذرا دیر یہ آواز کا رس
بیچ لینا تھا یہ سودا ذرا مہنگا کر کے
فرق اتنا نہ سہی عشق و ہوس میں لیکن
میں تو مر جاؤں ترا رنگ بھی میلا کرکے
لو دے اٹھیں پھسلتی ہوئی انگلیاں ظفرؔ
وہ آگ تھی کھلے ہوئے ریشم کے تھان میں
باہر گلی میں چلتے ہوئے لوگ تھم گئے
تنہائیوں کا شور تھا خالی مکان میں
روبرو کرکے کبھی اپنے مہکتے سرخ ہونٹ
ایک دو پل کیلئے گل دان کردے گا مجھے
میں قتل ہوکے بھی خوشبو بکھیرتا ہوں ظفر
لہو گلاب کی صورت پڑا مہکتا ہے
شبہہ سا رہتا ہے یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کوئی تھا بھی کہ نہیں کوئی ہے بھی کہ نہیں
دل نے خود پہلی محبت کو سبوتاژ کیا
دوسری کے لیے اور دوسری ہے بھی کہ نہیں
بھری رہے یونہی آنکھوں میں اس کے خواب کی نیند
وہ خواب ہے تو یونہی دیکھنے سے گزرے گا
وہ کسی اور طرف دیکھ رہا تھا اس وقت
اسی دوران میں میں نے اسے دیکھا کیا کیا
اردو شاعری کی دنیا میں جہاں ظفر اقبال کا بھرپور اعتراف کیا گیا وہیں ان پر لسانی تجربوں‘ اینٹی غزل وغیرہ کے حوالوں سے بھی بہت تنقید ہوئی لیکن جیسی غزل انہوں نے کہی اور جس انداز کے شعر ان کے حصے میں آئے وہ بس انہی کے ساتھ خاص تھے۔ ایسے شعر ان کے سوا کون کہتا؛
یوں محبت سے نہ دے میری محبت کا جواب
یہ سزا سخت ہے تھوڑی سی رعایت کر دے
سحر ہوئی تو بہت دیر تک دکھائی دیا
غروب ہوتی ہوئی رات کا کنارہ مجھے
جب سمندر تری آواز سے بھر جاتا ہے
دیر لگتی ہے کنارے کی طرف آنے میں
کیا ریت کا اک پھول سا کھل اٹھتا ہے دل میں
جب موجِ ہوا آتی ہے صحرا کی طرف سے
ذاکرہ تھی کوئی اور خوب رلاتی تھی ظفرؔ
مجلسیں پڑھتی ہوئی دل کے عزا خانے میں
خبر نہیں مجھے مطلوب اور کیا ہے کہ میں
زیادہ خوش نہیں ارض و سما کے ہونے سے
وہ دسترس سے دور سہی، اس کے باوجود
یہ ہے دماغ اس میں خلل ہونا چاہیے
یہ تحریر جناب ظفر اقبال کی غزل کا نہ مکمل اعتراف ہوسکتی ہے نہ مکمل انتخاب۔ یہ تو بس ایک اظہار ہے۔ وہ بھی تشنہ۔ ایک چوکھٹے میں جس کی لمبائی چوڑائی متعین اور محدود ہو‘ کسی عمدہ شاعر کے بارے میں کتنی بات کی جاسکتی ہے؟ اور یہ بات تو ہے بھی ظفر اقبال کی جو اپنے بنائے ہوئے چوکھٹوں میں بھی قید نہیں تو اس کالم میں کیسے اسیر ہوسکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved