ایک بات تو طے ہے کہ ناممکن کچھ بھی نہیں۔ اَن ہونی ہو کر ہی رہتی ہے۔ کس کو یقین تھا کہ عمران خان گرفتار ہوں گے؟ مجھے تو نہیں تھا کہ عمران خان گرفتار ہوں گے۔ خان صاحب کو یہی یقین دلایا گیا تھا کہ انہیں کوئی گرفتار نہیں کرے گا۔ گرفتاری کا یقین تو شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نہ تھا لیکن وہ دونوں گرفتار ہوئے۔ شیخ مجیب پھانسی لگتے لگتے بچ گیا لیکن بھٹو پھانسی لگ گئے۔ یقین تو بینظیر بھٹو کو بھی نہیں ہوگا کہ انہیں قتل کیا جائے گا۔ نواز شریف نے کب سوچا تھا کہ ایک لمحے وہ ایک آرمی چیف کو برطرف کررہے ہوں گے تو دوسرے لمحے وزیراعظم ہاؤس میں قیدی ہوں گے اور دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کی سزا سنیں گے۔ پاکستانی سیاست ایسی ہی ہے۔ آپ خود مارے جائیں یا کسی کو مار دیں۔ کسی کو پھانسی لگا دیں یا خود لگ جائیں۔ انسانی تاریخ میں جن لوگوں کو انسانوں پر حکمران بننے کا خبط سوار ہوا تو پھر انہوں نے بے رحم بننے کا فیصلہ کیا۔ اقتدار کے لیے رحم دلی کو بزدلی سمجھا جاتا ہے۔
عمران خان نے برسوں یہی تاثر دیے رکھا کہ وہ سادہ ہیں‘ بھولے ہیں۔ ملک کی محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت جو سیاستدانوں کی مکاریوں اور کرپشن سے تنگ آئی ہوئی تھی‘ وہ ان کی باتوں پر ایمان لے آئی۔ شریف یا زرداری نے انہیں کبھی سیریس نہ لیا لیکن عوام اور مقتدرہ نے انہیں سنجیدہ لینا شروع کیا۔ سابق ڈی جی آئی ایس آئی ظہیر الاسلام کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ ہم نے سوچا تیسری قوت لانچ کی جائے جو ملک کو بہتر چلائے۔ یوں عمران خان کا راستہ کھلا۔
قمر جاوید باجوہ صاحب کو چھ سال چاہیے تھے۔ انہیں جلد اندازہ ہو گیا کہ نواز شریف توسیع نہیں دیں گے لہٰذا عمران خان پروجیکٹ لانچ کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل جنگجو پیدا کیے گئے۔ بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کیا گیا۔ نوجوانوں کو تیار کیا گیا جو سوشل میڈیا پر ہر اس بندے کی ایسی تیسی کر دیتے جو مقتدرہ یا عمران خان کے نقطۂ نظر سے اختلاف کرتا نظر آتا۔ سب کام چھوڑ کر سارا فوکس سوشل میڈیا پر رکھا گیا۔ تاثر دیا گیا کہ عمران خان کے آنے سے پاکستان ترقی کرے گا۔ ہم مسلم دنیا کو لیڈ کریں گے۔ انسانی تاریخ میں ہمیشہ عوام کو مذہب اور وطن پرستی کے نام پر ابھار کر جنگیں لڑی گئیں۔ کروڑوں لوگ مارے گئے صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ہمارا مذہب یا ہمارا وطن تمہارے مذہب اور تمہارے وطن سے برتر ہے۔ چالاک اور ذہین لوگوں کے لیے عام انسانوں کو ان دو باتوں پر اکسانا اور اپنے پیچھے لگانا ہمیشہ آسان رہا ہے۔
آپ ہزاروں سال پیچھے نہ جائیں‘ موجودہ دور کے چند کردار ہی دیکھ لیں ‘ طریقۂ واردات وہی پرانا ہے۔ لوگوں کو عظیم بنانے کا نعرہ لگاؤ۔ امریکہ میں ٹرمپ نے سفید امریکیوں کو یہی نعرہ دیا کہ تم گورے عظیم لوگ تھے۔ امریکہ عظیم تھا لیکن اوباما صدر بنا تو اس نے امریکہ کو عظمت کے مینار سے نیچے گرا دیا۔ دوبارہ عظیم بننا ہے تو مجھے صدر بنائو جس کا رنگ آپ گوروں جیسا ہے۔ اوباما کا رنگ آپ سے مختلف ہے تو وہ کیسے آپ کا لیڈر ہو سکتا ہے۔ یوں امریکہ کو عظیم بنانے کا نعرہ دے کر امریکی معاشرے کو بدترین انداز میں تقسیم کر دیا اور خود صدر بن بیٹھا۔ جب صدر کا الیکشن ہارا تو نہ وہ ہار مان سکتا تھا نہ اس کے حامی اور یوں انہوں نے کیپٹل ہل پر قبضہ کیا۔ اندر گھس گئے۔ لوگوں کو مارا پیٹا۔ کچھ لوگ اپنی جان سے گئے۔ اب امریکہ میں خبطِ عظمت کے شکار گورے اپنے سے مختلف رنگ والوں کو چرچوں اور نائٹ کلبوں میں گولیاں مار رہے ہیں‘ صرف یہ ثابت کرنے کیلئے کہ ہم تم لوگوں سے عظیم ہیں کیونکہ ہمارا رنگ گورا ہے۔ آج کل اسی ٹرمپ پر نیویارک کی عدالت میں سنگین مقدمات چل رہے ہیں۔
یہی کام ہمارے ہمسائے میں نریندر مودی اور بی جے پی نے شروع کیا۔ وہاں بھی یہی نعرہ مارا گیا کہ تمہارا مذہب دنیا کا قدیم مذہب ہے۔ تمہاری تہذیب اور شان و شوکت سب سے اعلیٰ تھی لیکن مسلمانوں کے حملوں اور حکمرانی سے یہ تہذیب برباد ہوئی۔ میں دوبارہ تمہارے مذہب کو آسمان کی بلندیوں پر لے جائوں گا۔ تمہیں عظیم قوم بنائوں گا۔ یوں وہاں بھی سوشل میڈیا کے ذریعے دھیرے دھیرے لوگوں‘ خصوصاً نوجوانوں کا ذہن بنایا گیا کہ اگر تم نے عظیم بننا ہے تو پھر مسلمانوں کو ختم کرنا ہوگا اور یہ کام کانگریس یا کمیونسٹ پارٹیوں کے بس کی بات نہیں۔ یہ کام آر ایس ایس اور بی جے پی مل کر ہی کر سکتے ہیں۔ یوں مودی گجرات سے اٹھا اور بھارت کا دو دفعہ وزیراعظم بنا اور اب شایدجلد تیسری دفعہ بھی وزیراعظم بن جائے گا۔ ہندوستانیوں کو بھی لگتا ہے کہ وہ بھی عظیم قوم بننے سے چند قدم دور ہیں۔ یوں پورا ہندوستان تقسیم ہوا۔ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کی مہم شروع ہوئی۔ سرعام مسلمانوں کو مارا‘ پیٹا اور قتل کیا جانے لگا۔ اب وہاں بھی دن رات تشدد ہو رہا ہے۔ معاشرہ بری طرف بٹ چکا ہے۔
یوکرین کے عوام کو بھی لگا کہ انہیں عظیم قوم بن کر ابھرنا چاہیے۔ اس کام کیلئے انہوں نے بھی ایک ہینڈسم اداکار کو چنا جو انہیں لطیفے سنا کر ہنساتا تھا۔ انہیں لگا یہ ہینڈسم بھی انہیں عظیم بنائے گا۔ زیلنسکی جب صدر بن گیا تو سوچا اب قوم کو کیسے ثابت کرے کہ ان کا انتخاب درست تھا۔ اس نے روس سے سیدھی ٹکر لے لی۔ اب حالت یہ ہے کہ لاکھوں مارے گئے ہیں۔ لاکھوں یورپ کے کیمپوں میں پناہ گزین ہیں۔ یوکرین کا عظمت کی طرف سفر ابھی جاری ہے۔ لاکھوں مزید مارے جائیں گے۔ روس/ یورپ کو ایک داد دیں کہ جب وہ لڑتے ہیں تو بھارت پاکستان کی طرح دو تین ہفتوں کی جنگ نہیں لڑتے‘ پھر وہ برسوں لڑتے ہیں۔ پہلی عالمی پانچ سال چلی تو دوسری عالمی جنگ چھ سال چلی۔ عظیم بننے کے اس طویل سفر میں وہی جاپانی اور جرمن اقوام جو عظیم بننے نکلی تھیں‘ برباد ہوئیں۔
ہمارے ہاں عمران خان نے بھی یہی روٹ لیا۔ وہ پاکستان کو کرپشن اور کرپٹ لوگوں سے بچانے نکلے تھے۔ وہ شروع میں ایک ریفامر بن کر ابھرے۔ ان کی سیاسی مہم کو خوب پذیرائی ملی کہ لوگ زرداری اور شریفوں کی بے پناہ کرپشن اور بیرونِ ملک جائیدادوں اور ان کے بچوں کی عیاشیوں اور لٹ مار سے اُکتا چکے تھے۔ خان صاحب نے چالاکی سے ان تمام کرپٹوں کو ساتھ ملایا جن کے خلاف وہ مہم چلا رہے تھے۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا وہ کتنی عظیم قوم کے ممبر تھے‘ انہیں بس لیڈر چاہیے تھا۔ ہر قوم ہر وقت مسیحا کی تلاش میں رہتی ہے۔ خان صاحب نے پاکستانی قوم کے سامنے جو ہیروز اور رول ماڈلز پیش کیے‘ وہ سب افغان طالبان تھے۔ انہیں صرف افغان طالبان ہی بہادر اور غیرت مند نظر آئے‘ کوئی ایک پڑھا لکھا پاکستانی ان کا ہیرو نہ تھا۔ وہ بھول گئے کہ اس افغانستان کی کیا حالت ہے جس کو رول ماڈل بنا کر پیش کیا جارہا تھا۔ وزیراعظم بنے تو فیض حمیداور قمر باجوہ صاحب کو ساتھ ملا کر ان طالبان کو واپس لا کر سیٹل کیا جن پر الزام تھا کہ ستر ہزار پاکستانی مار ڈالے تھے۔
عمران خان کو لگا امریکہ‘ یورپ‘ چین‘ برطانیہ‘ سعودی عرب‘ قطر اور متحدہ عرب امارت سے لڑنا زیادہ آسان کام تھا بہ نسبت پاکستان کو مسائل سے نکالنا۔ مسئلے کا حل یہی ڈھونڈا گیا کہ اگر عظیم قوم بننا ہے تو پھر پوری دنیا سے ٹکڑ لینی ہو گی۔ ہم غلام تھوڑی ہیں۔ ہم سے برابری کا سلوک کیا جائے۔ دوسری طرف مقتدرہ کو لگا کہ جو کام بھارت نہ کر سکا کہ پاکستان کو دوستوں سے دور کرتا‘ وہ خان نے اکیلے کر دیا لیکن سوال یہ ہے کہ عمران خان کو ہٹا کر زرداری اور شریفوں کو واپس لانا درست فیصلہ تھا جس نے ایک بدترین Chaos کو جنم دیا ہے جس کی شروعات عمران خان کی گرفتاری سے ہو چکی؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved