تحریر : ڈاکٹر صوفیہ یوسف تاریخ اشاعت     12-05-2023

پاکستان اور انڈیا کے حکمران اور عوام

جنوبی ایشیا کے دو بڑے ملکوں پاکستان اور انڈیا کا شمار ایسے روایتی حریفوں میں ہوتا ہے جن کے اختلافات علاقائی یا سیاسی سے زیادہ وجودی حیثیت رکھتے ہیں۔ آزادی کے 75سال گزرنے کے باوجود تنازعات اور بد اعتمادی کی وجہ سے ان کے دوطرفہ تعلقات میں بہتری نہیں آسکی ہے‘ جس کی وجہ سے علاقائی مسائل کا حل اور ترقی کیلئے مل کر کام کرنا ناممکن ہی رہا ہے۔ دنیا کی کل آبادی کا 24.89فیصد جنوبی ایشیا میں آباد ہے اور غربت کی شرح بھی خطے میں بلند ہے۔ ایک ارب سے زیادہ آبادی کے ساتھ بھارت آبادی کے لحاظ سے سر فہرست اور 24 کروڑ آباد ی کے ساتھ پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں غربت کی شرح 28.5اور پاکستان میں 24.3 فیصد ہے۔ علاقائی تعاون کے ذریعے دنیا کے مختلف ممالک اپنے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں تو جنوبی ایشیا اور خاص طور پر پاکستان و انڈیا کی حکومتیں غربت کے خاتمے کیلئے مل کر کام کیوں نہیں کر سکتیں۔ انڈیا خطے میں بالا دستی کا خواہاں ہے لیکن اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے جنوبی ایشیائی تنظیم برائے علاقائی تعاون (سارک)‘ جس کا مقصد خطے میں اقتصادی اور سماجی ترقی کو فروغ دینا ہے‘ عملی طور پر غیرفعال ہو چکی ہے۔
شنگھائی تعاون تنظیم‘ جس کے آٹھ ممبران میں پاکستان اور انڈیا بھی شامل ہیں‘ (اس تنظیم میں آٹھ مستقل ارکان‘ چار مبصر ممالک اور چھ ڈائیلاگ پاٹنرز شامل ہیں) کا سربراہی اجلاس اس سال جولائی میں انڈیا میں منعقد ہوگا۔ سربراہی اجلاس کے ایجنڈے کی تیاری کے لیے تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کی میٹنگ 4تا 5مئی انڈیا کے ساحلی شہر گوا میں منعقد ہوئی۔ وزرائے خارجہ کونسل کی میٹنگ میں میزبان ملک کے طور پر انڈیا کی ہندو قوم پرست حکومت نے ہچکچاتے ہوئے پاکستان کے وزیر خارجہ کو مدعو کیا۔ اس سے قبل 20 اپریل کو مودی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں انڈین فوجی قافلے پر حملے کا ڈرامہ رچایا اور اس حملے کو بنیاد بنا کر پاکستان کے خلاف واویلا مچایا تاکہ جب پاکستان کو ایس سی او اجلاس میں شرکت کے لیے مدعو کیا جائے تو وہ احتجاجاً بائیکاٹ کا اعلان کرکے انڈیا کے لیے میدان کھلا چھوڑ دے لیکن اس مرتبہ پاکستان کے دفتر خارجہ اور نوجوان وزیر خارجہ نے انڈیا کو یہ موقع نہیں دیا اور شنگھائی تعاون تنظیم کے کثیر الجہتی فورم پر پاکستان کے نقطۂ نظر کو واشگاف الفاظ میں بیان کیا۔ ماہرین کا خیال تھا کہ بلاول بھٹو زرداری کو اس میٹنگ میں آن لائن شرکت کرنی چاہیے۔ نوجوان اور نہ تجربہ کار ہونے کی وجہ سے وہ انڈیا کے گھاگ سفارت کاروں اور میڈیا کے سوالوں کا شاید مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری‘ جو بے نظیر بھٹو کے بیٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے نواسے ہیں‘ نے کمال دھیمے پن اور غیرجذباتی انداز میں نہ صرف انڈین میڈیا کو لاجواب کردیا بلکہ ایس سی او کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے نقطۂ نظر کو مدلل انداز میں پیش کیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کشمیر کے حوالے سے مودی حکومت کے 2019ء کے اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کشمیریوں پر ہونیوالے مظالم کی طرف ایس سی او کے ممبران کی توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ اپنی اندرونی سیاست کو چمکانے کیلئے مودی حکومت دہشت گردی کے بے بنیاد الزامات پاکستان پر عائد کر کے دہشت گردی اور اسلامو فوبیا کو پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کر رہی ہے۔ انڈیا‘ پاکستان میں عسکریت پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔ کلبھوشن یا دیو اس کا ثبوت ہے۔ سمجھوتا ایکسپریس پر حملے میں ملوث ملزمان انڈیا میں آزاد گھوم رہے ہیں۔ پلوامہ حملے کے فلاپ ڈرامے اور ابھینندن جیسے انڈیا کے تمام غیرقانونی حربوں کو بے نقاب کرکے بلاول بھٹو زرداری نے انڈیا کے تجربہ کار وزیر خارجہ ڈاکٹر سبرامنیم جے شنکر کو اس قدر پریشان کردیا کہ وہ سفارتی و میزبانی کے تمام تر آداب و اخلاقیات کو بھول کر ایسے الفاظ استعمال کر بیٹھے جس سے انڈیا کا غیر جمہوری و غیر مہذب چہرہ دنیا کے سامنے آگیا۔ جے شنکر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے ختم ہونے کے دو روز بعد تک پاکستان اور پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی گفتگو پر بالواسطہ تنقید کرتے رہے۔ ان کی یہ تنقید ان کی جھنجھلاہٹ اور انڈیا کی کمزوری ظاہر کر رہی ہے۔
2001ء میں وسطی ایشیا میں سکیورٹی اور اقتصادی معاملات پر بات چیت کے لیے قائم ہونیوالی شنگھائی تعاون تنظیم کی چین اور روس قیادت کررہے ہیں۔ اس تنظیم کے بنیادی اہداف ممبر ممالک کے درمیان اعتماد اور اچھے ہمسایہ تعلقات کو مضبوط بنانا‘ سیاست‘ تجارت‘ معیشت‘ سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ ثقافت‘ ماحولیاتی تحفظ اور دیگر شعبوں میں مؤثر تعاون کو فروغ دینا‘ خطے میں امن‘ سلامتی اور استحکام کو برقرار رکھتے ہوئے منصفانہ اقتصادی بین الاقوامی نظام کے قیام کی طرف بڑھنا ہے۔ گوا میں ہونے والی دو روزہ میٹنگ نے ابھرتے ہوئے برکس (BRICS) بلاک کے ایشیائی اور یوریشیائی ممالک کے زیادہ تر ارکان کو ایک ساتھ بیٹھنے کا موقع فراہم کیا تاکہ رکن ممالک اپنے اندرونی اختلافات و رقابتوں کو ختم کر کے بہتر تعلقات اور اقتصادی مواقع سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔ اس طرح علاقائی طاقتیں مضبوط ہوں گی اور یک قطبی دنیا سے کثیر قطبی دنیا کے قیام کو ممکن بنایا جا سکے گا۔
دنیا میں علاقائی تعاون کی مثالیں تلاش کرنا مشکل نہیں۔ یورپی یونین کو ہی لے لیں‘ یورپی ملکوں نے اپنے آپسی تنازعات کو ایک طرف رکھ کر یورپی عوام کی فلاح اور اقتصادی ترقی کے لیے یورپی یونین تشکیل دی۔ زیادہ دور نہ جائیں‘ چین اور انڈیا کے درمیان دیرینہ سرحدی تنازعات کی وجہ سے 1961ء میں جنگ بھی ہو چکی ہے۔ سرحدی تنازعات کی وجہ سے 2020-21ء میں دونوں ملکوں کے درمیان شدید سرحدی جھڑپیں بھی ہوئیں۔ اس تلخی اور کشیدگی کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی معاملات میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی اور تجارت معمول کے مطابق جاری ہے۔ ایسے میں پاکستان اور انڈیا کے عوام یہ سوال پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ حکمران اور پالیسی ساز‘ تناؤ اور کشیدگی کو بڑھانے کے بجائے ایسی پالیسیاں کیوں نہیں اپناتے کہ دونوں ہمسایوں کے درمیان تعلقات نارمل ہو جائیں۔ تجارت‘ نقل و حمل کو آسان بنایا جائے۔ جب بداعتمادی کی فضا میں کمی آئے گی تبھی دفاع پر خرچ ہونیوالا بجٹ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے عوام کی فلاح اور ملکی ترقی و استحکام کیلئے استعمال ہو سکے گا۔ خطے میں غربت کو کم کرنے کی کوششوں کیلئے ممکنہ علاقائی تعاون کیساتھ اندرونی پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور انڈیا کو قومی سلامتی اور دفاع پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے اکثر سکیورٹی ریاستیں کہا جاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوری اور سویلین ادارے زیادہ مضبوط نہیں ہو سکے‘ وہیں انڈیا میں ایک بڑی فوجی اسٹیبلشمنٹ موجود ہے جس نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد اپنی دفاعی صلاحیتوں کو بڑھانے اور جدید بنانے کیلئے ملکی بجٹ سے بہت بڑا حصہ لیا ہے۔ غربت کے خاتمے کیلئے خطے کے ممالک کے درمیان تعاون کی اشد ضرورت ہے جو جغرافیائی‘ سیاسی کشیدگی اور تاریخی عداوتوں کی وجہ سے اب تک ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ اگر انڈیا اپنی خارجہ پالیسی کو اندرونی سیاست کی بھینٹ چڑھانے کی روش کو ترک کرکے پاکستان کے ساتھ مثبت بات چیت اور مشترکہ مقاصد کے لیے کام کرنے پر آمادہ ہو جائے تو خطے میں ترقی اور عوامی خوشحالی کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved