ہم جس سے ڈر رہے تھے وہی بات ہوگئی۔ جس سانحہ کی پرورش برسوں سے کی جارہی تھی وہ قومی المیہ کی صورت میں رونما ہو چکا ہے۔ اپنے کالموں میں برابر باور کرواتا چلا آرہا ہوں کہ عمران خان کا بیانیہ اور ان کے حامیوں کی ہرزہ سرائی ان حدوں کو چھو چکے ہیں کہ یہ اندازہ کرنا مشکل ہے کہ وہ بھارتی ایجنڈوں اور خواہشات کی ترجمانی کر رہے ہیں یا بھارت ان کا ترجمان ہے۔ خان صاحب کی شعلہ بیانیوں کے وڈیو کلپ بھارتی میڈیا میں بطور حوالہ استعمال ہو رہے ہیں۔ بھارت تو پہلے ہی پاکستان میں معاشی بدحالی‘ افراتفری‘ بدامنی‘ بھوک ننگ سمیت ان تمام حالات کا تمنائی ہے جو مملکتِ خداداد کو غیر مستحکم اور دیوالیہ کر سکتے ہیں۔ خواہشات اور نہ ختم ہونے والی حسرتیں بعض اوقات اس مقام پر لے جاتی ہیں جہاں ہدف کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ جہاں ہدف صرف اقتدار ہو اور کسی بھی قیمت پر ہو‘ غیرتِ قومی اور ملکی استحکام کو داؤ پر لگانے سے بھی گریز نہ کیا جائے تو اﷲ ہی حافظ ہے۔
پاک فوج کے ترجمان نے 9 مئی کو سیاہ باب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو کام ابدی دشمن 75 برس میں نہ کر سکا‘ وہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہوسِ اقتدار میں مبتلا گروہ نے سیاسی لبادہ اوڑھ کر کر دکھایا ہے۔ یہ انتباہ بھی کر دیا گیا ہے کہ اب شدید ردِعمل دیا جائے گا۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد سامنے آنے والا ردِعمل ملک دشمنی کا ناقابلِ معافی جرم بھی قرار دے دیا گیا ہے؛ تاہم یہ بات طے ہے کہ پی ٹی آئی جوش میں ہوش گنوا کر وہ سبھی کچھ کر گزری ہے جو کم از کم کوئی ذمہ دار سیاسی جماعت نہیں کر سکتی۔ یوں لگتا ہے کہ بلوائیوں اور جنونیوں کی کوئی فوج حملہ آور ہے۔ پتھراؤ‘ توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے مناظر ہوں یا عسکری املاک پر حملے‘ سرکاری املاک کو نذرِ آتش کرنے کے واقعات ہوں یا عام شہریوں کی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کو راکھ بنانے کے‘ پاک فوج کی گاڑیوں پر ڈنڈے برسانے کا افسوسناک عمل ہو یا نازیبا اور غلیظ زبان استعمال کرنے کا‘ انسان دشمنی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوگی کہ ہسپتالوں پر بھی حملہ کر ڈالا۔
ایمبولینس میں مریض کی موجودگی کے باوجود ڈنڈوں کی بارش کون سے سیاسی منشور کا حصہ ہے؟ ارب ہا روپے کا نقصان‘ کاروبارِ زندگی معطل‘ گزشتہ تین روز سے جو قیامت برپا ہے اس کے اظہار اور عین عکاسی کے لیے ڈھونڈے سے بھی الفاظ نہیں مل پا رہے۔ دیدہ دلیری اور ڈھٹائی کے کیسے کیسے شرمناک مناظر کے وڈیو کلپس دِل کا کام تمام کیے ہوئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی رہنما اور سابق وزیر مظاہرین کو ہدایت جاری کر رہی ہیں کہ اکٹھے ہو کر سرکاری املاک پر دھاوا بولو جبکہ پی ٹی آئی کی دیگر سرکردہ شخصیات جس طرح جتھوں کو اکسانے اور شہر کے امن کو برباد کرنے کی ہدایات دیتی رہی ہیں‘ ان سبھی کے پول بھی کھل چکے ہیں۔
اُف خدایا! مبینہ آڈیو لیک میں کہیں ٹائیگر فورس کو آگ لگانے تو کہیں کھلے عام فائرنگ کی ہدایت دی جا رہی ہے۔ یہ کون سی سیاست ہے؟ یہ کہاں کے سیاسی رہنما ہیں؟ 2018ء میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد یہ سبھی مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کی گرفتاریوں پر دھمالیں ڈالتے تھے اور درجنوں مائیک سجائے پریس کانفرنس کے دوران مخالفین کی گرفتاریوں کے لیے پیشگی اطلاع بھی دیا کرتے تھے۔ آج وقت کا پہیہ گھوما ہے تو اس کے اسباب پر غور کرنے کے بجائے خاک اور خون کی ہولی کھیلنے چل نکلے ہیں۔ تحریک انصاف کی 27سالہ ریاضت اور سیاسی جدوجہد کو چند گھنٹوں میں یہ کہاں پہنچا آئے ہیں۔
ایک طرف یہ منظرنامہ ہے اور دوسری طرف پاک فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ کو حقائق سے متصادم قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف نے ردِعمل جاری کیا ہے جس میں اس اعلامیہ کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے خلاف تراشے جانے والے بیانیے کا نہایت افسوسناک مجموعہ بھی کہا گیا ہے۔ اس کی مزید سطریں انتہائی دلچسپ‘ مضحکہ خیز اور زمینی حقائق سے کوسوں دور ہیں۔ تحریک انصاف سینٹرل سیکرٹریٹ سے جاری ہونے والے ردِعمل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اپنی ساخت‘ نظریے اور منشور کے اعتبار سے ایک جمہوری جماعت ہے جو مکمل طور پر پُرامن‘ غیر متشدد اور آئین و قانون پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے مقاصد کے حصول پر یقین رکھتی ہے۔ ملک بھر میں جلاؤ‘ گھیراؤ‘ پتھراؤ‘ لوٹ مار سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملوں اور کھلے عام فائرنگ پر نازاں اور مطمئن تحریک انصاف جاری کردہ بیان میں پرامن‘ غیر متشدد اور آئین و قانون کا علمبردار ہونے کا دعویٰ بھی کر رہی ہے۔ کوئی انہیں بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟
آئی جی پنجاب نے بھی دعویٰ کیا ہے کہ پی ٹی آئی کی خفیہ میٹنگز کی ساری پلاننگ بے نقاب ہو چکی ہے۔ پنجاب کے بڑے شہروں کا امن برباد کرنے کا منصوبہ ہو یا مخصوص مقامات کو جلانے اور توڑ پھوڑ کا‘ سبھی کے تانے بانے تحریک انصاف کے سرکردہ شخصیات سے جا ملے ہیں۔ انہوں نے والدین سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ اپنے بچوں کا مستقبل داؤ پر لگانے کے بجائے انہیں غیرقانونی اور ملک دشمن سرگرمیوں سے باز رکھیں۔ شر پسندوں کا آلہ کار بننے کی صورت میں وہ اس کریمنل ریکارڈ کا حصہ بن جائیں گے جس کے بعد نہ انہیں نوکری مل سکے گی اور نہ ہی وہ بیرونِ ممالک جا سکیں گے۔ ایسے میں والدین اپنے بچوں کو پاک فوج کے خلاف سازش اور دشمنی کا حصہ نہ بننے دیں؛ تاہم پاک فوج اور پولیس کو ایک کریڈٹ یہ ضرور جاتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف تحمل اور غیر معمولی‘ برداشت کا مظاہرہ کیا ہے بلکہ جوابی کارروائی نہ کرکے بہت بڑی خونریزی سے بھی بچایا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی گرفتاریاں جاری ہیں‘ ایسے میں پارٹی صدر پرویز الٰہی بھی یقینا مخمصے کا شکار ہوں گے کہ دنگا فساد ہو یا پاک فوج کے بارے ہرزہ سرائی اور حملے‘ یہ سبھی ان کا طرزِ سیاست ہے نہ روایت‘ گویا کتھے آپھسے آں...! دیکھتے ہیں کہ وہ اپنے چیئرمین کی گرفتاری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر کیا لائن لیتے ہیں؟ سرکاری املاک پر حملوں اور شہروں کا امن برباد کرنے والوں کی تائید کرتے ہیں یا ان کی پالیسیوں سے لاتعلقی کا اعلان کرتے ہیں۔
آخر میں پاک فوج کے صبر‘ تحمل‘ حوصلے اور برداشت کے مظاہرے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ انہوں نے اپنی املاک پر حملوں اور جوانوں پر پتھراؤ جیسے سنگین جرائم پر معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا۔ بصورتِ دیگر پاک فوج کو عوام سے لڑوانے کی سازش کامیاب ہو سکتی تھی۔ ہماری قوم اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہے کہ پاک فوج نہ صرف جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے بلکہ امورِ ریاست میں بھی توازن کی علامت ہے۔ اس تناظر میں کیونکر ممکن ہے کہ عوام پاک فوج کے بارے میں منفی رجحانات اور پروپیگنڈا کے آلہ کار بنتے۔ یہ سبھی شرپسند عوام کی نمائندگی ہرگز نہیں کرتے بلکہ ایک مخصوص ایجنڈے اور مائنڈ سیٹ کے لیے کام کر رہے ہیں؛ تاہم وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ اس بار چند بوکے نکالنے کے بجائے کنویں سے انہیں ہی نکال ڈالیں جو نجانے کب سے کنواں پراگندہ اور آلودہ کیے ہوئے ہیں۔ کالم لکھ چکا تو یہ خبر موصول ہوئی کہ سپریم کورٹ نے عمران خان کو طلب کرکے ان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ پیش ہونے کا حکم دے دیا ہے۔دورانِ سماعت چیف جسٹس صاحب نے یہ ریمارکس بھی دیے کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved