تحریر : ایاز امیر تاریخ اشاعت     13-05-2023

تاریخ رقم ہوتی جو ہم نے دیکھی

جو ہوا اُس کا تصور کرنا بھی مشکل تھا۔عوام کا غصہ اتنا ہوگا اور غیظ و غضب کا اظہار اس انداز سے ہوگا‘یہ ہم سوچ نہ سکتے تھے۔لیکن یہ سب کچھ ہوا اور دنیا حیران رہ گئی۔حرمت و تقدیس کا بھرم یوں ٹوٹا کہ سب دیکھتے رہ گئے۔اوریہ سب کچھ ردِعمل کے طور پر ہوا۔وہ جو گریبان سے عمران خان کو پکڑا وہ سب کے لیے مہنگا پڑا۔ہوش کے ناخن کوئی لیتا تو یہاں تک بات نہ پہنچتی لیکن اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک کمرے کے جس طرح پہلے شیشے توڑے گئے پھر عمران خان کو نکالاگیا جیسا کہ کسی مفتوح قیدی کو لے جایا جا رہا ہو‘ وہ لوگوں سے برداشت نہ ہوا‘ اورپھر جو ہوا اُس نے سارے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
یہ کہا جا رہا ہے کہ ملک کی تاریخ میں یہ ایک سیاہ باب ہے اور پچھترسالوں میں دشمن وہ نہ کرسکے جو دو دنوں میں شرپسندوں نے کر دیا۔کچھ پہلے سوچ لیتے کہ ہم کرنے کیا جا رہے ہیں اور اُس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں۔بات گرفتاری کی نہ تھی بلکہ بے جا بربریت کی تھی جس سے گرفتاری عمل میں لائی گئی۔جس طریقے سے عمران خان کو کھینچا جا رہا تھا وہ وِڈیو پورے ملک میں آگ کی طرح پھیل گئی۔میں نے دیکھی تو یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔جو اَب رو رہے ہیں کہ ملک کی تاریخ میں سیاہ باب لکھا گیا پہلے کچھ ہوش کرلیتے‘ لیکن یہی لگتا ہے کہ کہیں نہ کہیں ہوسِ انتقام اس نہج کو پہنچ چکی ہے کہ سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت یکسر ختم ہو گئی ہے۔ان سے کوئی پوچھے تو سہی کہ ملک تباہی کے کس دہانے پر کھڑا ہے لیکن فضول کی مہم جوئی کی ضد برقرار ہے۔یہ بھی کوئی پوچھے کہ جب کسی شخص کے دونوں بازوؤں کو پکڑا ہو اہے تو پیچھے سے گریبان پکڑنے کی کیا تُک بنتی ہے۔لیکن ارادہ شایدیہ تھا کہ عمران خان کو نہ صرف گرفتار کرنا ہے بلکہ سبق سکھانا ہے۔ لیکن سبق کس کو سکھایا گیا‘ وہ ہم دیکھ چکے۔ پاکستانی تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا ہے کہ زیادتی ہوئی تو عوام نے فوراً حساب چکا دیا۔ یہ بھی پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ اگلے بے بس رہے اور دانت پیسنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔
اعلیٰ عدلیہ کا شکریہ کہ جس کی بروقت مداخلت نے حالات کو سنبھالادیا۔سچ میں تو اُنہوں نے ملک کو انارکی سے بچایا کیونکہ جب مسئلہ اُن کے سامنے آیا تو خود اسلام آباد کی سری نگرہائی وے پر اور ملک کے مختلف حصوں میں عمران خان کی گرفتاری کے خلاف احتجاج جاری تھا اور پختونخوا میں تو خاص طور پر حالات بہت ہی خراب تھے۔ لیکن جب چیف جسٹس صاحب نے حکم دیا کہ عمران خان کو فوری طور پیش کیا جائے تو امید کی ایک کرن پھوٹی اور جب عمران خان سپریم کورٹ میں پہنچ گئے اور ان کی گرفتاری غیرقانونی اور کالعدم قرار دے دی گئی تو یوں لگا جیسے پورے ملک کا درجہ حرارت نیچے آنے لگا ہے۔عمران خان عدالت میں آئے تو چیف جسٹس بندیال نے بے اختیار کہا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی۔پی ڈی ایم کے حکومتی حلقے اس بات پر پاگل ہو رہے ہیں کہ چیف جسٹس نے ایسا کیوں کہا۔تین دن سے ملک میں افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ پتا نہیں عمران خان کو کہاں رکھا گیا ہے اور حراست میں پتہ نہیں اُن کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔اسی وجہ سے احتجاج اور غصے کی آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔جب عمران خان کو صحیح سلامت دیکھا گیا توچیف جسٹس صاحب کا اظہار ِاطمینان ایک قدرتی ردِعمل تھا۔دورانِ سماعت چیف جسٹس صاحب نے یہ بھی کہا کہ ہم ملکی حالات کو نارمل ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔اور اُن کے رویے اور فیصلے سے حالات بہتر ہو بھی گئے‘ لیکن پی ڈی ایم کے حواس باختہ لوگوں کو یہ سب باتیں کون سمجھائے۔اصل میں تو اُنہیں عمران خان کی عوامی مقبولیت ہضم نہیں ہو رہی۔ اُن کے لیڈر جب اندر جاتے تھے تو عوامی ردِعمل کیا ہوتا تھا ؟ عمران خان پر ہاتھ ڈالا گیا تو یوں لگا جیسے پورے ملک میں آگ لگ گئی ہے۔پی ڈی ایم والوں کو تو چھوڑیے‘ ہمارے کرتے دھرتوں کو بھی یہ بات برداشت نہیں ہو رہی۔ان کے غصے کی اصل وجہ یہ ہے۔
فسادات کی خبریں وائرل ہو رہی تھیں لیکن حکومت نے کیا کرنا تھا‘ انٹرنیٹ بند کر دیا۔اس کے باوجود یوں لگتا تھا پوری قوم ہیجان کی کیفیت میں گرفتار ہو چکی ہے۔یہ کوئی مبالغہ نہیں‘ صحیح معنوں میں ملک ہل کے رہ گیا تھا۔جب صداقت کے رکھوالے خود یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ پچھتر سالوں میں یہ نہیں ہوا جو اَب ہوا ہے تو کہنے کو پھر کیا رہ جاتا ہے۔یہ احساس تو ہو گیا ہوگا کہ عوام کیا رائے رکھتے ہیں‘ عوام کے احساس و جذبات کیا ہیں‘ لیکن ہٹ دھرمی ملاحظہ ہوکہ ایک نالائق حکومت جو عوامی تائید سے یکسر محروم ہے‘ کو تھاما ہوا ہے۔اس حکومت سے کچھ نہیں ہو رہا‘ ہرروز ایک نیا بحران سر اٹھا رہا ہے لیکن اقتدار کے اونچے ایوانوں میں بس ایک ہی سوچ کار فرما ہے کہ جو کچھ ہو جائے عمران خان کو آگے نہیں آنے دینا۔عمران خان پر تو درجنوں مقدمات قائم ہو سکتے ہیں لیکن عوام کا کیا کریں گے؟عوام جو آپ کی بات سننے کو تیار نہیں‘ اس کا کیا علاج ہے؟ ہماری گناہگار آنکھوں نے بہت کچھ دیکھا ہے لیکن یہ نہیں دیکھا جو اِن دو تین دنوں میں ہوا ہے۔اس سے کچھ تو ہوش پکڑیے‘ کچھ تو سمجھئے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔
پاکستان میں کہا جاتا تھا کہ ہمارے ادارے قوم کی آخری دفاعی لائن ہیں‘ یعنی اداروں کا ایک بھرم قائم تھا لیکن ہم نے دیکھ لیا کہ پچھلے دو دنوں میں حالات کس قسم کے ہو گئے۔عاقبت نا اندیشی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے لیکن یہاں تمام حدیں پار ہوگئی ہیں اور قوم کو محدود عقل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔تمام حربے استعمال ہو چکے ہیں پر کیوں نہیں سمجھا جا رہا کہ عوامی امنگیں نہیں دب رہیں۔حکومت اور عوام میں فاصلے بہت بڑھ چکے ہیں اور پاکستان کے لیے یہ خطرناک صورتِ حال ہے۔ ایسے میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال اور اُن کے دو ساتھی ججز حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مداخلت نہ کرتے تو حالات پتا نہیں کہاں پہنچ جاتے۔ سپریم کورٹ کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے بھی ایک بہت احسن فیصلہ کیا ہے اورتمام مقدمات میں عمران خان کو دو ہفتوں کے لیے ضمانت مل گئی ہے۔جہاں ہر طرف بربادی ہے کسی ایک ادارے نے تو ملکی مفاد سامنے رکھا ہے۔
سوچئے تو سہی کہ اگر چیف جسٹس صاحب عمران خان کو طلب نہ کرتے تو کیا ہوتا ؟فسادات اور جھڑپیں کم نہ ہوتیں بلکہ اندیشہ تھا کہ اُن کی شدت بڑھ جاتی۔ حکومتی حلقوں کی عقل تو دیکھئے کہ اپنے ردِعمل میں خانہ جنگی کی بات کرتے ہیں۔خانہ جنگی کا کہیں ذکر بھی آنا چاہئے؟لیکن کیا کہیں موجودہ حالات کے بارے میں کہ جیسے عرض کیا انتقام کی آگ میں جھلس رہے ہیں‘ عقلیں جو ہیں‘ جیسی بھی ہیں‘ اُن پر پردے ڈلے ہوئے ہیں۔آئے روز ایک نئی بے تُکی بات کی جاتی ہے اورحالات مزید بگڑ جاتے ہیں۔
لیکن اس ساری صورتِ حال میں امید کا ایک پہلو یہ تو ہے کہ عوام جاگ اٹھے ہیں‘ اُن کی رگوں میں ایک نئی بیداری کی لہر دوڑنے لگی ہے۔ہمارے حکمران طبقات مردہ اور فرسودہ ذہنوں کے مالک ہیں‘ عوام کے سینوں میں ایک نیا جذبہ پیدا ہو چکا ہے۔کیا یہ کوئی چھوٹی بات ہے؟

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved