تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     13-05-2023

کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

حالاتِ حاضرہ پر کالم لکھنا آسان نہیں‘ دشوار کام ہے۔ دشوار اس لحاظ سے کہ پل پل حالات بدلتے ہیں اور بالخصوص پاکستان میں تو پلک جھپکنے میں سارا منظر نامہ بدل جاتا ہے۔ شبِ رفتہ کے تخت نشیں اگلی صبح کو یوسفِ بے کارواں ہو کر سڑکوں پر ہوتے ہیں۔ ہمیں بھی جمعۃ المبارک کے روز اپنے کالم کو تازہ ترین حالات کی روشنی میں بدلنا پڑا۔میں ہفتے کے روز کیلئے کالم لکھ چکا تھا۔ میں نے لکھا کہ عمران خان کی گرفتاری بجا سہی مگر جس انداز سے انہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے کورٹ میں حاضری سے پیشتر چھاپہ مار انداز سے گرفتار کیا گیا‘ وہ بالکل نامناسب تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل چیف جسٹس نے اس انداز پر شدید ناراضی و برہمی کا اظہار تو کیا مگر بالآخر انہوں نے گرفتاری کو قانونی قرار دے دیا۔ البتہ جمعرات کی شام چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے عمران خان کی گرفتاری کو خلافِ قانون قرار دے دیا اور انہیں فی الفور رہا کرنے کا حکم صادر فرمایا۔
اگرچہ یہ رہائی بھی دلچسپ ہے کہ عمران خان کو گھر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں پولیس لائنز گیسٹ ہاؤس میں رات گزارنے اور جمعہ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے عمران خان کو جو ریلیف دیا ہے‘ اس پر پی ٹی آئی کے لوگ تو بہت خوش تھے مگر کچھ وزیروں نے میڈیا پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد بلوچ نے کہا کہ اشرافیہ کیلئے تو ریلیف ہے مگر گوادر کے ہر دلعزیز اور محبوب عوامی رہنما مولانا ہدایت الرحمن‘ جنہیں اسی طرح احاطۂ عدالت سے جرمِ بے گناہی میں گرفتار کیا گیا تھا‘ وہ کئی ماہ سے جیل میں ہیں اور کہیں شنوائی نہیں ہو رہی۔ عمران خان کو تو لمحوں میں رہائی مل گئی اور مولانا کی اسیری طویل تر ہوتی جا رہی ہے۔خان صاحب کی اسیری اوررہائی کی آنکھ مچولی اب یونہی چلتی رہے گی۔ سپریم کورٹ کے بعد جمعۃ المبارک کے روز القادر ٹرسٹ کیس میں بھی انہیں دو ہفتے کی ضمانت مل گئی۔
سیاست دانوں کی گرفتاری کوئی انوکھی بات نہیں۔ پاکستان میں تو اسیری ایک سیاستدان کیلئے باعثِ عزت و شہرت سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ سید ابوالاعلیٰ مودودی‘ مفتی محمود‘ ولی خان‘ عبدالصمد اچکزئی‘ ذوالفقار علی بھٹو اور نوابزادہ نصراللہ خان جیسی شخصیات کو جب وارنٹ دکھائے گئے تو وہ باوقار طریقے سے سُوئے قفس چل پڑے۔ ماضی قریب میں جب عمران حکومت کے دور میں مخالف سیاسی جماعتوں بالخصوص مسلم لیگ (ن) کے قائدین و کارکنان کو گرفتار کیا گیا تو انہوں نے بھی کوئی مزاحمت نہ کی‘ مگر عمران خان نے دباؤ ڈالنے کیلئے اپنے جذباتی کارکنوں کو استعمال کیا اور بعض افسران کے بارے میں نہایت جارحانہ زبان استعمال کی۔ جب اسلام آباد پولیس انہیں زمان پارک لاہور سے گرفتار کرنے آئی تو اُن کے کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا‘ کئی افسران اور سپاہی شدید زخمی ہو گئے اور کئی سرکاری و پرائیویٹ گاڑیوں کو جلا دیا گیا۔ کارکنوں کے اس مزاحمتی رویے پر پی ٹی آئی قائدین نے ان کی سرزنش کرنے کے بجائے انہیں داد دی۔منگل کے روز عمران خان کی گرفتاری کے ردِعمل میں تحریک انصاف کے کارکنوں نے جس طرح سے لاہور کے المعروف جناح ہاؤس پر حملہ کرکے ہر شے چکنا چور کر دی‘ اس پر تجزیہ کاروں کا ابتدائی تاثر یہ تھا کہ یہ سب کچھ ورکرز شدتِ جذبات اور وقتی اشتعال میں از خود کر رہے تھے مگر بعد ازاں جب کئی آڈیو لیکس سامنے آئیں تو وہ ایک الگ ہی کہانی سنا رہی تھیں۔ایک آڈیو لیک کے مطابق گوجرانوالہ میں ٹائیگر فورس کے ایک عہدیدار کہہ رہے ہیں کہ آگ لگاؤ‘ کلاشنکوف نکالو‘ جو بھی ہو ٹوٹ پڑو۔ اہم عمارتوں اور وزرا کے گھروں کو بند کرو۔ ایک آڈیو میں مبینہ طور پر ڈاکٹر یاسمین راشد کارکنوں کو کہہ رہی ہیں کہ کور کمانڈر ہاؤس چلیں۔اس طرح تحریک انصاف کے لیڈر سینیٹر اعجاز چودھری مبینہ طور پر اپنے بیٹے کو یہ کہتے ہوئے سنائی دیے کہ ہم نے کمانڈر ہاؤس کی ہر شے کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ کوئی گملا تک نہیں چھوڑا۔اسی طرح کی ایک آڈیو میں پی ٹی آئی کے خواجہ طارق رحیم کو پارٹی کارکنان اسلام آباد کے ایک ریاستی ادارے پر حملہ آور ہونے کی خوشخبری سنا رہے ہیں۔ دل نہیں مانتا کہ تحریک انصاف نے اعلیٰ سطح پر مشاورت کے ساتھ مخالف سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کو طاقت سے زیر کرنے کا منصوبہ بنایا ہوگا۔
ہمارا حسنِ ظن یہ ہے کہ اگر کوئی ایسا منصوبہ تھا بھی تو وہ ڈاکٹر عارف علوی‘ پرویز خٹک‘ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر جیسے سیاسی اپروچ رکھنے والے لوگوں کی آنکھ سے اوجھل ہوگا کیونکہ یہ تو سیدھا سیدھا خانہ جنگی کا منصوبہ ہے۔ کوئی سیاسی جماعت ایسا سوچ بھی نہیں سکتی۔ میرا گمان یہ تھا کہ تحریک انصاف مختلف شہروں میں اپنے مرکزی قائدین کی قیادت میں طویل جلوس نکالے گی۔ اس سے ایک تو اپنی مقبولیت ثابت کرے گی اور دوسرے اپنے کارکنوں کو قانون ہاتھ میں لینے سے روکے گی مگر یہاں تو معاملہ الٹ تھا۔ جلاؤ گھیراؤ اور سرکاری گاڑیاں نذر آتش کی گئیں۔ 10کے قریب افراد جاں بحق ہوگئے۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت کو نذرِ آتش کیا گیا۔ 2014ء میں بھی عمران خان کے کارکنان نے پی ٹی وی اسلام آباد اور پارلیمنٹ کی عمارت پر حملہ کیا تھا۔ اُس وقت اگر انہیں اسلام آباد کے ریڈ زون میں فری ہینڈ نہ دیا جاتا تو آج ہمیں یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔
عمران خان کیلئے ریاستی اداروں کی طرف سے میسج لاؤڈ بھی ہے اور کلیئر بھی۔ بدھ کے روز آئی ایس پی آر کے ایک بیان میں وارننگ دی گئی ہے کہ اب تک تحمل سے کام لیتے آئے ہیں مگر اب شدید ردِعمل آئے گا۔ کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا گیا کہ 9 مئی ہماری تاریخ کا سیاہ باب تھا‘ اس روز عسکری املاک پر منظم حملے کیے گئے اور مخالفانہ نعرے لگائے گئے۔ بیان میں یہاں تک کہا گیا کہ جو کام دشمن 75برس میں نہ کر سکا وہ سیاسی لبادہ اوڑھے گروہ نے کر دکھایا۔ اس بیان کی سطور میں اور بین السطور بڑا واضح پیغام دیا گیا ہے۔اب تحریک انصاف کی قیادت کا بڑا امتحان ہے۔ پی ٹی آئی کارکنان کے جلاؤ گھیراؤ پر حکومتی و ریاستی ردِعمل بڑا شدید ہے۔ اب عمران خان کو بہت سوچ سمجھ کر بولنا اور خوب غور و خوض کرکے قدم اٹھانا ہوگا۔ خان صاحب کیلئے اب پہلی سی عنایات صد مدارات نہیں۔ خان صاحب کبھی زیرلب اور کبھی بلند آہنگ بہ کلامِ اقبال یہ شکوہ کرتے سنائی دیتے ہیں۔
اب وہ الطاف نہیں‘ ہم پہ عنایات نہیں
بات یہ کیا ہے کہ پہلی سی مدارات نہیں
اس سوال کا جواب کسی اور کے پاس نہیں‘ خود خان صاحب کے اپنے پاس ہے۔ ممکن ہے ڈیڑھ دو روزہ کنجِ قفس میں انہوں نے اس سوال کے جواب کے بارے میں بھی سوچا ہو۔ ہم گزشتہ ڈیڑھ دو برس سے اپنی بساط اور اوقات کے مطابق آواز بلند کرتے رہے ہیں کہ خدا کے بندو اناؤں کے تصادم کو روکو اور گفت و شنید سے کام لو۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب حکومت اور تحریک انصاف کے مابین مذاکرات کا مستقبل کیا ہو گا؟ حکومت اور تحریک انصاف کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہماری معیشت سیاسی انتشار کی بنا پر بڑی خراب و خستہ حالت میں ہے۔ ڈالر 300 روپے تک پہنچ چکا۔ اس بات پر بھی غور و فکر کیا جانا چاہیے کہ سیاسی اختلاف زندگی اور موت یا کفر و اسلام کا جھگڑا نہیں ہوتا۔ یہ تو آنے والے دن ہی بتائیں گے کہ خان صاحب اپنے رویے میں کیا تبدیلی لاتے ہیں اور کتنی لچک پیدا کرتے ہیں۔ بہرحال آئندہ چند ماہ تک خان صاحب کی جیل آمد و رفت جاری رہے گی۔ عمران خان کی سیاست و حکومت پر جگر مراد آبادی کا مکمل شعر صادق آتا ہے۔ ذرا غور فرمائیے ؎
اس نے اپنا بنا کے چھوڑ دیا
کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved