آج تک کسی نے بھی مسلم لیگ (ن)سے کسی بھی فورم پر یہ سوال پوچھنے کی جسارت نہیں کی کہ2013ء میں برسر اقتدار آنے کے بعد آپ نے ملک کیلئے لیے گئے قرضوں پر شرحِ سود جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک سے زیادہ کیوں اور کس کے کہنے پر منظور کی؟ پاکستان پہلے سے جو سودبیرونی قرضوں پر ادا کرتا چلا آ رہا تھا‘ اسے بڑھا کر کس کی خدمت کی گئی؟شرحِ سود میں اضافے کی وجہ سے پی ٹی آئی کو حکومت میں آنے کے بعد جمع شدہ ٹیکسوں کا بہت بڑا حصہ سود کی ادائیگی پر خرچ کرنا پڑ ا تھا۔ (ن) لیگی رہنما اپنے گزشتہ دورِ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں کے باوجود یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ عمران خان نے حکومت میں آنے کے بعد آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں کیااور امریکہ سے اپنے تعلقات کیوں خراب کیے۔ ایک طرف وہ خان صاحب کے امریکہ سے تعلقات کی خرابی کی بات کرتے ہیں لیکن دوسری طرف ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کا امریکی سازش کا بیانیہ جھوٹا تھا۔ بہر حال اس سے یہ تو واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ عمران خان سے ناراض تھا اور اس ناراضی کی وجہ یہ تھی کہ خان صاحب نے امریکہ کو زیادہ اہمیت دینے اور اس کی ہر بات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ موجودہ معاشی بدحالی کی ذمہ داری عمران خان پرڈالنے والوں سے قوم یہ جاننے کی کوشش بھی ضرور کرے کہ جون 2009ء سے مارچ 2019ء تک 37 ارب 21 کروڑ ڈالر قرض پر اصل رقم کے ساتھ 13 ارب 45 کروڑ ڈالر سودکیوں ادا کیا گیا؟اس کا بنیادی سبب ملک میں شرحِ سود میں ہوشربا اضافہ تھا۔ گوکہ اب پی ڈی ایم اتحاد ملک میں برسرِ اقتدار ہے لیکن ملک کے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کا تعلق (ن) لیگ سے ہے اور انہی کی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں شرحِ سود تاریخی بلندی کو چھو چکی ہے۔ سٹیٹ بینک نے اپریل میں نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے شرحِ سود کو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 21 فیصد پر پہنچا دیا تھا۔ اس سے قبل اکتوبر 1996ء میں ملک میں بلند ترین شرحِ سود ریکارڈ ہوئی جو 20 فیصد تھی۔ جنوری 2022ء سے اب تک مرکزی بینک مہنگائی پر قابو پانے کیلئے شرح سود میں 1150 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر چکا ہے جبکہ اس حکومت کے 13 ماہ کے قلیل عرصے کے دوران شرح سود میں 875 بیسس پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے منصب سنبھالنے کے بعد سے اب تک 13 ماہ کے قلیل عرصے کے دوران سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں 6 مرتبہ اضافہ کیا جا چکا ہے۔ ملک میں بلند ترین شرح سود کے باوجود اب عالمی مالیاتی ادارے نے پالیسی ریٹ مزید بڑھانے کا مطالبہ کردیا ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان نوویں اقتصادی جائزے کی تکمیل 3 نومبر 2022ء سے تعطل کا شکار ہے جس کے مکمل ہونے پر پاکستان کو عالمی مالیاتی ادارے کی جانب سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط جاری ہوگی؛ تاہم اس مختصر عرصے کے دوران سٹیٹ بینک شرحِ سود میں 500 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کر چکا ہے جس سے ملک میں کاروباری سرگرمیاں شدید متاثر ہوئی ہیں۔
ملکی معیشت کی زبوں حالی کی اصل وجہ یہی ہے کہ اسے ہمیشہ قرضوں پر چلانے کی کوشش کی گئی۔ اسی حکومتی پالیسی کی وجہ سے آج تک ملکی معیشت کو مستحکم بنیادیں فراہم نہیں کی جا سکیں۔ سٹیٹ بینک کے اعدادو شمار کے مطابق مالی سال 2007-08ء سے مالی سال 2017-18ء تک پیپلز پارٹی اور (ن)لیگ کے دورِ حکومت میں ملک کے مجموعی قرضوں میں 49 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ ان49 ارب ڈالر میں سے پی پی پی کے دورِ حکومت میں14.7 ارب ڈالر جبکہ نواز شریف کے دورِ حکومت میں34.3 ارب ڈالر قرضہ لیا گیا۔اس وقت قرض لینے کی کیا وجوہات تھیں یا کون سی مجبوریاں یا ضروریات تھیں جنہیں پورا کرنا تھا‘ یہ تو ایک الگ بحث ہے؛ تاہم اس بات کا جائزہ ضرور لیا جا نا چاہیے کہ حکومتی قرضوں پر سود کی شرح عالمی قیمتوں سے مطابقت رکھتی تھی یا نہیں؟اور یہ کہ ان حکومتوں نے جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں زیادہ شرحِ سود پر کیوں قرض لیا؟ اب بھی ملک میں سکڑتی ہوئی معاشی سرگرمیوں میں بلند ترین شرحِ سود ایک اہم وجہ ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے لوگوں کی آمدن براہِ راست متاثر ہو رہی ہے اور ان کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا مشکل ہو چکا ہے۔تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتیں اوران کے حامی ہمہ وقت پاکستانی عوام کو اس امر کا یقین دلانے میں لگے ہوئے ہیں کہ ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے اصل ذمہ دار عمران خان ہیں‘ اسی لیے انہیں جلد از جلد اگھر بھیجا گیا تاکہ ملک مزید معاشی تباہی کا شکار نہ ہو سکے۔
اب حکومت میں ایک سال سے زائد عرصہ گزارنے کے بعد حکومتی وزیر‘ مشیر اور ان کے تمام چھوٹے بڑے ترجمان یہ خوشخبریاں سناتے نظر آتے ہیں کہ اچھے دن پھر سے لوٹ کر آنے والے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف کا نواں جائزہ تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے دوست ممالک بھی ہماری مدد سے ہاتھ کھینچ چکے ہیں جس کی وجہ سے ملکی زرِ مبادلہ کی حالت کافی غیر تسلی بخش ہو چکی ہے جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اس صورتحال کا کوئی قابلِ عمل حل تلاش کرنے کے بجائے یہ فرما رہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے معاہدہ کرنا ہے تو کرے‘ نہیں چاہتا تو نہ کرے۔حکومت کے اسی غیر سنجیدہ رویے نے ایک عام پاکستانی کے لیے ایک وقت کی با عزت روٹی بھی مشکل بنا دی ہے۔ ناقص حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے روز افزوں مہنگائی نے دالیں اور سبزیاں بھی عوام کی پہنچ سے باہر کردی ہیں۔
ملکی معیشت کی اصل حالت جاننی ہے توحکومتی وزرا و مشیران یا پارٹی لیڈران کے بیانات اور دعووں پر انحصار کرنے کے بجائے ایسے غیر جانبدار ذرائع سے رجوع کریں جن کا حکومت سے دور کا بھی کوئی تعلق نہ ہو۔ ساری حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی۔اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان واقعی معاشی بدحالی کا شکار ہو چکا ہے ؟ کیا پاکستان کی معاشی صورتحال اس قدر ابتر ہو چکی ہے کہ ملکی خزانہ خالی ہونے کے قریب ہے ؟ سیا سی تباہی ملکی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دیتی ہے۔عمران خان کی گرفتاری سے ڈالر کی قیمت میں اضافے کا جو سلسلہ شروع ہواوہ عمران خان کی رہائی سے نہ صرف تھم گیا بلکہ ڈالر چودہ روپے نیچے بھی گیا۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی داغ بیل ڈال کرمعاشی استحکام کی بات کرنا کہاں کی سمجھداری ہے؟پی ڈی ایم اور نواز لیگ کی کوئی بھی کارنر میٹنگ‘ بیانات یا پریس کانفرنس دیکھیں تو وہ ملکی معیشت کی تباہی کا ذمہ دار عمران خان کو ہی ٹھہراتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ عمران خان کی حکومت میں روزگار اور صنعتی ترقی اپنے عروج پر تھی۔ جی ٹی روڈ کے چاروں جانب اور پھر سیالکوٹ‘ حیدر آباد‘ کراچی اور فیصل آباد کی ایک ایک گلی سے چوبیس گھنٹے چمنیوں سے دھواں نکلتا تھا۔وہ پاور لومز جو برسوں سے بند تھیں‘ بھر پور کام کر نے لگی تھیں۔ بجلی کے نرخوں میں حیران کن حد تک کمی صنعتی پہیے کو تیز تر کررہی تھی۔کیا اس قسم کی صنعتی رعایت اور سہولت کسی اور حکومت نے مہیا کرنے کا سوچا تھا؟ موجودہ حکومت کاروباری طبقے کو یہ سہولتیں بہم پہنچانے کے بجائے تحریک انصاف پر الزام تراشی کے ذریعے سستا چھوٹنے کی خواہاں ہے لیکن ملک کے نوجوانوں میں بد دلی پھیلانے والوں کے مقدر میں اب ناکامی لکھی جا چکی ہے۔
یہاں برسرِ اقتدار آنے والی ہرحکومت پچھلی حکومتوں کو معیشت کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے لیکن کسی بھی حکومت نے اپنی پالیسیوں اور طرزِ عمل کو سدھارتے ہوئے معاشی بہتر لانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ اتحادی حکومت کو چاہیے کہ الزام تراشی کی پالیسی ترک کرے اور ملکی معیشت میں سدھار لانے کی طرف متوجہ ہو۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved