''تَفَقُّہ فِی الدِّیْن‘‘ سے مراد دین کی بابت ایسی بصیرت، تحقیق و تدقیق، فہم و دانش، فراست اور گہرائی و گیرائی ہے کہ صاحبِ علم اپنی تمام تر عقلی، فکری اور علمی صلاحیتوں کو استعمال کر کے قرآن و سنّت سے احکام کا استنباط کرے اور ہر دور کے نِت نئے پیش آمدہ مسائل کا حل تلاش کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سارے کے سارے اہلِ ایمان (ایک ساتھ) نکل کھڑے ہوں، توایسا کیوں نہیں ہو جاتا کہ اُن میں سے ہر ایک گروہ (یا قبیلے) سے ایک جماعت نکلے تاکہ وہ دین میں کامل فہم و بصیرت (تفقُّہ) حاصل کریں اور جب وہ اپنی قوم میں واپس جائیں تو وہ انہیں (اللہ کے عذاب سے) ڈرائیں شایدکہ وہ (گناہوں سے) بچیں‘‘ (التوبہ: 122)۔ حاملِ فقہ کو ''فقیہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو اپنے آپ کو کل وقتی دین کے لیے وقف کر کے پورے معاشرے کا فرضِ کفایہ ادا کرتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ لوگ ہیں۔ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے: ''اللہ تعالیٰ جس شخص کے بارے میں خیر کا ارادہ فرماتا ہے اُسے دین کی کامل فہم عطا فرماتا ہے‘‘ (بخاری: 71)۔ ایک موقع پر آپﷺ نے صحابۂ کرام سے فرمایا: ''لوگ تمہاری پیروی کریں گے، وہ تمہارے پاس اطرافِ عالَم سے دین کے بارے میں جاننے کے لیے آئیں گے، پس جب وہ تمہارے پاس آئیں تو خیر کی طرف اُن کی رہنمائی کرنا‘‘ (ترمذی: 2650)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ نے اپنا دستِ مبارک میرے شانے پر رکھا اور فرمایا: اے اللہ! اسے دین کی کامل سمجھ عطا فرما اور اسے تاویل کا علم عطا فرما‘‘ (مسند احمد: 2397)۔ تاویل کے معنی ہیں: '' قرآنِ کریم کا کوئی کلمہ جو ایک سے زائد معانی کا احتمال رکھتا ہے، سیاق و سباق کو سامنے رکھتے ہوئے ترجیحی دلائل کی روشنی میں اُسے کسی ایک معنی پر محمول کرنا‘‘۔ الغرض قرآن وحدیث میں فِقْہ وتَفَقُّہْ کے الفاظ استعمال ہوئے، یعنی مطلق علم ہدایت کے لیے کافی نہیں ہے، بلکہ اس سے علم میں ایسا رسوخ اور تصلُّب مراد ہے کہ انسان کو اپنے خیر و شر سے آگہی حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ''بھلا یہ تو بتائو کہ جس شخص نے اپنی نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا لیا، اللہ نے اُسے علم کے باوجود گمراہی میں چھوڑ دیا، اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا (کیا وہ ہدایت پائے گا؟)، پس اللہ کے (گمراہی میں چھوڑ دینے کے) بعد اُسے کون ہدایت دے گا، کیا تم نصیحت حاصل نہیں کرتے‘‘ (الجاثیہ: 23)، اسی لیے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''اے اللہ! میں ایسے علم سے تیری پناہ میں آتا ہوں جو نفع رساں نہ ہو‘‘ (صحیح مسلم: 2722)۔
اس کی مزید وضاحت آپﷺ کے اس فرمان سے ہوتی ہے: ''اللہ تعالیٰ اس شخص کو تر و تازہ رکھے جس نے ہم سے (دین کی) کوئی بات سنی، پھر اُسے یاد رکھا حتیٰ کہ اُسے دوسرے تک پہنچایا، کیونکہ بہت سے حاملِ فقہ (یعنی احادیث کو جاننے والے) فقیہ نہیں ہوتے، لیکن وہ انہیں ایسے شخص تک پہنچا دیتے ہیں جو اُس سے بڑا فقیہ ہوتا ہے‘‘ (ترمذی: 2656)، یعنی وہ دین کی ایسی فہم و بصیرت رکھتا ہے کہ اُن احادیث مبارکہ سے مسائل کا استنباط کر سکتا ہے۔ اس حدیثِ پاک میں حاملِ فقہ سے وہ شخص مراد ہے جو نبی کریمﷺ کے فرامین کو سنے، اُنہیں یاد رکھے اور پھر دوسروں تک پہنچائے اور فقیہ سے مراد وہ شخص ہے جو نبی کریمﷺ کے اُس فرمان کے سیاق و سباق، اُس کی علّت و حکمت اور اُس کے مقصد و منشا پر غور کر کے اس سے مسائل کا استنباط کرے؛ پس تفقہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ہر کس و ناکس اگر تفقہ کا حامل ہوتا تو رسول اللہﷺ یہ کیسے ارشاد فرماتے کہ بعض حاملِ فقہ (حدیث) غیر فقیہ ہو تے ہیں۔ اِسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر فقیہ محدث ضرور ہوتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ ہر محدث فقیہ بھی ہو۔ غیر فقیہ محدث الفاظ شناسِ رسول جبکہ فقیہ مزاج شناسِ رسول ہوتا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں: ''فقہائے کرام ہی حدیث کے معانی کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں‘‘ (ترمذی، ج: 3، ص: 306)۔
ایک مرتبہ کسی محفل میں محدثِ جلیل امام سلیمان بن مہران اعمشؒ سے کچھ مسائل پوچھے گئے، وہاں محدث و فقیہ امام اعظم ابوحنیفہؒ بھی موجود تھے، اُنہوں نے فرمایا: ان مسائل کے حل کے لیے ان سے رجوع کرو، امام صاحب نے تمام مسائل کے جوابات عنایت فرما دیے، امام اعمش نے پوچھا: یہ مسائل آپ نے کہاں سے بتائے؟ آپ نے امام اعمش کو بتایا: یہ مسائل میں نے اُن احادیث سے اخذ کیے جو آپ نے روایت کی ہیں، اس استنباط و فقاہت پر امام اعمش حیران و ششدر رہ گئے اور امام ابوحنیفہ کی تحسین کرتے ہوئے یہ تاریخی کلمات ارشاد فرمائے: اے گروہِ فقہاء! آپ طبیب ہیں اور ہم (گروہِ محدثین) عطار ہیں‘‘ (جَامعُ بَیانِ العِلمِ وَ فضلِہ: 1195)، یعنی ہم محدثین کی مثال پنساری کی سی ہے جس کے پاس مختلف قسم کے مفردات (جڑی بوٹیاں وغیرہ) ہوتی ہیں، مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ کسی مرض کے علاج کے لیے کن مفردات سے کون سی مرکب دوا تیار کی جائے، اُس کی خوراک کی مقدار کیا ہو، پرہیز کیا ہو گا، ان باتوں کو حکیم اور طبیب ہی جانتا ہے۔ اِسی طرح محدثین کے حافظے میں احادیث کا بیش بہا خزانہ ہوتا ہے، مگر وہ ان سے شریعت کے احکام و مسائل کے استنباط کا ملکہ نہیں رکھتے، یہ اجتہاد و استنباط فقہاء کا خاصّہ ہے: ان کی مثال طبیب و حکیم کی سی ہے، وہ احادیث کے معانی کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ الغرض فکر و تدبرکی گہرائی کے ساتھ دین کی فہم و بصیرت اور ادراک کا نام فقہ ہے اور شریعت سے وابستہ اُمور کی گہرائی میں اُترنا اور پیش آمدہ مسائل کی پیچیدہ گتھی کو سلجھانا فقہی بصیرت کا خاصّہ ہے، اِس کی اساس وحیِ الٰہی ہے، دین ودنیا کی فلاح اور اخروی نجات اس کا مُدّعا و مقصود ہے۔
فقہِ اسلامی قرآن و سنّت کا ثمر، تعاملِ اُمت کا جوہر اور ائمہ مجتہدین کی فکری کاوشوں کا سرمایہ ہے اور ابدی و آفاقی دین کا ایک بنیادی رکن اور جز ہونے کے ناتے ہر لحاظ سے جامع و کامل اور ہمہ گیر ضابطہ حیات ہے جو انفرادی و اجتماعی زندگی کے تمام شعبوں اور دنیا و آخرت کی فلاح کی ضامن ہے، وہ اسلام کی تشریعی فکر کا خزانہ اور اس کی آفاقی تہذیب کا سرچشمہ ہے۔ عہدِ صحابہ و تابعین میں فقہ کا اطلاق ہر قسم کے دینی احکام کے فہم پر بولا جاتا تھا، ان میں عقائد، عبادات، اخلاقیات، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہِ اسلامی کے سب سے پہلے مُدَوِّن امام اعظم ابوحنیفہ نے فقہ کی تعریف یہ فرمائی: ''نفسِ انسانی کے لیے مفید اور خیر پر مبنی اُمور کا شعور اور ضرر رساں اُمور کے فہم و ادراک کاحاصل ہونا فقہ ہے‘‘۔ ایک عرصے تک فقہ کا یہی مفہوم برقرار رہا، لیکن اسلامی علوم میں توسیع کے ساتھ ساتھ فقہ اُن مسائل و معاملات تک محدود ہو گیا جو انسان کو زندگی میں عملاً پیش آتے ہیں، اس کے نتیجے میں عقائد و اخلاقیات فقہ کے دائرہ کار سے خارج ہو گئے، عقائد کے لیے علم الکلام اور علم العقائد کے عنوان سے ایک الگ شعبہ قائم ہوا، وجدانی اُمور اور تزکیۂ باطن تصوف اور علم الاخلاق کا حصہ بن گئے، یہ تمام اُمور شریعت کے دائرے میں آتے ہیں، پھر فقہ کا یہ اصطلاحی مفہوم قرار پایا: ''احکام عملیہ شرعیہ کو تفصیلی دلائل کے ساتھ جاننے کا نام فقہ ہے‘‘، مثلاً: اگر یہ بیان کیا جائے کہ اسلام نے نماز اور روزے کو فرض قرار دیا ہے یا سود اور زنا کو حرام قرار دیا ہے تو اس حکم کے ساتھ قرآن و سنت میں مذکور نماز و روزے کی فرضیت اور زنا و سودکی حرمت کے دلائل بھی ذکر کیے جائیں، گویا علم فقہ کا موضوع انسانی اعمال و افعال میں سے ہر فعل کا شرعی حکم دلیل کے ساتھ اس طرح معلوم کرنا ہے کہ یہ فعل و عمل جائزہے یا ناجائز، حلال ہے یا حرام، مستحب ہے یا مکروہ، وغیرہ۔
علامہ ابن نجیم و دیگر فقہائے کرام نے اِن عملی شعبوں کو جن سے فقہی مسائل کا تعلق ہے کلی طور پر تین حصوں میں اور پھر ذیلی ابواب میں تقسیم کیا ہے: (1) عبادات: یعنی جن اعمال پر اللہ اور بندے کے باہمی تعلق کی بنیاد ہے، یہ پانچ اعمال ہیں: نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور جہاد، (2) معاملات: یعنی جن اعمال کا تعلق انسانوں کے باہمی معاملات سے ہے، یہ بھی پانچ ہیں: مالی معاوضات (مثلاً: بیع و شراء، استصناع اور اجارہ وغیرہ)، مناکحات (مثلاً: نکاح و طلاق اور اس سے متعلقہ مسائل)، مخاصمات (مثلاً: دعویٰ، شہادت اور قضا وغیرہ)، امانت، (یعنی عاریت اور ودیعت وغیرہ)، ترکات یعنی میراث کے مسائل، (3): زواجر و عقوبات: یعنی جرائم کے انسداد سے متعلق اُمور، اِن کی بھی پانچ قسمیں ہیں: یعنی انسانی جان سے متعلق جرائم کے انسداد سے متعلق مسائل (مثلاً: قصاص، دیات اور معاقل وغیرہ)، مال سے متعلق جرائم کے سدِّباب سے متعلق احکام، (یعنی چوری اور ڈاکا وغیرہ کی سزائیں)، عزتِ نفس کو داغ دار اور مجروح کرنے کے جرائم کے انسداد سے متعلق قوانین (مثلاً: حدِّ قذف وغیرہ)، آبرو ریزی کے انسداد یعنی زنا سے متعلق مسائل، اسلامی حدود کی پامالی، مثلاً: اِرتداد وغیرہ کے انسداد سے متعلق مسائل‘‘ (البحر الرائق، ج: 1،ص: 7 تا 8)۔ چنانچہ فقہائے اسلام نے حفاظتِ نفس، حفاظتِ دین، حفاظتِ عقل، حفاظتِ مال اور حفاظتِ آبرو کو مقاصدِ شرعیہ میں سے قرار دیا ہے۔
تَفَقُّہ فِی الدِّیْن کی بابت قرآنی ترغیب و تشویق ہی کا نتیجہ تھا کہ کچھ ہی عرصے میں صحابۂ کرام کا وہ مخصوص طبقہ وجود میں آیا جو اپنی علمی و دینی خصوصیات کے لحاظ سے عام صحابہ سے ممتاز تھا، یہ وہ طبقہ تھا جو افتاء کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی کرتا تھا، صحابہ کرام کی تعداد پر اگر روشنی ڈالی جائے تو ان کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چودہ ہزار ہے، لیکن اُن میں فقہاء صحابہ کرام جنہوں نے فتوے دیے، اُن کی تعداد صرف ایک سو ساٹھ کے لگ بھگ ہے اور پھر ان میں اجتہاد و فقاہت کے درجے پر فائز صحابہ کی تعداد دس بارہ سے متجاوز نہ تھی؛ ان میں خلفائے راشدین کے علاوہ حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت معاذ بن جبل، حضرت اُبی بن کعب، حضرت زید بن ثابت، حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں۔ اس سے بھی یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ محض احادیث کو روایت کرنا اور ان میں فقہ و بصیرت سے کام لینا دو مختلف اُمور ہیں اور یہ کہ اس بہترین دور میں بھی تمام صحابۂ کرام خود قرآن و سنت سے مسائل کا استنباط نہیں کرتے تھے، یہ فریضہ چند اہلِ علم صحابہ کرام ہی ادا کرتے تھے اور باقی حضرات اُن کی پیروی کرتے تھے، تو آج کے دورِ انحطاط میں ہر شخص کو یہ منصب کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ براہِ راست قرآنِ مجید اور سنتِ رسولﷺ سے مسائل و احکام کا استنباط کرے اور ائمہ مجتہدین کی اتباع کرنے کے بجائے خود ہی مجتہد بن بیٹھے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved