بہت کچھ پانے کی تمنا کسی بھی درجے میں بُری ہے نہ غیر مفید۔ ہر انسان بہت کچھ پانا چاہتا ہے۔ اگر اہلیت ہو اور کام کرنے کا جذبہ بھی بہ درجۂ اتم پایا جائے تو بہت کچھ ملنا ہی چاہیے۔ مشکل یہ ہے کہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ محض خواہش کرلینے سے سب کچھ حاصل نہیں ہو جاتا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اس طرح کچھ بھی نہیں مل پاتا۔ ایک بدیہی حقیقت یہ ہے کہ کام کرنے کی لگن نہ صرف یہ کہ ہو بلکہ بھرپور ہو تب بھی اگر کام ڈھنگ سے نہ کیا جائے، منصوبہ سازی نہ کی جائے، حالات و واقعات پر نظر نہ رکھی جائے تو مطلوب نتائج کا حصول ممکن نہیں ہو پاتا۔ جب تمام معاملات بہت حد تک ہم آہنگ ہوتے ہیں تبھی کچھ ہو پاتا ہے۔ گیت تبھی اچھا لگتا ہے جب تمام ساز متوازن اور ہم آہنگ ہوں اور آواز بھی تال میل رکھتی ہو۔ ہمیں کسی بھی شعبے میں غیر معمولی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے بہت سے عوامل کو ذہن نشین رکھنا پڑتا ہے۔ ماحول کو نظر انداز کرکے ہم زیادہ دور تک نہیں جا سکتے۔ زیادہ آگے جانے کے لیے دور اندیشی ناگزیر ہے۔ دور اندیشی خود بخود پیدا ہو جانے والا وصف نہیں۔ یہ بہت محنت سے پیدا کرنا پڑتا ہے۔ مستقبل میں جھانکنے اور اُسے بھانپنے کی صلاحیت کا پیدا کرنا بچوں کا کھیل نہیں ع
یہ تو اِک عمر کی ریاضت ہے
کچھ لوگ زندگی بھر محنت کرتے ہیں مگر کچھ خاص حاصل نہیں کر پاتے۔ غیر معمولی صلاحیت نہ ہونے پر کی جانے والی محنت کچھ زیادہ نہیں دے پاتی۔ محنت اگر مہارت سے مزین نہ ہو تو کچھ زیادہ نہیں دے ہی نہیں سکتی۔ سڑک پر گڑھے کھودنے والا مزدور انتہائی درجے کی محنت کرتا ہے مگر کچھ زیادہ حاصل نہیں کر پاتا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ یہ محنت مہارت کے بغیر ہے۔ کئی کام ایسے ہیں جن میں گڑھے کھودنے سے کہیں کم محنت لگتی ہے اور نتیجہ بھی زیادہ بارآور ہوتا ہے مگر اِس کے لیے صلاحیت، تربیت اور مہارت کا ہونا لازم ہے۔ جب تک دم میں دم ہے تب تک کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہنا ہے۔ کامیاب اور خوش و خرم وہی رہتے ہیں جو فعال رہتے ہیں یعنی فارغ نہیں بیٹھتے۔ آرام بھی لازم ہے مگر اُس کی ایک حد بھی ہے۔ جب تک ہاتھ پیر چلتے رہیں تب تک انسان کو کسی نہ کسی شکل میں معاشی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے۔ اگر مالی حالت اچھی ہو اور زیادہ کام کرنا ناگزیر نہ ہو تب بھی مصروف رہنے سے ذہن بہتر حالت میں رہتا ہے۔ عام آدمی اس حقیقت پر زیادہ غور نہیں کرتا کہ انتہائی مالدار طبقے میں لوگ خاصی بڑی عمر تک کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ مصروف رہنے سے ذہن ڈھنگ سے کام کرتا رہتا ہے۔ ہمارے لیے ہر دن ایک نئے تجربے کا امین ہوتا ہے۔ ہم روز بیدار ہونے کے بعد ایک نئی زندگی شروع کرتے ہیں۔ نیند بھی موت ہی کی ایک شکل ہے۔ نیند پوری ہونے پر جب آنکھ کھلتی ہے تب گویا ایک بار پھر ہمیں زندہ ہونے کا موقع ملتا ہے۔ ہر روز ملنے والی نئی زندگی کا حق ہے کہ اُس سے بھرپور استفادہ کیا جائے، خود بھی فائدہ اٹھایا جائے اور دوسروں کو بھی مستفید ہونے کا موقع دیا جائے۔
کسی بھی انسان کے لیے جو اثاثے غیر معمولی وقعت رکھتے ہیں اُن میں اُمید نمایاں ہے۔ یہ اُمید ہی تو ہے جو انسان کو کچھ کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔ اُمید ہی کی بدولت ہم وہ سب کچھ کر پاتے ہیں جو بظاہر ناممکن ہوتا ہے۔ بہت سے معاملات میں ہم خاصی تیزی سے مایوسی کی طرف جاتے ہیں۔ حالات بتارہے ہوتے ہیں کہ کسی بھی مرحلے میں آسانی میسر نہ ہوسکے گی مگر دِل کے کسی کونے میں بسی ہوئی اُمید بھرپور عزم کے ساتھ آگے بڑھنے کی راہ سجھاتی ہے۔ ہم ہر صبح نئے سِرے سے جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں۔ ہر صبح ہمارے لیے ایک نئی اُمید لاتی ہے۔ یہ اُمید ہم میں کام کرنے کی سکت پھونکتی ہے۔ ہر صبح اِس بات کا پیغام ہوتی ہے کہ امکانات ابھی ختم نہیں ہوئے۔ امکانات کبھی ختم نہیں ہوتے مگر کسی بھی معاشرے میں اکثریت عمومی سطح پر یہ بات سمجھنے سے قاصر رہتی ہے۔ ناموافق حالات انسان کو مایوسی کی طرف لے جاتے ہیں۔ جب کسی مسئلے کا کوئی واضح اور قابلِ عمل حل دکھائی نہ دے رہا ہو یا سوجھ نہ رہا ہو تب دل و نظر پر مایوسی کے بادل چھا جانے کا احتمال بڑھ جاتا ہے۔ ایسے میں اُمید ہی ہے جو انسان کو تھام کر‘ سنبھلتے ہوئے آگے بڑھنے کی گنجائش پیدا کرتی ہے۔
ہم جو کچھ بھی سوچتے اور کرتے ہیں وہ ایک طرف تو اُمید کے ذریعے بروئے کار لائے جانے کی صورت میں ہمارے لیے غیر معمولی حد تک بارآور ثابت ہوتا ہے اور دوسری طرف ہمارے لیے نئے امکانات کی راہ بھی ہموار کرتا ہے۔ ہم یومیہ بنیاد پر جو کچھ بھی کرتے ہیں وہی جمع ہوکر ہمارے لیے زندگی بھر کے تجربے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ یہ تجربہ ہمارے لیے سب سے قیمتی اثاثے کا درجہ رکھتا ہے۔ اِسی کی بنیاد پر ہماری زندگی کا رخ تبدیل ہوتا ہے، امکانات کی طرف بڑھنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے اور ہم زیادہ توانا ہوکر بھرپور کارکردگی کے اظہار کی طرف بڑھتے ہیں۔ کیا لازم ہے کہ ہر ناکامی کو ناکامی سمجھتے ہوئے اُس کا ماتم کیا جائے؟ کیا ہر ناکامی ہمارے لیے صرف منفی ہوتی ہے؟ شخصی ارتقا کے موضوعات پر تحقیقی انداز سے لکھنے والوں کی رائے یہ ہے کہ ناکامیوں سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔ ہر ناکامی کوئی نہ کوئی سبق دیتی ہے اور وہ سبق ہمارے لیے قیمتی ہوتا ہے کیونکہ اُس کے ذریعے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ صبح کسی نہ کسی اُمید کا دامن تھامنے کا موقع فراہم کرتی ہے اور ہم رات بھر کی نیند کے ذریعے تازہ دم ہونے کے بعد نئے عزم اور ولولے کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ شام تک ہم بہت کچھ کرچکے ہوتے ہیں۔ دن رخصت ہوتے ہوئے یعنی شام کے وقت ہمیں کسی نہ کسی نئے تجربے سے ضرور نوازتا ہے۔ ہر شام کے نقوش کسی نہ کسی تجربے سے مزین ہوتے ہیں۔ جو لوگ باقاعدگی سے ڈائری لکھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ زندگی یومیہ بنیاد پر حاصل ہونے والے تجربے کے مجموعے ہی کی بدولت بارآور ہوتی جاتی ہے۔
ہمیں سب کچھ ایک ساتھ نہیں مل سکتا۔ ہر معاملہ چند خاص مراحل پر مبنی ہوتا ہے۔ کوئی بھی چیز پروان چڑھنے میں کچھ وقت لیتی ہے۔ ہم خود بھی تو راتوں رات بڑے نہیں ہو جاتے۔ زندگی کو برتنے اور نبھانے میں ہمیں بھی تو ایک زمانہ لگتا ہے۔ بچپن اور لڑکپن کی حدود سے گزرنے کے بعد عنفوانِ شباب کی منزل سے گزر کر ہم پختہ عمر کی طرف بڑھتے ہیں۔ وہاں سے ہم دھیرے دھیرے بڑھاپے کی طرف جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہم سے تحمل کا تقاضا کرتا ہے۔ جس طور ہماری زندگی راتوں رات مکمل نہیں ہوتی بالکل اُسی طور معاملات بھی راتوں رات پختگی کی طرف نہیں جاتے اور ہمیں راتوں رات مطلوب نتائج نہیں دے سکتے۔ ہمیں ہر معاملے میں اُمید کا دامن تھامے رہنا ہے اور تجربے کی تجوری کے بھرنے کا انتظار کرنا ہے۔ یہ سب کچھ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ ہم یومیہ بنیاد پر زندگی بسر کرتے ہیں۔ جو کچھ ہم کرتے جاتے ہیں وہی ہمارے مجموعی تجربے کا حصہ بن کر ہماری راہ نمائی کرتا رہتا ہے۔ معاشی اور غیر معاشی‘ ہر دو طرح کے معاملات میں ہمیں تحمل کے ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔ اُمید ہمیں راستہ دکھاتی ہے اور یہ بھی بتاتی ہے کہ سب کچھ دیکھتے ہی دیکھتے بدلا نہیں جاسکتا۔ تجربہ ہمیں سکھاتا ہے کہ جو کچھ بھی کرنا ہے بتدریج کرنا ہے۔ وقت انسان کے لیے سب سے بڑے اُستاد کا درجہ رکھتا ہے۔ وقت کی سرنگ سے گزرتے ہوئے ہی ہم زندگی کو سمجھنے اور برتنے کے قابل ہو پاتے ہیں۔ یہ مرتے دم تک کا سودا ہے۔ عجلت پسندی معاملات کو بگاڑتی ہے۔ ہر دن کا آغاز اُمید کے ساتھ کیجیے، شام ہوتے ہوتے آپ کے تجربے میں کچھ نہ کچھ اضافہ تو ہو ہی چکا ہوگا۔ زندگی اِسی طور، مرحلہ وار، بارآور اور ثمر بار ہوتی جاتی ہے۔ بہت تیزی سے بہت کچھ پانے کی خواہش اور کوشش ہمیں بالآخر اُمید سے محروم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اُمید اور تجربے کا حاصل سمجھنے میں ایک عمر کھپ جاتی ہے۔ اِس کھیل میں جیت تحمل کی ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved