عمران خان کے ہاتھ پہلے بھی خالی نہیں تھے ‘جب وہ لاہور سے اسلام آباد عدالت میں پیش ہونے کے لیے آئے تھے۔ اب جب دو دن گرفتاری کے بعدوہ واپس لاہور پہنچ گئے ہیں تو ان سے اپنی کامیابی سنبھالی نہیں جارہی۔ وہ ایک فاتح کی طرح لاہورگئے ہیں۔
حکومت کو پرانا شوق تھا کہ خان کو کسی دن گرفتار کرنا ہے۔اس کی پلاننگ بڑے عرصے سے کی جارہی تھی۔ٹی وی چینلز پر وزراء دھمکیاں دے رہے تھے۔ وہ شوق بھی پورا ہوااور پتہ چلا ہے کہ حکومت اور ریاست خود کو مزید خراب کرا بیٹھی ہیں۔یہ پہلی دفعہ ہو رہا ہے کہ حکومت اور مقتدرہ ایک پیج پر ہونے کے باوجود مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر پائے۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا۔
عمران خان کو دوبارہ وزیراعظم بننے سے روکنے کا جو وقت تھا وہ گزر چکا۔ شہباز شریف‘ زرداری اور نواز شریف یا اسحاق ڈار یہ سوچ کر مست اور مگن رہے کہ عمران خان اور جنرل باجوہ اور ان کے کمانڈرز کی لڑائی ہوگئی ‘ انہیں اب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ۔ فوج جانے اور کپتان جانے۔شہباز شریف خود وزیراعظم بنے اور بیٹے حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ بنا دیا۔ یہیں سے پہاڑ جیسی غلطیوں کی بنیاد رکھی گئی۔ میں نے وزیراعظم سے پچھلے سال رمضان کے دنوں میں ہونیوالی اینکرز کی ملاقات میں یہی کہا تھا کہ جنابِ وزیراعظم آپ ایف آئی اے کیس میں ضمانت پر ہیں‘ حمزہ بھی ضمانت پر ہے۔آپ عمران خان کو ہٹا کر خان کا ہی بھلا کررہے ہیں۔ کیا شریف خاندان کو اپنے گھر سے باہر کوئی بندہ نظر نہیں آتا؟اگرچہ اُس وقت تو وزیراعظم شہباز شریف نے بڑے تحمل سے میرے چار سخت سوالات سُن کر ان کا جواب دیا لیکن اس کے بعد اس طرح کی پابندی مجھ پرلگا دی گئی جیسے عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد لگائی تھی جب ان سے پہلی ملاقات میں پاک پتن کے مانیکا کی ماردھاڑ بارے سوال کر لیا تھا۔ خان صاحب بھی شدید ناراض ہوگئے تھے۔لیکن شہباز شریف ایک بات نہ سمجھ سکے‘ بلکہ یوں کہیں کہ پورا شریف خاندان نہ سمجھ سکا‘ کہ وہ 1990 ء کی دہائی میں زندہ نہیں ہیں‘ انہیں نئی شروعات کی ضرورت تھی اور اب غلطی کی گنجائش ہرگز نہیں ۔
پہلے بھی یہ واقعہ سنا چکا ہوں لیکن معذرت‘ پھر سنانا پڑے گا کہ جب راجہ پرویز اشرف وزیراعظم بنے تو ان کے پریس سیکرٹری اکرم شہیدی صاحب کا فون آیا کہ وزیراعظم ملنا چاہتے ہیں۔صحافی کو ہر ایک سے ملنا ہوتا ہے‘ چاہے راجہ صاحب کے خلاف خبریں فائل کی تھیں اور انہوں نے مجھے ایک سکینڈل پر لیگل نوٹس بھی بھیجا ہوا تھا۔ حیران ہوا کہ وہ وزیراعظم بن کر کیوں ملنا چاہتا ہے ‘ چار سالہ وزارت کے دوران جن کے خلاف خبریں اور سکینڈلز فائل کئے تھے اور انہوں نے بھی میرے خلاف تقریریں اور مقدمے کر رکھے تھے۔ خیر ملاقات ہوئی تو وہ عزت اور احترام سے ملے۔ میں نے اپنے مزاج کے برعکس ان کے کہنے پر دو تین مشورے بھی دیے‘ان میں ایک یہ تھا کہ دنیا اب آپ کو وزیرپانی و بجلی کے طور پر یاد نہیں رکھے گی‘ آپ نے کیا اچھا برا کیا وہ سب آج سے لوگ بھول جائیں گے‘ اب لوگ آپ کو وزیراعظم کے طور پر یاد رکھیں گے۔ آپ کے پاس بڑا اچھا چانس ہے کہ آپ نئی اننگز شروع کررہے ہیں تو اچھا وزیراعظم بن کر دکھائیں۔ گڈ گورننس کی نئی مثالیں قائم کریں کہ لوگ اگلے پچھلے وزیراعظم بھول جائیں۔ راجہ صاحب نے تجویز کو بڑا پسند کیا‘ یہ الگ بات کہ جن تین باتوں سے بچنے کا کہا تھا وہی تینوں کام اس ملاقات کے بعدکیے اور جب وزیراعظم نہ رہے تو کئی سال نیب کے مقدمات بھگتتے رہے۔ اس طرح کا موقع شریف فیملی کو بھی ملا ۔ بہتر تھا کہ نواز شریف اور مریم نواز کا مشورہ مان لیا جاتا کہ عمران کو ہٹا کر حکومت نہ لی جائے۔ عمران خان کو اپنی پرفارمنس پرالیکشن لڑنے دیا جائے‘ عوام کو انہیں جج کرنے دیں‘ لیکن شہباز شریف کا گروپ نہیں مانا۔ وہ کیونکر اس موقع کو ضائع کرسکتے تھے؟یوں وزیراعظم تو بن گئے لیکن پارٹی اور حکومت کا بیڑا غرق کر بیٹھے۔
شہباز شریف اور زرداری اگر عمران خان کو سیاسی طور پر ختم کرنا چاہتے تھے تو اس کا ایک ہی فارمولا تھا کہ وہ گڈ گورننس پر زور دیتے۔وہ عمران خان کے دور کی مہنگائی سے عوام کو ریلیف دیتے۔ عمران خان نے 180/190 روپے پر ڈالر چھوڑا تھا تو وہ اسے 150روپے پر لاتے۔ ایکسپورٹ کو وہ 31 ارب ڈالرز سے 40 ارب ڈالرز تک لے جاتے۔ پٹرول ڈیزل نیچے لاتے اور سب سے بڑھ کر وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل سائن کرپاتے۔ اس حکومت کو کوئی کیسے سپورٹ کرے جو عمران خان دور سے بھی نیچے چلی گئی؟ آپ لاکھ کہتے رہیں کہ عمران خان نے ہی معاشی تباہی کی بنیاد رکھی تھی جب انہیں پتہ چلا کہ وہ حکومت سے نکالے جانے والے ہیں تو بقول شیخ رشید بارودی سرنگیں بچھانا شروع کر دیں تاکہ نئی حکومت اس میں پھنس جائے۔ خان صاحب کے پاس آپشن تھا کہ وہ بائیس کروڑ عوام کا سوچتے اور جنرل باجوہ اور شریفوں اور زرداری کا بدلا عوام اور ملک سے نہ لیتے لیکن وہی بات کہ وہ کیو نکر ترس کھاتے یا رحم کرتے ‘لہٰذا باجوہ اور شریفوں کی ''سازش‘‘ کی سزا انہوں نے عوام اور ملک کو دی۔ آئی ایم ایف سے ڈیل توڑی‘ جو ایک سال گزرنے کے بعد آج تک دوبارہ سائن نہیں ہوسکی اور ڈالر مسلسل اوپر جارہا ہے جس سے ملک تباہی کے کنارے پہنچ چکا۔ رہی سہی کسر سیاسی کشمکش نے پوری کر دی ہے۔ لوگ کہیں گے جب خان کے خلاف سازش کرنے والوں نے ملک اور لوگوں کا خیال نہیں رکھا تو خان صاحب کیونکر کرتے؟ جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے‘ یہ جنگ تھی جس میں معاشی بارودی سرنگیں بچھانا انہیں اپنا بڑا ہتھیار لگا اور انہوں نے اس کا استعمال کیا۔ خان سے شکایت کیوں۔ سب سیاست ذاتی مفاد کے لیے کی جاتی ہے۔ شریفوں اور زرداریوں نے کون سا اخلاقیات یا ملک اور قوم کو سامنے رکھ کر خان کو ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا۔ ذاتی مفادات سامنے رکھ کر فیصلہ ہوا تھا۔ وہی قوم جو پچھلے سال مارچ تک پی ڈی ایم اپوزیشن کو مسلسل طعنے دے رہی تھی کہ وہ اب تک وزیراعظم عمران خان کے خلاف سڑکوں پر کیوں نہیں نکلی‘ وہ اب عمران خان کے ساتھ سڑکوں پر نکلی ہوئی ہے۔ ایک سال میں اتنا کچھ بدل گیا ہے۔ شہباز شریف وزیراعظم بننے کی اپنی بچپن کی خواہش پر قابو پاتے‘ بیٹے حمزہ کو پنجاب کی وزارت ِاعلیٰ سے دور رکھتے اور اپنی جگہ احسن اقبال‘ خواجہ آصف یا شاہد خاقان عباسی کو وزیراعظم بناتے تو وہ بھی آج اس طرح سکون کررہے ہوتے جیسے زرداری کررہا ہے۔ پھر یہ سب جلدی میں بھی تھے کہ فوراً نیب کیسز ختم کرائیں۔ اسحاق ڈار کو جلدی تھی کہ وہ نیب سے اپنا لاہور کا گھر اورپچاس کروڑ روپے واپس لیں۔دیگر وزیروں اور پارٹیوں نے بھی یہی سوچ لیا کہ عمران خان جانے اور فوج۔ اس سوچ نے انہیں بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ جہاں وہ سیاسی طور پر خود کو تباہ کرچکے ہیں وہیں عمران خان کو دوبارہ خطرناک بھی بنا چکے ہیں۔ خان اب اپنی ذات میں ریاست کے اندر ایک ریاست اور قانون بن چکا ہے۔ عوام ایک سال میں خان کے تین چار سالہ اقتدار کا کیا دھرا سب بھول گئے ہیں‘ کیونکہ پی ڈی ایم کے سب ''تجربہ کار‘‘ مل کر بھی عوام کو یہ یقین نہیں دلا سکے کہ وہ عمران خان سے بہتر حکمران ہیں۔ اس وقت جو حالت حکومت کی ہوچکی ہے اس سے تو وہ افیمی یاد آتا ہے جو کنویں میں گرگیا تھا اور شام تک گائوں کے لوگ کوشش کرتے رہے ‘مگر نہ نکال پائے تو افیمی نے بے بسی سے کہا :آپ مجھے نکالتے ہو یامیں کسی طرف نکل جائوں ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved