دیکھا جائے تو ملکی سیاست میں اس وقت کوئی ایسی کسر باقی نہیں رہ گئی کہ کوئی تیسری قوت اقتدار پر قبضہ نہ کرلے۔ سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر ہے‘ ادارے ایک دوسرے کے آمنے سامنے آچکے ہیں لیکن اس کے باوجود فوج نے ابھی تک مداخلت نہیں کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل احمد شریف نے فوج کے افسروں کے استعفوں سے متعلق افواہوں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ فوج اپنے چیف جنرل عاصم منیر کی قیادت میں متحد ہے اور جمہوریت کی مکمل حامی ہے‘ لہٰذا مارشل لاء کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یعنی پاک فوج کے ترجمان نے اس خدشے کو رد کردیا ہے کہ ملک میں مارشل لاء لگے گا۔ ان تمام باتوں کے باوجود بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان نے ملک کو بند گلی میں داخل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آج حال یہ ہے کہ ان کی جماعت تحریک انصاف‘ پاک فوج کے سامنے کھڑی ہوگئی ہے‘ یہی نہیں انہوں نے عوام کو بھی پاک فوج کے سامنے کھڑا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ذرا غور فرمائیں کہ عمران خان گرفتار ہوئے تو اُن کے ورکرز نے طوفانِ بدتمیزی برپا کردیا۔ سڑکیں بلاک کیں واٹر ٹینکر‘ سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا‘کور کمانڈر ہاؤس اور جی ایچ کیو میں توڑ پھوڑ کی۔جو اس سے پہلے کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ حکومتی عمائدین کا کہنا ہے کہ ایسا تو کبھی بھارت بھی نہیں کر سکا جس انداز میں کپتان کے چاہنے والوں نے کیا ہے۔ سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کہتی رہیں کہ کم از کم آپ یہ تین دنوں میں ہونے والی تباہی کی مذمت تو کریں اور ایک ڈیکلریشن دیں لیکن میں نہ مانوں کے مصداق عمران خان یہی کہتے ہیں کہ وہ تو جیل میں تھے ‘انہوں نے عوام کو نہیں کہا تھا کہ وہ مشتعل ہوجائیں اور ہنگامہ آرائی کریں۔ ایسا اس لئے ہوا کہ ان کی ساری لیڈر شپ کو گرفتار کرلیا گیا تھا۔ دوسری طرف خان کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ عمران خان ہی تھے جنہوں نے اپنے اداروں کے خلاف عوام کی ذہن سازی کی‘ پہلے عمران خان سابق آرمی چیف کو میر جعفر میر صادق کے القابات سے نوازتے تھے پھر حاضر سروس فوجی افسروں پر اپنے قتل کی کوشش کے الزام لگاتے رہے‘ بلکہ اب بھی لگاتے ہیں۔پھر اسی طرح سے تحریک انصاف کی جانب سے سوشل میڈیا پر عمران خان ہماری ریڈ لائن ہے جیسے ہیش ٹیگ سے عوام میں اداروں کیلئے نفرت کے بیج بوئے گئے۔ عمران خان نے اقتدار کے حصول کیلئے اپنے ہی اداروں پر تنقید کی۔
عمران خان کے سیاسی مخالفین یہ بھی کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی بہت سے سیاستدان گرفتار ہوئے لیکن اُن کے حامیوں نے کبھی ایسا رد عمل نہیں دیاجو تحریک انصاف کے سپورٹرز نے دیا۔ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کئی بار جیل گئے لیکن وہ واپس باہر آگئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جیل گئیں وہ بھی باہر آگئی۔شاہد خاقان عباسی بھی جیل گئے وہ بھی باہر آگئے۔ذوالفقار علی بھٹو پہلی بار جیل گئے انہوں نے صورتحال کا سامنا کیا پھر وہ بھی باہر آگئے۔ دوسری بار جیل گئے تو مارشل لاء کی وجہ سے پھر باہر نہ آسکے اور ان کا سفر جیل سے سزائے موت کے پھندے پر جاکر ختم ہوا مگر پھر بھی اس طرح کا ردعمل نہیں ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد سندھ میں صورتحال خراب ہوتے ہی آصف علی زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا اور اپنے کارکنوں کو پرامن کیا۔ماضی میں سیاستدانوں نے جیلیں بھی بھگتیں‘ حالات کا مقابلہ کیا مگر عمران خان کی طرح عوام کے پیچھے چھپنے کو ترجیح نہیں دی اور نہ ہی اپنے کارکنوں کو اشتعال انگیزی پر اکسایاکیونکہ وہ جانتے تھے کہ اقتدار میں آنے کیلئے اداروں کو زیادہ حد تک ناراض نہیں کیا جاسکتا۔
اس بار عمران خان نے ناراضگی کے کنویں کی گہرائی میں جاکر اداروں کو ناراض کیا ہے۔اب آپ نتیجہ دیکھ لیجئے کہ سپریم کورٹ نے 14مئی کو پنجاب میں انتخابات کروانے کی بات کی ہے ‘انتخابات میں ایک دن رہ گیا ہے لیکن الیکشن کے امکانات نظر نہیں آتے۔سپریم کورٹ تو صرف آرڈر ہی دے سکتی ہے لیکن الیکشن تو اداروں نے ہی کروانے ہیں۔ اب جب عمران خان نے اداروں سے بگاڑ لی ہے تو سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن نہیں ہورہے۔اور تو اور اب تو الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں الیکشن نہ کروانے کیلئے نظر ثانی کی اپیل دائر کی ہے یعنی مطلب صاف ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کروانے کو ذرا بھی تیار نہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ الیکشن کمیشن جان بوجھ کر انتخابات میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کا شروع سے یہی مؤقف رہا ہے کہ اس کے ساتھ متعلقہ ادارے تعاون نہیں کر رہے۔ وزارت خزانہ کی جانب سے اس کو فنڈز نہیں مل رہے ‘ دوسری جانب فوج سے اس کو سکیورٹی نہیں مل رہی۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن بھی سچا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت نظر ثانی اپیل میں الیکشن کمیشن کی الیکشن کو تاخیر سے کروانے کی التجا کو قبول کرتی ہے یا مسترد کردیتی ہے۔
وفاقی وزرایہ الزام عائد کرتے ہیں کہ سپریم کورٹ عمران خان کو ہر معاملے میں بہت ریلیف دے رہی ہے اور وہ الیکشن کے حوالے سے بھی عمران خان کی بات کو مان رہی ہے۔ سپریم کورٹ نے 15 مئی کو الیکشن کمیشن کی نظر ثانی کی درخواست کو سماعت کیلئے مقرر کیاہے۔اگر سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کی نظر ثانی کی درخواست بھی مسترد کردیتی ہے تو پھر حالات میں مزید گرمی آئے گی‘ یہی نہیں سپریم کورٹ 14 مئی کو انتخابات نہ کروانے پر وزیراعظم شہباز شریف کو توہین عدالت کا نوٹس بھی جاری کر سکتی ہے۔ ایسی صورت میں یہ کارروائی آگے بڑھتے ہوئے پوری کابینہ تک پھیل سکتی ہے۔ سیاسی پنڈتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان نے اداروں کے سامنے آکر خود کو اقتدار سے دور کرلیا ہے اور اب تو یہ خدشہ بھی پیدا ہوگیا ہے کہ جو عام انتخابات اکتوبر میں ہونا تھے شاید مزید آگے چلے جائیں۔ اس وقت صرف عدلیہ ہی عمران خان کو غیر معمولی تحفظ دے رہی ہے جس پر حکمرانوں کا غصے میں آنا سمجھ میں آتا ہے۔ اس صورتحال پر وفاقی حکومت تشویش کا اظہار کرتی نظر آتی ہے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف عدلیہ پر خوب برہم ہوئے اور کہا کہ دہرے معیار نے انصاف کا جنازہ نکال دیاہے۔ عمران خان کو بچانے کیلئے عدلیہ آہنی دیوار بن چکی ہے۔کچھ اسی طرح کے خیالات کا اظہار مریم نواز نے بھی کیا ۔ عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف ملنے پر انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان کو براہ راست نشانہ بنا یا۔مولانا فضل الرحمان بھی عدلیہ پر خوب برسے ‘ انہوں نے تو سپریم کورٹ کے باہر سوموار کو یعنی کل دھرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔اب دیکھا جائے تو حکمران جماعتوں میں عدلیہ کیلئے ناراضگی کی بڑی وجہ عمران خان ہے۔اب تو یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف عدالت توہین عدالت کی کارروائی بھی ہونے جارہی ہے۔
اس صورتحال میں ادارے ہوں سیاسی جماعتیں‘ انہیں اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے اور معاملات کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہیے‘ ورنہ عمران خان تو خود کو بند گلی میں لے جا ہی چکے ہیں کہیں پورا نظام ہی بند گلی میں نہ چلا جائے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved