پچھلے ہفتے سہ فریقی کانفرنس میں شرکت کے لیے چینی اور افغان وزرائے خارجہ چن گانگ اور مولوی امیر متقی کی اسلام آباد آمد جنوبی ایشیا میں ان نئے سیاسی تغیرات کی علامت دکھائی دی جو ہماری داخلی سیاسی کشمکش میں شدت کا محرک بھی بن سکتے ہیں۔ افغان طالبان کو طویل عرصہ سے یو این سلامتی کونسل کی پابندیوں کے باعث اثاثوں کے انجماد‘ہتھیاروں کی خریداری اور سفری پابندیوں کا سامنا ہے تاہم افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ امیر متقی کو رواں ماہ کے اوائل میں اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے سفری پابندی سے استثنیٰ دیکر پاکستان کا سفر کرنے کی اجازت دی تھی۔ سہ فریقی مذاکرات کے پانچویں مرحلے میں شرکت کے بعد چین اور افغان وزرائے خارجہ نے بلاول بھٹو زرداری سے دو طرفہ امور پہ بات چیت کی تاہم مولوی امیر متقی کی پاکستان کی مذہبی اور پختون قوم پرست جماعتوں کی لیڈر شپ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جن میں انہیں طالبان بارے پاکستانی رائے عامہ کا تاثر بھی پہنچایا گیا۔ افغان وزارتِ خارجہ کے ترجمان زیاد احمد توکل نے میڈیا کو بتایا کہ افغان حکومت دو طرفہ سیاسی و تجارتی تعلقات‘ علاقائی استحکام‘ افغانستان اور پاکستان کے درمیان راہداری معاملات پہ جامع مذاکرات کی متمنی ہے۔ چینی وزیر خارجہ کا تو یہ پہلا دورۂ پاکستان تھا لیکن امیر متقی آخری بار نومبر 2021ء میں افغان طالبان کے کابل پر کنٹرول سنبھالنے کے چند ماہ بعد اسلام آباد آئے تھے۔ افغان وزیر کی سہ فریقی کانفرنس میں شرکت سے قبل اقوام متحدہ نے دوحہ میں افغانستان پر ایک ایسی کانفرنس کی میزبانی کی تھی جس میں طالبان حکمرانوں کو مدعو نہیں کیا گیا تھا‘ چنانچہ قطر میں اقوام متحدہ کی دوحہ کانفرنس افغان قیادت کی عدم شمولیت کے باعث بے نتیجہ رہی۔ 2مئی کو دوحہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے افغانستان میں طالبان کی طرف سے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی سمیت خواتین کے حقوق کو دبانے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم خواتین کے حقوق پر حملوں پہ چپ نہیں رہ سکتے۔ گوتریس نے سوال کیا کہ کیا ہم ہمیشہ اس وقت بات کریں گے جب لاکھوں خواتین کو خاموش اور نظروں سے اوجھل کر دیا جائے گا؟ گوتیرس نے دوحہ میں نامہ نگاروں کو بتایا یہ اجلاس طالبان حکام کو تسلیم کرنے کے لیے نہیں بلکہ مشترکہ بین الاقوامی نقطۂ نظر کو فروغ دینے بارے تھا۔ بلاشبہ پاکستان اپنے اس پڑوسی سے قریبی تعلقات چاہتا ہے جس سے وہ 26سو کلو میٹر طویل مشترکہ سرحد رکھتا ہے‘ اس لیے امیر متقی کے دورہ کو شمال مغربی خیبر پختونخوا اور جنوب مغربی بلوچستان میں پُرتشدد حملوں میں غیرمعمولی اضافہ کے تناظر میں دیکھا گیا۔ پاکستانی حکام کہتے ہیں کہ حملے افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی والوں نے کیے جو افغان طالبان کے ساتھ گہری نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں لیکن دونوں ممالک کے حکام کے درمیان تلخ جملوں کے تبادلے کے باوجود پاکستان نے افغان طالبان کو سرکاری طور پر ملک کی قانونی حکومت کے طور پر تسلیم کیے بغیر ان کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم سے خطاب میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا تھا کہ وہ عبوری افغان حکومت کے ساتھ بامعنی مشغولیت اختیار کریں کیونکہ افغانستان کے عالمی طاقتوں کے لیے بار بار جنگ کا میدان بننے کے بعد ہم سب افغانوں کے مقروض ہیں۔ ہمیں ماضی کی غلطیوں کو دہرانے سے بچنا چاہیے۔ امیر متقی کا دورہ دونوں ممالک کے تعلقات میں خاص طور پر حالیہ کشیدگی کی روشنی میں اہم پیشرفت تصور ہوگا کیونکہ گزشتہ چند مہینوں میں ٹی ٹی پی کے پے در پے حملوں بالخصوص رواں سال جنوری میں پشاور پولیس لائن سانحہ کے بعد پاکستان نے افغان حکومت پہ اعتراضات اٹھائے تو متقی کی طرف سے سخت جواب دیا گیا تھا لیکن امیر متقی کا حالیہ دورہ مثبت پیش رفت اور فریقین کے مؤقف میں نرمی کی نشاندہی کرتا ہے۔ بات چیت کا تیسرا فریق چین‘ افغانستان اور پاکستان میں اہم اقتصادی اور تزویراتی مفادات رکھنے کے علاوہ بیجنگ پاکستان کا کلیدی اقتصادی اور دفاعی شراکت دار ہے۔ اس نے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں 60بلین ڈالر کی بھاری سرمایہ کاری کرکے مڈل ایسٹ کے تیل تک آسان رسائی کے خواب کو شرمندہ تعبیر بنایا۔ چین اب افغانستان کے راستے روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے توانائی کے ذخائر اور مشرقی یورپ کی اقتصادی منڈیوں پہ تصرف پانے کی تگ و دو میں سرگرداں ہے۔ اس وقت چینی کمپنیاں افغانستان میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں۔ ایک چینی فرم نے رواں سال جنوری میں افغان حکام کے ساتھ ملٹی ملین ڈالر سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے جسے اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں پہلی اہم غیرملکی سرمایہ کاری سمجھا گیا۔ مارچ 2022ء میں اس وقت کے چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے کابل کا اچانک دورہ کرکے مختلف امور بشمول سیاسی تعلقات‘ اقتصادی اور راہداری تعاون میں توسیع کے لیے طالبان حکام سے بار آور ملاقاتیں کی تھیں۔ دوحہ میں اقوام متحدہ کی کانفرنس میں جو کچھ کہا گیا‘ اس سے قطع نظر عملیت پسندی کا تقاضا یہی تھا کہ طالبان کو سفارتی طور پہ تسلیم کیے بغیر بھی بین الاقوامی اصولوں کے مطابق ایک نارمل ملک بنانے کی ضرورت موجود ہے کیونکہ داخلی خلفشار اور ناکافی علاقائی حمایت کے باعث عدم مشغولیت کی پالیسی مطلوبہ نتائج پیدا نہیں کر سکی۔ امیرمتقی کے وفد میں افغانستان کے وزیر تجارت و صنعت حاجی نورالدین عزیزی‘ وزیر ٹرانسپورٹ اور دیگر سینئر حکام شامل تھے۔ دورے کے دوران فریقین نے پاک افغان سیاسی‘ اقتصادی اور تجارتی روابط‘ امن و سلامتی اور تعلیم کے شعبوں میں دو طرفہ تعلقات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا۔ افغان طلبہ کے لیے خیبر پختون خوا اور بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں حصولِ تعلیم کے لیے مختص وظائف سے استفادہ کے علاوہ افغانستان میں چینی اور آٹے کی قلت پہ قابو پانے کے لیے طور خم‘ غلام خان‘ انگور اڈا اور چمن بارڈر پہ تجارتی سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے پہ بھی بات کی گئی۔ چینی اور پاکستانی حکام دونوں نے ماضی میں کہا تھا کہ وہ طالبان کی قیادت میں افغانستان کو اربوں ڈالر کے چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبہ میں خوش آمدید کہیں گے۔ افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان ایک اہم جغرافیائی تجارتی اور ٹرانزٹ روٹ پر بیٹھے ہونے کے علاوہ اربوں ڈالر کے غیر استعمال شدہ معدنی وسائل بھی رکھتا ہے۔ طالبان نے اگست 2021ء میں امریکہ کے زیر کمانڈ غیر ملکی افواج کی 20 برسوں پہ محیط طویل جنگ سے اکتا کر واپس پلٹنے کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پُر کرتے ہوئے ملک کا نظم و نسق سنبھالا تھا۔ بعض سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق قائم مقام وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان سے افغانستان کے پڑوسیوں اور خطے کے دیگر ممالک کیساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔ خاص کر موجودہ حالات میں جب افغانستان بدترین اقتصادی اور سیاسی تنہائی کا شکار ہے۔ یہ ملاقاتیں سیاسی افہام و تفہیم پیدا کرنے کی طرف مثبت قدم ثابت ہو سکتی ہیں۔ امر واقعہ تو یہی ہے کہ اٹھارہ ماہ گزر جانے کے باوجود طالبان حکومت کو کسی نے تسلیم نہیں کیا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ طالبان حکام کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور انتہا پسندوں سے روابط عالمی برادری میں ان کی شمولیت کی راہ میں حائل ہیں لیکن انخلا کے بعد امریکی ایما پر مغربی ممالک نے طالبان رہنماؤں کو بلیک لسٹ کرکے اس گروپ کو عالمی مالیاتی نظام سے کاٹنے کی جو مہم شروع کی تھی‘ اس کے مضمرات تاحال طالبان کے تعاقب میں ہیں۔ اس سب کے باوجود طالبان نے بیرونِ ملک ان افغان سفارت خانوں کا کنٹرول حاصل کرکے اپنی قانونی حیثیت ثابت کرنے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے جن میں سے اکثر کو اب بھی پچھلی حکومت کے مقرر کردہ سفارت کار چلا رہے ہیں۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ تاجکستان کو چھوڑ کر 14ممالک میں سفارتی موجودگی سمیت روس‘ چین‘ ترکی اور انڈونیشیا میں سفارت خانوں کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ طالبان نے اگرچہ اپریل 2022ء میں چین میں افغان سفارت خانہ سنبھال لیا تھا لیکن وہ مغرب میں کسی افغان مشن کا کنٹرول حاصل نہیں کر سکے۔ مغربی ممالک نے طالبان کو جامع حکومت قائم کرکے خواتین کو حقوق دینے اور دہشتگرد تنظیموں سے تعلقات توڑنے کی شرط پہ تسلیم کرنے کا عندیہ دیا لیکن طالبان نے طاقت کے اشتراک سے انکار اور خواتین کی آزادیاں سلب رکھیں۔ گزشتہ ماہ طالبان نے ترکمانستان میں افغان سفارت خانے اور متحدہ عرب امارات میں قونصل خانے کا کنٹرول اور فروری میں تہران میں افغان سفارت خانے کا نظام سنبھالا۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کا اگلا ہدف تاجکستان ہوگا جو واحد پڑوسی ملک ہے جس نے افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کو عوامی سطح پر مستردکرنے کے علاوہ افغانستان کے نیشنل ریزیسٹنس فرنٹ کی میزبانی کی تھی۔ گزشتہ ماہ طالبان حکام نے دعویٰ کیا کہ ان کے اہلکاروں نے مشرقی شہر خوروگ میں افغان قونصل خانے کا دورہ کیا لیکن تاجک حکام نے اس پہ تبصرہ نہیں کیا۔ دوشنبہ میں افغان سفیر محمد ظاہر اغبر نے بتایا کہ انہیں شک ہے طالبان نے اپنے دورے اور ملاقاتوں کی تصاویر تو شائع نہیں کیں لیکن وہ تاجک حکومت سے خفیہ مذاکرات میں مصروف ہیں۔ ڈیڑھ سال پہ محیط مزاحمت کے باوجود این آر ایف زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ طالبان فورسز نے NRFجیسی مسلح اپوزیشن کو بڑی حد تک کچل دیا۔ اس لیے اب تاجک حکومت توازن قائم کرنے کی کوشش میں افغانستان میں طالبان حکام کو خوش اور تاجکستان میں مزاحمتی گروہ کو راضی رکھنے میں مصروف ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved