تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     14-05-2023

لین دین کا بہتا دریا

یہ دنیا لین دین کی جگہ ہے۔ اسے بازار ہی سمجھیے۔ یہاں کچھ بھی کسی جواز کے بغیر نہیں۔ تمام معاملات کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر طے پاتے ہیں۔ یہ بنیاد کبھی کمزور نہیں پڑی۔ جو اس بنیاد کو کمزور کرنے کے درپے ہو اس کے لیے الجھنیں بڑھ جاتی ہیں۔ جن معاملات کو ہم کچھ لو اور کچھ دو کے اصول سے منزہ سمجھتے ہیں‘ وہ بھی اس اصول سے مکمل طور پر بچے ہوئے نہیں ہوتے۔ سوال صرف ہماری سمجھ کے پھیر کا ہے۔ ہم اگر نہ دیکھنا چاہیں تو اور بات ہے وگرنہ ہر معاملہ اتنا صاف ہے کہ ذرا سی توجہ دینے پر کوئی معمولی عقل رکھنے والا بھی دیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔ ہم زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرتے ہی ہیں۔ کیوں؟ کچھ پانے کے لیے۔ ہم کیا پانا چاہتے ہیں؟ مال و زر‘ کامیابی اور عزت؟ یقیناً۔ یہ سب کچھ مفت نہیں مل سکتا؟ اس کی گنجائش کم ہے۔ کسی کو کچھ بھی مفت نہیں ملتا۔ انگریزی میں ایک معروف مقولہ ہے کہ اس دنیا میں مفت ظہرانے جیسا کچھ بھی نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ بھی پانے کے لیے کچھ نہ کچھ دینا ہی ہوتا ہے۔ ایک اور صاحبِ دانش نے خوب کہا ہے کہ اگر آپ کو کچھ مفت دیا جا رہا ہے تو یقین کر لیجئے کہ آپ کو انسان کی حیثیت سے نہیں بلکہ مال (Product) کے طور پر برتا جارہا ہے! کسی کو کچھ مفت مل جائے یہ اس دنیا کا چلن ہے ہی نہیں۔ کبھی کبھی محض اتفاق سے ایسا ہو بھی جاتا ہے مگر لازم نہیں کہ اس کی کوئی توجیہ نہ کی جا سکے۔
دنیا کو امتحان گاہ بھی کہا گیا ہے اور مصیبت کا گھر (دارالمحن) بھی قرار دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا دارالمعاملت بھی ہے یعنی کوئی کچھ پانا چاہتا ہے تو اُسے کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے۔ اسی کا نام معاملت ہے۔ کچھ دیے بغیر کچھ ملتا نہیں۔ جو کچھ بھی ہمیں درکار ہے وہ کسی نہ کسی کے ذریعے ملے گا اور اس کے لیے اسے کچھ نہ کچھ دینا پڑے گا۔ بات لین دین سے شروع ہوکر لین دین پر ختم ہوتی ہے۔ ہاں‘ یہ ناگزیر نہیں کہ لین دین مال و زر کی شکل ہی میں ہو۔ سوال کچھ لینے اور کچھ دینے کا ہے۔ لین دین صرف زر کے تبادلے کی شکل میں واقع ہو‘ یہ کسی بھی طور ناگزیر نہیں۔ اس کی کوئی بھی شکل اور پیرایہ ہو سکتا ہے۔ سماجی معاملات بھی لین دین کی ذہنیت ہی کے تابع ہوتے ہیں تاہم اُن میں زر ناگزیر طور پر شامل نہیں ہوتا اور اس کا کوئی بالواسطہ کردار بھی نہیں ہوا کرتا۔ مثلاً اگر آپ کسی سے زیادہ ملتے ہیں تو اس کی کوئی نہ کوئی غایت ضرور ہوتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اُس کی نیک نامی آپ کو ایسا کرنے کی تحریک دیتی ہو یا پھر اُس سے مل کر آپ کو لطف آتا ہو۔ کسی شاعر کو ایسے لوگوں سے ملنے میں زیادہ لطف محسوس ہوتا ہے جو سخن فہم ہوں اور اشعار کو سمجھ کر معقول طریقے سے اور بروقت داد دیں۔
غور کیجئے تو لین دین کا اصول یا بازاری ذہنیت کوئی ایسی بری چیز بھی نہیں کہ اس کا ذکر چھڑتے ہی ناک بھوں چڑھائی جائے۔ بھری دنیا کے معاملات کا جائزہ لیجئے۔ کہیں بھی کچھ ایسا دکھائی دیتا ہے جس کی کوئی نہ کوئی غایت نہ ہو؟ ہر معاملہ کسی نہ کسی سبب کے تحت ہوتا ہے۔ یہ ناگزیر ہے۔ یہ دنیا ایسی ہی تھی اور ایسی ہی رہے گی۔ ہم زندگی بھر کسی کے لیے کچھ کرتے ہیں اور کسی سے کچھ پاتے ہیں۔ جو لوگ دنیا کے چلن میں پائی جانے والی لین دین کی ذہنیت کو برا خیال کرتے ہیں‘ ذرا وہی بتائیں کبھی انہوں نے کوئی بھی کام کسی سبب کے بغیر کیا ہے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ ہر عمل کی کوئی نہ کوئی بنیاد اور غایت ہوتی ہی ہے۔ کوئی بھی کام کسی نہ کسی مقصد کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا۔ ہم جب تک روئے ارض پر ہیں تب تک اپنے تمام معاملات کو کاروباری ذہنیت کے ساتھ ہی نپٹانا ہے۔ یہ ذہنیت کسی بھی درجے میں قبیح نہیں۔ ہاں‘ جب ہم اس ذہنیت کو زیادہ شدت اور سفاکی سے اپناتے ہیں تب معاملات خرابی کی طرف جاتے ہیں۔ تب ہم اپنے ہاتھوں اپنا ہی نقصان بھی کر بیٹھتے ہیں۔
خالص عقلی بنیاد پر سوچئے تو اندازہ ہوگا کہ ہر وہ معاملہ بالکل معقول ہے جس کی پشت پر کوئی نہ کوئی واضح مقصد ہو۔ جب ہم کوئی مقصد طے کیے بغیر کچھ کرتے ہیں تو الجھ جاتے ہیں۔ بات صرف اتنی نہیں کہ مطلوب نتائج نہیں ملتے بلکہ کبھی کبھی تو پوری محنت ضائع ہو جاتی ہے۔ ویسے کسی بھی عمل کی پشت پر کسی معقول سبب یا جواز کا نہ ہونا بجائے خود سبب اور جواز ہے! کسی بھی نوعیت اور درجے کے ماحول میں عمومی ذہنیت یہ پائی جاتی ہے کہ صرف لیتے رہیے‘ دینے کا نام نہ لیجئے۔ کچھ نہ کچھ پانے کی تمنا کرنے والے بدلے میں اُتنا ہی کچھ دینے کے لیے آسانی سے راضی نہیں ہوتے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ وصولی پر زیادہ توجہ دی جائے اور جب حسبِ ضرورت و طلب یعنی جواباً کچھ ادا کرنے کا معاملہ آئے تو پسپائی اختیار کی جائے‘ گریز پا ہوا جائے۔ انسان فطرت اور مزاج کے اعتبار سے ایسا ہی واقع ہوا ہے۔ وہ فوائد بٹورنا چاہتا ہے مگر جب کسی کو فائدہ پہنچانے کی بات آتی ہے تو وہ معاملات سے کنارہ کش ہونے لگتا ہے۔ یہ خود غرضی ہے۔ محسنؔ بھوپالی نے کہا ہے ع
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
یہ بھی اس دنیا کی ایک بدیہی حقیقت ہے کہ لوگ اچھے وقت میں ساتھ ہوتے ہیں۔ برا وقت آتے ہی لوگ ایک ایک کرکے ساتھ چھوڑتے جاتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس قدر عام ہے کہ اب کسی کو حیرت بھی نہیں ہوتی۔ یہ خود غرضی اور مطلب پرستی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب ہم صرف اپنے فائدے کے بارے میں سوچتے ہیں اور وسیع النظری کے تحت دوسروں کا بھلا کرنے کے بارے میں سوچنا یکسر ترک کر دیتے ہیں۔ کیا لین دین کی ذہنیت منفی سوچ ظاہر کرتی ہے؟ کیا معاملات کو کسی غایت اور غرض کے بغیر ہونا چاہیے؟ کیا دنیا کو لین دین کی ذہنیت سے پاک کرکے ڈھنگ سے چلایا جا سکتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب طویل بحث کے متقاضی ہیں۔ ہم جس دنیا کا حصہ ہیں اُس میں روزِ اول سے اب تک یہی سوچ یعنی لین دین کی ذہنیت کار فرما رہی ہے۔ کسی واضح مقصد‘ غرض اور غایت کے بغیر کیے جانے والے کام اہم نہیں ٹھہرتے اور اُن کے نتائج بھی مطلوب معیار پر پورے نہیں اترتے۔ جب ہم کچھ بھی کرتے وقت کسی غایت کو ذہن نشین رکھتے ہیں تب کام ڈھنگ سے ہوتا ہے اور ہمیں بھی اندازہ ہوتا ہے کہ دینا کیا ہے اور ملے گا کیا۔
اگر آپ کو ڈھنگ سے جینا ہے‘ بامقصد زندگی یقینی بنانی ہے تو اس حقیقت کو کھلے ذہن و دل کے ساتھ تسلیم کیجئے کہ کچھ لینا اور کچھ دینا پڑے گا۔ آپ انوکھے ہیں نہ کوئی اور کہ جس کے لیے یہ دنیا اپنے اصول بدلے گی۔ اصول وہی رہیں گے جو اب تک رہے ہیں۔ بدلنا ہے تو آپ کو‘ منصوبہ سازی کرنی ہے تو آپ کو۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ جب اس دنیا میں رہنا ہی ٹھہرا تو اسے دل کی گہرائی سے قبول کیجئے اور قدم قدم پر ثابت کیجئے کہ آپ اس دنیا کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں نہ کہ اس کے خلاف جانے کا ارادہ ہے۔ ہر عہد کے انسان کو دنیا سے مطابقت پیدا کرنے میں مشکلات ہی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ آج کے انسان کا بھی یہی مسئلہ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اپنی مرضی سے جیے مگر دوسروں کی مرضی کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اسی کا نام ہے کچھ دو اور کچھ لو۔ کہیں آپ کو اپنے مفاد سے کسی حد تک دست بردار ہونا پڑتا ہے اور کہیں کوئی آپ کے حق میں اپنا تھوڑا بہت مفاد چھوڑتا ہے۔ لچک کا مظاہرہ کیے جانے سے معاملات میں بہتری آتی ہے۔ ایک دوسرے کو قبول کرنے کی ذہنیت بھی اسی وقت پنپتی ہے جب ہم لین دین کے اصول کو سمجھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ہر عہد کی طرح آج بھی دنیا ہر انسان کے لیے دارالمحن ہے۔ اسے درالقرار بنانے کی بہترین صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسے اس کی تمام حقیقتوں کے ساتھ قبول کیا جائے۔ کچھ دینے کی ذہنیت اپنائیے گا تو کچھ مل سکے گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved