ہوش سنبھالا تو ایک دانا شخص سے مشورہ کیا کہ کون سا کاروبار شروع کروں۔ اس نے رائے دی کہ سانپوں کی پرورش اور ان کی افزائشِ نسل بہترین کاروبار ہے۔ سانپوں کی فروخت سے اچھی خاصی آمدنی ہو گی! دشمن بھی نزدیک نہیں آئیں گے۔ کرائے پر بھی دے سکیں گے۔ایک بار اس بزنس کے حوالے سے شہرت ہو گئی اور ساکھ جم گئی تو وارے نیارے ہو جائیں گے۔دھاک الگ بیٹھے گی۔ ارد گرد کی آبادیوں پر رعب طاری ہو گا۔علاقے میں ایک پوزیشن ہو گی۔سانپوں کی امپورٹ‘ ایکسپورٹ‘ پروڈکشن‘ پرورش‘ ڈسٹری بیوشن‘ بعد از سیل سروس‘ سب کچھ آپ کے ہاتھ میں ہو گا۔
اللہ کا نام لے کر اس کاروبار کا آغاز کیا۔شروع شروع میں سانپوں کی تعداد نصف درجن سے زیادہ نہ تھی۔ کچھ عرصہ تک تو یہ سانپ بیکار ہی رہے۔ دودھ پیتے رہے۔ چڑیاں پکڑ پکڑ کر کھاتے رہے۔ پھر میں نے کچھ گماشتے مقرر کیے جنہوں نے پروپیگنڈے کا کام خوب چابکدستی سے کیا! اب مارکیٹ میں ہمارا نام چلنے لگا۔ آرڈر آنے لگے۔ جس نے اپنے کسی پڑوسی کو اذیت دینا ہوتی‘ ہم سے سانپ کرائے پر لیتا۔ ہم رات کے حساب سے کرایہ لیتے۔ جتنی راتیں‘ اتنی رقم! اگر ایک دو دن ہی میں اس کا پڑوسی بھاگ نکلتا تو ٹھیک۔ ورنہ کئی ہفتوں کے لیے وہ سانپ رکھتا۔ ہمارے وارے نیارے ہو جاتے۔ گھروں کے علاوہ کاروباری لوگوں نے بھی سانپ لینے شروع کر دیے۔ بزنس کی دنیا میں جو مقابلے پر اترتا‘ فریق ثانی اس کے دفتر میں‘ اس کے کارخانے میں‘ اس کے گھر میں سانپ چھوڑ دیتا۔سانپ کچھ عرصہ قیام کرتے۔ انڈے دیتے۔ کسی کو کاٹتے‘ کچھ کو ڈراتے‘ یہ لوگ عاجز آکر بوریا بستر سمیٹتے اور یوں غائب ہوتے جیسے کبھی تھے ہی نہیں!
رفتہ رفتہ میری شہرت دور و نزدیک پھیل گئی۔ مجھے سانپوں والی سرکار کہا جانے لگا۔ لوگ ڈر کی وجہ سے میرا احترام کرتے اور جھک کر ملتے۔میں اب ایک وسیع و عریض علاقے میں سانپوں کا واحد ڈسٹری بیوٹر تھا۔ میرے سانپ تربیت یافتہ تھے۔ جدھر جاتے تباہی مچا دیتے۔میں نے مزید افزائش کے لیے ایک بہت بڑا فارم بنایا۔ اس کا نام اردو میں سانپ گھر اور فرنگی زبان میںSnake Farmرکھا۔ اس میں ہزاروں اقسام کے سانپ چھوڑے۔ ایسے بھی جن کا زہرآہستہ آہستہ کام کرتا ہے۔ ایسے بھی جو چند ثانیوں میں موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔کچھ ایسے بھی تھے جن میں زہر نہیں تھا مگر لمبائی اور موٹائی میں حد سے زیادہ خوفناک دکھائی دیتے تھے۔اس فارم کے ارد گرد جو زمینیں تھیں‘ ان کی خرید و فروخت میں نے ہونے ہی نہ دی۔کسی نے خرید کر گھر یا فارم بنایا تو میرے سانپوں نے اسے بھگا دیا۔ پھر میں نے سانپوں کی فرنچائز کھو لنی شروع کر دیں۔پھر میرے سانپوں کی مانگ دساور سے بھی آنے لگ گئی۔ پوری دنیامیں میرے سانپوں کی دہشت اور وحشت ضرب المثل بن گئی۔
کچھ تجربہ کار افراد میرے اس کاروبار کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ان میں کچھ میرے اعزّہ تھے اور کچھ احباب۔ مجھے اعتراف ہے کہ ان میں سے اکثر میرے خیر خواہ تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سانپ ایک دن مجھے ہی نقصان پہنچائیں گے مگر بے مثال کامیابی اور آسمان تک پہنچی ہوئی شہرت نے میرا دماغ خراب کر رکھا تھا۔ میں نے ان خیر خواہوں کی بات پر کوئی توجہ نہ دی۔اندر باہر کاروبار جاری رکھا‘ سانپوں کی ایکسپورٹ کرتا رہا۔ بلکہ میں نے ہمسایہ ملکوں میں سانپوں کی سمگلنگ بھی شروع کر دی۔ میرے تربیت یافتہ سانپ سرحدیں پار کرتے۔ تباہی مچاتے اور واپس آجا تے۔ اس بر آمدی کاروبار میں فرنچائزوں نے بھی خوب خوب کردار ادا کیا۔
پھر بساط الٹ گئی۔ جس صورت حال سے میرے خیر اندیش مجھے ڈراتے تھے‘ وہ سامنے آگئی۔ بیرونی حلقوں نے میرے سانپوں کے خلاف شور مچانا شروع کر دیا۔ آہستہ آہستہ یہ شور بلند ہوتا گیا۔ ملک کے اندر بھی حالات میرے موافق نہ رہے۔ سانپوں کی فروخت‘ سانپوں کی برآمد‘ سانپوں کی سمگلنگ‘ سب کچھ بند کرنا پڑا۔ مگر سانپوں کو تو ڈسنے کی عادت تھی۔ وہ کوئی اور کام کر ہی نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ بیکاری سے تنگ آکر انہوں نے پلٹ کر اپنے گھر ہی کو تاخت و تاراج کرنا شروع کر دیا۔یہ مکمل تباہی تھی۔ میرے فارم پر اب سانپوں کا راج تھا۔ انہوں نے میرے ملازم ہلاک کر دیے۔ میرے گھر والے خوف کے مارے بھاگ گئے۔ فرنچائز والوں نے کھل کر اعلان کرنے شروع کر دیے کہ ان کے کاروبار کی پشت پر بھی اصل کردار میرا ہی تھا۔ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہا۔سانپ اپنے اپنے ٹھکانوں سے نکلے اور میرے گھر‘ میرے میدان‘ غرض ہر جگہ دندنانے لگے۔میں تباہ ہو گیا۔ میں برباد ہو گیا۔ اب کفِ افسوس ملتا ہوں مگر پچھتاوا لا حاصل ہے۔ دور دور تک کوئی جائے پناہ نہیں دکھا ئی دے رہی۔ کاش میں یہ سانپ نہ پالتا اور ان خیر خواہوں کی نصیحت پر کان دھرتا جو اس دن سے ڈراتے تھے۔ اب میں ایک کونے میں چھپ کر بیٹھا ہوں۔ نشانِ عبرت ہوں اور اپنی شکست کی آواز ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر طرف وحشیوں اور عفریتوں کی طرح دندناتے ان سانپوں کو کیسے قابو کروں۔اُس وقت میں مہلک سے مہلک سانپ پالتا تھا کیونکہ دوسروں کو نشانہ بنانا تھا۔ آج میں خود‘ میرا گھر‘ میری املاک‘ میری تنصیبات‘ ان مہلک ترین سانپوں کا نشانہ ہیں۔ میں نشان عبرت ہوں۔
دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
معاملے کا المناک ترین پہلو یہ ہے کہ آج مجھ سے ہمدردی کرنے والا کوئی نہیں! کچھ مجھ پر ہنستے ہیں۔ کچھ مجھے دیکھ کر منہ پھیر لیتے ہیں۔ کچھ مجھے خوار و زبوں دیکھ کر کڑھتے ہیں اور آہ بھر کر کہتے ہیں افسوس! اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔ مگر کسی کے پاس اس مصیبت کا حل کوئی نہیں! خدا وہ وقت نہ لائے کہ یہ سانپ مجھے ہی ختم کر دیں! اب میں عملاً ایک جنگل میں رہ رہا ہوں۔ کوئی قانون ہے یہاں نہ ضابطہ! ہر طرف سانپ ہی سانپ ہیں۔ کچھ کنڈلی مار ے بیٹھے ہیں۔ کچھ جھاڑیوں میں سرسرا رہے ہیں۔ کچھ پھن لہرائے ادھر اُدھر دیکھ رہے ہیں جیسے شکار کی تلاش میں ہوں۔ کچھ گروہوں کی صورت پھر رہے ہیں جیسے انہی کی حکومت ہو۔ کچھ انڈوں پر بیٹھے ہیں اور افزائش نسل پر تُلے ہیں۔ سنیاسیوں کو بلایا‘ جوگیوں سے مشورہ کیا۔ سپیروں کو فیسیں دیں مگر یہ سانپ کسی کے قابو میں آنے والے نہیں۔ سب یہی کہتے ہیں کہ جو سانپ اپنے پالے ہوئے ہوں‘ انہیں کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہو تا!
خدا ہی کو معلوم ہے کہ میرا انجام کیا ہو گا! میں آج سراپا ندامت ہوں۔ مگر کچھ کر نہیں سکتا! ہاں! میں تماشا دیکھنے والوں کو وارننگ ضرور دے سکتا ہوں کہ مجھ سے عبرت پکڑیں۔ اپنے صحن میں سانپ پالتے وقت یہ نہ سوچیں کہ یہ صرف پڑوسیوں کو ڈسیں گے۔انہیں جتنا دودھ پلائیں گے یہ دودھ پلانے والوں کو اتنا ہی نقصان پہنچائیں گے! رہا میں! تو میرا حال بقول جوش:
نیرنگیٔ زمانہ کو دیکھو کہ آج کل
خود اپنے ہی لہو میں نہائے ہوئے ہیں ہم
دشمن بھی جس کو دیکھ کے دل میں اداس ہیں
اس طرح '' دوستوں‘‘ کے ستائے ہوئے ہیں ہم
جس کو اس آسمان پہ رکھ دیں تو چیخ اٹھے
شانوں پہ وہ پہاڑ اٹھائے ہوئے ہیں ہم
یہ بھی عجب طلسم ہے اے دورِ زندگی
اپنوں کی انجمن میں پرائے ہوئے ہیں ہم
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved