یہ بھی کمالِ ہنر ہے‘ہم نے انگریزی کا یہ محاورہ صرف الٹایا نہیں بلکہ پلٹا بھی دیا۔ اوجِ کمال یہ کہ دنیا کو کانوں کان خبر تک نہ ہونے دی۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہم نے پچھلے ایک ہفتے سے آئین کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی کہ اُس کا آرٹیکل نمبر 19-A جبری رخصت پر گرمیوں کی چھٹی کاٹ رہا ہے۔1973ء کے آئین میں دیے گئے اس بنیادی حق کی گمشدگی کی اطلاع خود آئین ان الفاظ میں دے رہا ہے:
19-A. Right to information. -Every Citizen shall have the right to have access to the information in all matters of public improtance, subject to regulation and reasonable restrictions imposed by law.
اگر ہم فی الحال آئین کے آرٹیکل نمبر 19کو بھول جائیں‘ جس میں ہر شہری کو یہ گارنٹی دی گئی ہے کہ اُسے لازمی طور پر فریڈم آف سپیچ اور اپنی رائے کے اظہار اور لازمی طور پر پریس یعنی ہر طرح کے میڈیا کو بولنے کی آزادی ہوگی‘ تب بھی آئین کا جبری گمشدہ آرٹیکل19اے تین طرح کی آزادیاں میڈیاسمیت اسے دیکھنے‘سننے‘پڑھنے والے ہر شہری کو گارنٹی کرتاہے۔ ان میں سے پہلا بنیادی حق: آرٹیکل 19کے تحت ریاستِ پاکستان نے اپنے شہریوں سے یہ تحریری عمرانی معاہدہ(Social Contract) کر رکھا ہے کہ انہیں ہر حال میں‘ہر طرح کی Information (معلومات) تک مکمل رسائی حاصل ہوگی(ماسوائے آفیشل سیکرٹ ایکٹ‘ مجریہ 1923ء کے زمرے میں آنے والی سرکاری معلومات اور کاغذات کے)۔
دوسرا بنیادی حق:اس آئینی حق کے تحت عوامی نوعیت کے تمام معاملات میں ہرشہری کو معلومات تک رسائی دینے کی گارنٹی شامل کی گئی ہے۔
تیسرا بنیادی حق: معلومات تک رسائی کے لیے باقاعدہ قانون بنایا جائے گا جواَب بن چکا ہے۔آپ اسے خود بھی Googleکر کے دیکھ سکتے ہیں Right of Access to Information Act, 2017۔ اس حق کو شہریوں کے دروازے تک پہنچانے کیلئے آئین کی منشا کے مطابق طریقۂ کار بھی قانون میں لکھ دیا گیا ہے جسے Regulation کہتے ہیں۔ پچھلا وکالت نامہ لکھتے لکھتے سپریم کورٹ جانا پڑ گیا تھا اور آج کا وکالت نامہ یہاں پہنچا تو اسلام آباد ہائی کورٹ جانا ضروری ٹھہرا‘ جہاں پہلے حج آرگنائزر پرائیویٹ کمپنیوں کی وکالت کی۔ اچھے حکمرانوں کی شفاف پالیسی کی وجہ سے سات ہزار حاجیوں کا کوٹہ سعودی عرب کو واپس کر دیا گیا ہے۔ ایک ہزار 700 حاجیوں کا کوٹہ اب بھی موجود ہے مگر HGO کمپنیوں کو کوٹہ دینے سے حکومت انکاری ہے‘جس کی وجہ آپ سمجھ سکتے ہیں۔ جمعہ کے روز عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے سامنے پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا جہاں اُن کے مقدمات ایک ڈویژن بینچ سے ٹرانسفر ہو کر ایک اور ڈویژن اور دوسنگل بینچز کے جج صاحبان نے سنے۔ سماعت کا یہ سلسلہ ساڑھے پانچ بجے تک جاری رہا۔ آپ جاننا چاہتے ہوں گے پھر کیا ہوا؟ پھر وہی ہوا جو پچھلے 75سال سے ہوتا آیا ہے۔ شام ڈھلے اسلام آباد ہائیکورٹ کی دیوار کے باہر وقفے وقفے سے فائرنگ شروع ہو گئی‘ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں مسلح اہلکاروں‘ IG سے لے کر Foot constable تک کی حاضری کے دوران فائرنگ کون کر سکتاہے؟ یہ بھی آپ جانتے ہیں۔
اس سے پہلے تقریباً1:30 پراطلاع ملی کہ سوموار کے دن عدالتیں کھلنے سے پہلے اور اسلام آباد ہائی کورٹ بند ہونے کے بعد حکومت کیا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ہم نے مشورہ کیا اور مجھے عمران خان نے کہا کہ آپ ہائی کورٹ کے باہر جا کر انٹرنیشنل پریس کو تازہ معلومات بیان کر دیں۔اس کے بعد جو ہوتا رہا اُس پر سخت کنٹرول تھا‘اس کے باوجود میڈیا نے ہمت نہ ہاری اور لوگوں کو معلومات تک رسائی دیتے رہے۔پھر ایک ایسا مرحلہ آ گیا جب بکھرے ہوئے‘غصے اورالم سے بھرے ہوئے لوگوں کا آتش فشاں سوشل میڈیا پر پھٹ پڑا۔ میں نے پاکستان تحریک ِ انصاف کی تھوڑی سی لیڈر شپ‘ جو ابھی تک قید نہیں ہوئی‘ اُس سے مشور ہ کیا اور صدرِ پاکستان سے رابطہ کر لیا۔ میں پھر میڈیا سے مخاطب ہوا اور سارے ریاستی اداروں کو ہوش کے ناخن لینے کی درخواست کی اور کہا کہ انارکی اور امن کے درمیان کھڑی دیوارِ چین کو نہ گرایا جائے۔ عمران خان مسلسل کہتے چلے آئے تھے کہ لوگ میرے کنٹرول سے نکلے تو اُنہیں کوئی نہیں روک سکے گا کیونکہ ہم لاکھوں کی ریلیاں اور میلینز کے جلسے کر کے لوگوں کو پُرامن طریقے سے گھر بھجوانے والے ہیں‘مگرسیاسی مردے آخری کِریا کرم تک جانے کیلئے بے چین تھے؛ چنانچہ فیصلہ ہوا اور عمران خان نے وڈیو پیغام پر اعلا ن کیا کہ اگر 15منٹ میں دروازے کھول کر اُنہیں گھرجانے کا راستہ نہ دیا گیا تو وہ قوم سے پُرامن احتجاج کی اپیل کریں گے۔ اگلے پانچ منٹ میں شہباز حکومت کے بیان کردہ سارے سکیورٹی خطرات ختم ہو گئے اور عمران خان زمان پارک گھر واپسی کے سفر پر روانہ ہوئے۔
اسی رات ایک اور میٹنگ بھی ہوئی جہاں اسلام آباد ہائیکورٹ پلان کے فیل ہونے پر متبادل منصوبہ بنا۔منصوبہ سازنے ڈبل میم کی ڈیوٹیاں لگائیں کہ اچھے شر پسنداکٹھے کرو‘ پنجاب ہائوس‘ KP ہائوس سے بریانی کی دیگیں لائیں گے اور ریاست کے خلاف ریاست احتجاج کرے گی۔سپریم کورٹ ریاست کی اہم رکن ہے۔مولانا‘ مریم دونوں PDMکے سیلابِ اقتدار میں ناک تک ڈوبے ہوئے ہیں۔ قوم پرست‘ نیشنلسٹ‘ سوشلسٹ شرکائے حکومت '' رینٹ اے کرائوڈ‘‘میں شامل ہو کر ریاست کی ایگزیکٹو جوڈیشل اتھارٹی کو آئینی مقدمہ سننے سے روکیں گے۔ بس یہی سوال جواب طلب ہے‘ اسلام آباد میں 13ماہ سے نافذ شدہ دفعہ 144اور پچھلے ہفتے سے لاگو شدہ آئین کا آرٹیکل 245 جس کے تحت اسلام آباد کا شہر فوج کے حوالے ہو چکا ہے‘ ظاہر ہے یہ فوج اور پولیس بھی ریاست ہیں‘ ان قوانین کے بعد اسلام آباد میں سینکڑوں مرد‘ خواتین‘ بچے‘ ڈاکٹرز اپنی ہڈیاں تڑوا کر گرفتارہو چکے ہیں۔ یہ سب برے شر پسند تھے اس لیے انہیں نہ ریلی کی اجازت ملی‘ نہ سڑک پر نکل کر کھڑا ہونے کی‘ دھرنا اور جلسہ تو دور کی بات ہے۔صرف PTI کیلئے ہر احتجاج کی کال کے بعد کروڑوں‘اربوں روپے کے اشتہار ات چلتے ہیں جس میں قوم کو بتایا جاتا ہے کہ باہر نکلنے والے برے شر پسند ہیں انہیں گھسیٹنا‘ اُن کی گاڑیوں کو آگ لگانا‘ اُن کی موٹر بائیک توڑنا اور اُن پر بارود برسانا‘ اسلام آباد میں اچھی حکمرانی اور امن کے لیے ضروری ہے۔اسی ریاست کے اسی شہر میں ریاست خوداچھے شر پسندوں کو سرکاری پروٹوکول اور سرپرستی میں ریڈ زون کے اندر لائے گی۔ ظاہر ہے ریڈ زون کے اندر سپریم کورٹ جانے والے وکلا اورججز کے علاوہ باقی ریاست کو دھرنے سے کیا خطرہ ہے؟ آج جسٹس اعجاز الاحسن صاحب کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے فُل بینچ کے سامنے میں نے بھی ایک مقدمہ میں پیش ہونا ہے۔شام ڈھلے شاہراہ دستور/ریڈزون جہاں ہر قسم کے اجتماع پر نواز حکومت کی خواہش اور درخواست کے مطابق سپریم کورٹ نے پابندی لگا رکھی ہے وہاں مولانا کے پرائیویٹ لشکر نے احتجاج کی تیاریوں کاجائزہ لیا۔ ریاست انصاف کے ریاستی ادارے کے ساتھ ہے یا نہیں‘ آج طے ہو گا۔
انگریزی کا محاورہ تھاقبرستان Indispensable(ناگزیر) لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں۔ ہماری ریاست کے سارے ناکام محکموں اور اداروں میںایسی ہی قبرستانی مخلوق دوسری‘تیسری اور چوتھی نوکری لے کر65فیصد ایلفا جنریشن کا راستہ روکے کھڑی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved