تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     15-05-2023

سیاست اور سپریم کورٹ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو غیرقانونی دیتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا حکم دیتے ہوئے اور ان کو عدلیہ کا مہمان قرار دے کر ملزم کی عزت افزائی کی نئی روایت قائم کی ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے عمران خان کو روسٹرم پر بلا کر مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی‘ گیسٹ ہاؤس میں تین کمرے ہیں‘گپ شپ لگائیے‘ سکون کے ساتھ سو جائیں اور صبح اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہو جائیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ تسلیم کر لینا۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے مزید کہا کہ خاندان کے چھ ارکان سمیت دس افراد کو ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ اس فیصلے کی روشنی میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ نے گیسٹ ہاؤس میں عمران خان سے ملاقات کی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے عمران خان کی متعدد مقدمات میں عبوری ضمانت اور 18 مئی تک گرفتار نہ کرنے کا حکم آ گیا۔ توشہ خانہ کیس میں آٹھ جون تک حکم امتناع‘ القادر ٹرسٹ کیس میں دو ہفتوں کے لیے عبوری ضمانت اورکسی نئے مقدمہ میں گرفتار نہ کرنے کا حکم‘ پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ میں ایسی مثال شاید ماضی میں نہیں ملتی۔عمران خان کو عدالتوں سے ملنے والے اس ریلیف پر عوام اورپاکستانی اداروں کو ناقابلِ تلافی تکلیف‘ دکھ اور رنج کا سبب سمجھا جارہا ہے اور یہ محسوس کیا جاتا ہے کہ اضطراب کی شدید لہر دوڑ گئی ہے۔ پاکستان کی افواج کے جوانوں کو پہلے ہی شدید مشکلات کا سامنا ہے اور جو پالیسی جنرل ضیا الحق نے اپنے اقتدار کی طوالت کے لیے 1980ء میں اپنائی تھی اس کے ثمرات سے فوج متاثر رہی اور ملک دہشت گردی کی دلدل میں پھنستا چلا گیا۔ سیاسی اور ریاستی حلقے عمران خان کے لیے اعلیٰ عدلیہ کے غیر معمولی طرزِ عمل سے بھی ورطۂ حیرت میں مبتلا ہیں۔ عدالتِ عظمیٰ اور عدالت عالیہ نے نو مئی کے تاریک دن پر کسی قسم کے مذمتی ریمارکس بھی نہیں دیے‘ اس طرح عوامی جذبات کو زک پہنچی ہے۔ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنے والی افواج کو ایک شخص کی انا اور خودغرضی پر قربان کر دینا کسی صورت مناسب نہیں۔دفاعی تنصیبات‘ عمارتوں اورجناح ہاؤس کو شرپسندوں نے نذرِ آتش کر دیا اور اعلیٰ عدالتوں نے عمران خان سے بازپرس بھی نہیں کی۔ محض علامتی طور پر عمران خان سے معمولی سی درخواست کی کہ وہ افسوس کا اظہار کریں‘ لیکن عمران خان نے یہ بھی نہیں کیا بلکہ طنزیہ مسکراتے رہے۔ بعد ازاں کمرۂ عدالت کے باہر میڈیا کے نمائندوں کے اصرار کے باوجود عمران خان نے ان واقعات کی مذمت نہیں کی۔ انہوں نے افسوس کا اظہار بھی نہیں کیا۔
نو مئی کا دن شاندار تاریخ رکھنے والی پاکستانی افواج کے لیے 16 دسمبر 1971ء کے بعد ایک سیاہ ترین دن تھا۔ اس سے ریاست کے حامیوں کے دل مجروح ہو ئے ہیں کیونکہ جناح ہاؤس اور دیگر سول اور عسکری عمارتوں کو نذرِ آتش کرنے والے ایک پارٹی کے حامی‘ ورکر اور پیروکار تھے اور بعض کا تعلق ریٹائرڈعسکری حلقوں سے بھی بتایا جاتا ہے۔ جناح ہاؤس لاہور کو نذرِ آتش کرتے ہوئے جن خواتین نے سیڑھی لگاتے ہوئے بالائی منزل کو آگ لگوائی ان میں بعض اہم خواتین کا تعلق ایک اہم شخصیت سے بتایا جا رہا ہے۔
وفاقی حکومت اپنے اتحادیوں کہ وجہ سے فیصلہ کرنے میں مشکلات سے دوچار ہے کیونکہ اتحادی جماعتوں کے اپنے اپنے مقاصد اور مفادات ہیں‘ لہٰذا جن افراد نے افواج کی حرمت اور تقدس پر حملہ کیا ہے ان کے مقدمے آرمی ایکٹ 15 اور 54 کے تحت فوجی عدالتوں میں کورٹ مارشل کی طرز پر چلائے جانے چاہئیں۔ زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے وفاقی حکومت فوجی عدالتیں قائم کر سکتی ہے۔ ان حالات میں مقامی عدالتوں پر انحصار کرنے کے بجائے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کو عبوری ضمانتوں پر رہا کیا گیا ہے لیکن ان کے خلاف جو مقدمات زیرسماعت ہیں انہیں ان سے رہائی نہیں ملی۔ اس صورتحال کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ بھی ہے کہ عدالتِ عظمیٰ اور عدالت عالیہ نے ملک کو آگ اور خون اور ہنگامہ آرائی سے محفوظ رکھنے کے لیے اورریاست اور عسکری مفادات میں حکمت عملی کے تحت عمران خان کو عبوری ریلیف دے کر ریاست کو مزید ہنگامہ آرائی سے محفوظ کر لیا اور جب ان کے خلاف عدالتوں میں مقدمات چلیں گے تو آئین و قانون کے مطابق فیصلے ہو جائیں گے۔
اندرونی طور پر یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ عمران خان اپنی گرفتاری اور مستقبل کے خدشات کو محسوس کررہے ہیں اور انہوں نے اپنی پارٹی کی جانشینی کے لیے محترمہ بشریٰ بیگم کا انتخاب کر لیا ہے۔ اگر عدالتوں سے ان کو مقدمات میں طویل سزا سنائی جاتی ہے یا نااہل قرار دیا جاتا ہے تو پھر مستقبل کی چیئرپرسن بشریٰ بیگم ہو سکتی ہیں اور پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار ہی ہوں گے۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن نے آئندہ ہفتے کے مقدمات کی کاز لسٹ جاری کردی جس میں عمران خان‘فواد چودھری اور اسد عمر کے خلاف توہینِ الیکشن کمیشن کے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کئے گئے ہیں۔پی ٹی آئی قیادت کے خلاف توہین الیکشن کمیشن کیسز کی سماعت 16 مئی کو ہوگی اور پی ٹی آئی ممنوعہ فنڈنگ کیس کی سماعت بھی 16 مئی ہی کو ہوگی‘ لیکن اس سے قبل 14مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات منعقد کروانے سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست آج بروز پیر سماعت کیلئے مقرر کی گئی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی خصوصی بنچ اس کیس کی سماعت کرے گا۔ الیکشن کمیشن نے اپنی نظر ثانی درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ آئین کے تحت سپریم کورٹ الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار نہیں رکھتی۔ایک طرف سپریم کورٹ میں یہ اہم ترین مقدمہ زیر سماعت ہو گا اوردوسری جانب پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کا اعلان کر رکھا ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کو سپریم کورٹ کے باہر احتجاج کی دعوت دی ہے‘تاہم وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے گزشتہ روز کہا تھاکہ انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے احتجاج ریڈ زون سے باہر کرنے کی درخواست کی ہے۔رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم احتجاج ریڈ زون یا شاہراہ دستور پر ہوتا ہے تو اسے کنٹرول کرنا کافی مشکل ہوگا۔وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جس طرح چیف جسٹس اور تین رکنی بینچ فیصلے کر رہا ہے‘ لوگوں کو غصہ ہے اور لوگ بڑی تعداد میں احتجاج میں آنا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے درخواست کی ہے مولانا احتجاج ریڈ زون سے باہر کریں۔تادم تحریر اس حوالے سے کچھ سامنے نہیں آیا کہ مولانا فضل الرحمان حکومت کی اس تجویز پر احتجاجی جلسے کا مقام تبدیل کرتے ہیں یا سپریم کورٹ کے سامنے ہی احتجاج کے مؤقف پر قائم ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved