ایک ہی بات کئی طریقوں سے کہی جاسکتی ہے۔ کوئی نہ ماننے پر بضد ہو تو اور بات ہے وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں جتنا بھی فساد پایا جاتا ہے سب کا سب اندازِ بیاں کی نوعیت کا پیدا کردہ ہے۔ ایک ہی بات شائستہ انداز سے بیان کی جائے تو خوشگوار تاثر چھوڑتی ہے اور اگر اُسی بات کو بے ڈھنگے انداز سے کہا جائے تو دیکھتے ہی دیکھتے معاملات ہاتھا پائی اور مار کٹائی تک پہنچ جاتے ہیں۔ کوئی الفاظ کو کس طور برتتا ہے، اپنی بات کس طریق سے بیان کرتا ہے اِسی کی اہمیت ہے۔ اگر سوچے سمجھے بغیر بولنا جاری رکھا جائے تو اچھی خاصی بات بھی بہت بُرے یا ناپسندیدہ نتائج پیدا کرکے دم لیتی ہے۔
کیا آپ نے کبھی اِس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ کبھی کبھی الفاظ کا انتخاب معاملات کو کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے۔ ''آپ کے والد آرہے ہیں‘‘ اور ''تیرا باپ آ رہا ہے‘‘ کا فرق تو کوئی بھی محسوس کرسکتا ہے۔ بات ایک ہی ہے مگر پہلے جملے میں پوری تہذیب بول رہی ہے جبکہ دوسرے جملے میں ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی لٹھ مار رہا ہے۔ کسی بھی معاملے کو بیان کرتے وقت احتیاط نہ برتنے سے اور الفاظ کے انتخابات میں دانستہ یا نادانستہ ڈنڈی مارنے سے وہی فرق پیدا ہوتا ہے جو ''آپ کے والد‘‘ اور ''تیرا باپ‘‘ کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اِس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ گفتگو کا انداز محفل کا رنگ دیکھ کر اختیار کیا جاتا ہے۔ جہاں سلجھے ہوئے لوگ بیٹھے ہوں وہاں سنبھل کر بولنا پڑتا ہے۔ ایسے میں الفاظ کا انتخاب غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ کسی کو آپ کے بارے میں کوئی ٹھوس اندازہ قائم کرنا ہے تو سب سے پہلے وہ آپ کی طرزِ گفتگو کا جائزہ لے گا، آپ کو آپ کے الفاظ کے آئینے اور تناظر میں پرکھے گا اور اِس کے بعد ہی وہ آپ کے مجموعی مزاج یا رویے کے بارے میں کوئی رائے قائم کرنے کی پوزیشن میں آسکے گا۔
الفاظ کی طاقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ قرآنِ حکیم اِس کی جیتی جاگتی مثال ہے۔ اللہ تعالیٰ کا کلام الفاظ ہی پر تو مبنی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام اور اُن کی حکمت الفاظ کے ذریعے ہی بیان کی گئی ہے۔ قرآنی آیات کے مفہوم یا مفاہیم پر غور کرنے سے پہلے ہمیں اِس حقیقت پر بھی تو غور کرنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی جگہ کوئی خاص لفظ کیوں استعمال کیا، کوئی اور لفظ کیوں استعمال نہیں کیا اور یہ کہ جہاں بھی جو لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ اپنا جامع ترین استعمال ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلام کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ کسی لفظ کی جگہ کوئی اور لفظ سوچیے تو بیان و مفہوم کا حق ادا نہیں ہو پاتا۔ خالقِ دو جہاں کی طرف سے قرآنِ مجید کی شکل میں جو کچھ بھی عطا کیا گیا ہے وہ اپنے محل اور مفہوم کے اعتبار سے جامع ترین ہے۔ ہم قرآنِ حکیم کے زبان و بیان سے اپنی زندگی کا معیار بلند کرنے کے بارے میں بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اہلِ علم قرآنِ مجید کو سمجھنے کی خواہش رکھنے والوں کو سب سے پہلے کارگر سطح تک عربی سیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اور اگر کوئی عربی زبان و ادب کی گہرائیوں میں اُترنے کے لیے تیار ہو تو کیا کہنے۔ تب ہر لفظ کے استعمال کا محل بھی سمجھ میں آسکتا ہے اور حکمت بھی۔
ہم یومیہ گفتگو میں ایسا بہت کچھ بول جاتے ہیں جو معاملات کو خراب کرتا ہے۔ کبھی ہم جذباتیت سے مغلوب ہوکر کسی کو سخت سست سُنادیتے ہیں جبکہ اِس کی ضرورت ہوتی ہے نہ گنجائش۔ اِس کا نتیجہ؟ صرف خرابی، اور کیا؟ روزمرہ گفتگو میں ہماری زبان سے ایسے الفاظ ادا ہو ہی جاتے ہیں جو کسی کی نظر میں پسندیدہ نہیں ہوتے اور خود ہم بھی جب بعد میں غور کرتے ہیں تو اپنی حماقت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ گفتگو کے دوران جذبات کو ایک طرف رکھ کر معقولیت کا دامن تھامے رہیے تو ناپسندیدہ الفاظ اور لہجے سے بچا جاسکتا ہے۔ محض طیش میں آکر کچھ بھی بول دینا موقف بیان کرنا نہیں ہوتا۔ یہ تو جہلا کا شغف ہے۔ عقلِ سلیم کا تقاضا ہے کہ انسان جب بھی لب کُشا ہو تو پہلے طے کرلے کہ بولنا کیا ہے اور کس طرح بولنا ہے۔ محض الفاظ ادا کردینے کو بیان یا حسنِ بیان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ کام تو کوئی بھی کرسکتا ہے۔ پھر بولنے اور اچھا بولنے کی بحث کیوں؟ کیا ہم اِس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ الفاظ میں بہت طاقت ہوتی ہے؟ الفاظ ہی شخصیت کے رُخ کا تعین کرتے ہیں۔ ہم گفتگو بغور سُن کر الفاظ کے انتخاب کا تجزیہ کرکے ہی اندازہ لگاتے ہیں کہ کوئی کتنے پانی میں ہے اور اُس کا مجموعی مزاج ہے کیا۔ ہم جو کچھ سوچتے اور کہتے ہیں وہ سب کا سب نیا نہیں ہوتا۔ بہت سے پُرانے خیالات کو نئے انداز سے پیش کرکے بھی داد سمیٹی جاسکتی ہے۔ سیف الدین سیفؔ مرحوم نے کہا تھا ؎
سیفؔ! اندازِ بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دُنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
ناول اور افسانے پڑھیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی بھی کہانی اپنی اصل میں نئی نہیں ہوتی۔ سبھی کچھ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے۔ فرق اگر پیدا ہوتا ہے تو کہانی کو بیان کرنے کے انداز سے۔ مصنف کی محنت بتاتی ہے کہ بات کو نئے انداز سے بیان کیا گیا ہے اور یہ نیا انداز قابلِ قبول ہے۔ کبھی کبھی ایک کہانی پر کئی ناول لکھے جاتے ہیں یا کئی فلمیں بنائی جاتی ہیں؛ تاہم کامیاب وہی ہو پاتی ہے جس میں کہانی اچھوتے انداز سے بیان کی گئی ہو، کچھ جدت آزمائی گئی ہو۔ مکالمے کیا ہیں؟ الفاظ کا مجموعہ۔ کبھی کبھی چند جملے کسی ناول یا فلم کو مقبولیت سے ہم کنار کردیتے ہیں۔
دنیا میں جو کچھ بھی دکھائی دیتا ہے وہ صرف بیان کا فرق ہے۔ کسی بھی شعبے کا علم الفاظ ہی کی مدد سے بیان ہوتا ہے۔ اگر کسی نے اچھی تحقیق کی ہو مگر بیان کرنے کی مہارت کا حامل نہ ہو تو لوگ اُس کا موقف آسانی سے قبول نہیں کرتے۔ بہتر تو یہ ہے کہ وہ خود اپنی بات ڈھنگ سے بیان کرے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کسی کی خدمات حاصل کرے، اپنی بات اُسے سمجھائے اور وہ اُس بات کو ڈھنگ سے بیان کرے تاکہ پڑھنے والوں کو محقق کی محنت کا اندازہ ہو اور اُس کے موقف سے واقف بھی ہو جائے۔ کسی بھی طالبِ علم کی ساری محنت، مہارت اور رجحان کا اندازہ ممتحن (یعنی امتحانی کاپی چیک کرنے والے) کو کس طور ہوسکتا ہے؟ جو کچھ لکھا گیا ہے اُسی کا جائزہ لینے سے، اور کیا؟ کسی بھی طالبِ علم کو جتنے بھی مارکس ملتے ہیں وہ امتحانی کاپی میں درج مواد کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ اگر مواد ڈھنگ سے پیش کیا گیا ہو تو زیادہ مارکس ملتے ہیں۔ کوئی معقول بات بے ڈھنگے انداز سے بیان کی گئی ہو تو ممتحن زیادہ مارکس دینے سے خود کو معذور پائے گا۔ اگر اُسے اندازہ ہو جائے کہ طالب علم نفسِ مضمون کو سمجھنے میں کامیاب ہوچکا ہے تب بھی وہ کاپی میں بات کو ڈھنگ سے بیان نہ کیے جانے کی صورت میں زیادہ مارکس نہ دے سکے گا۔
روزمرہ گفتگو کس طور کرنی ہے، کوئی بھی نکتہ مؤثر طور پر کس طرح بیان کرنا ہے یہ سب کچھ سیکھا اور سکھایا جاسکتا ہے۔ جن گھرانوں میں زبان و بیان کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے اُن میں بچوں کو گفتگو کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔ یہ تربیت اُن کی زندگی سنوارنے کا فریضہ انجام دیتی ہے۔ کاروباری گھرانے بھی اپنے بچوں کو ڈھنگ سے بولنا سکھاتے ہیں تاکہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھیں تو ڈھنگ سے بات کریں اور معاملات کو اپنے حق میں کرنے میں کامیاب رہیں۔ سوچنے اور بولنے کے حوالے سے بچوں کی تربیت پر صرف جہلا ہی دھیان نہیں دیتے۔ بولتے وقت یہ نکتہ ذہن نشین رکھیے کہ محض بیان کافی نہیں، لوگ حسنِ بیان کے متلاشی رہتے ہیں۔ جو اچھا بول سکتا ہے وہ کامیاب رہتا ہے۔ لوگ اُس کی طرف زیادہ اور تیزی سے جھکتے ہیں۔ زندگی ہم سے قدم قدم پر حسنِ تکلم کا تقاضا کرتی ہے۔ بات کی جائے تو یوں کی جائے کہ بیان کا حق ادا ہو جائے۔ ''آپ کے والد‘‘ کہنے سے آپ پسندیدہ قرار پائیں گے۔ ''تیرا باپ‘‘ کہنے سے حقیقت تو بیان ہو جائے گی؛ تاہم آپ کا وجود قبولیت کے درجے سے تھوڑا پیچھے ہی رہ جائے گا۔ ناپ تول کر بولنے پر توجہ دیتے رہیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved