تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     16-05-2023

درمیانی راستے کی تلاش!

اس وقت ملک میں انتخابات کا انعقاد سب سے زیادہ زیرِ بحث مسئلہ ہے۔ انتخابات کب ہونے چاہئیں؟ تو جواب ہے اپنے وقت پر۔ سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات کا وقت آ چکا یا آ کر گزر بھی چکا ہے؟ تو اس سوال کا جواب ہے نہیں۔ اگر اسمبلی کی آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے کسی نے سیاسی فائدے کے لیے اسمبلیاں تحلیل کر دی ہیں تو دوسروں کو مورد الزام کیوں ٹھہرایا جا رہا ہے؟ اگست میں اسمبلی کی آئینی مدت پوری رہی ہے‘ اس کے بعد نوے روز کا وقت ہوتا ہے‘ اس لیے جب انتخابات کا وقت آیا ہی نہیں تو انتخابات کے انعقاد پر اصرار کیوں؟ انتخابات وقت کی ضرورت ہیں اور یہ بہرصورت ہونے ہیں لیکن اس وقت سیاسی جماعتوں کو یکساں لیول پلینگ فیلڈ میسر نہیں۔ نواز شریف میدان سے باہر ہیں۔ خان صاحب انتخابات کے انعقاد پر مُصر ہیں کیونکہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ انتخابات میں کامیابی کے لیے ان کے پاس یہ بہترین وقت ہے۔ عدلیہ نواز شریف کو ریلیف دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ جو رعایت نواز شریف کے مخالفین کو مل رہی ہے اس کا عشر عشیر بھی نواز شریف کو نہیں ملا۔ 60ارب روپے کی مبینہ کرپشن کا مقدمہ چند گھنٹوں میں حل ہوجاتا ہے مگر اقامہ کی تاحیات نااہلی کی سزا ختم نہیں ہو رہی۔ خان صاحب نواز شریف کو میدان سے باہر رکھ کر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ خان صاحب اس لیے جلدی میں ہیں کیونکہ نواز شریف کے آتے ہی انتخابی مہم کا نقشہ بدل سکتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو خان صاحب اور پی ٹی آئی کی مقبولیت کے پیچھے اصل کہانی نواز شریف کی واپسی کا خوف ہے۔ 2018ء میں خان صاحب کو جو سہولت حاصل تھی‘ اس بار بھی فراہم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ پرانے سہولت کار کسی نہ کسی شکل میں اب بھی موجود ہیں۔ آثار بتا رہے ہیں کہ 2018ء کی تاریخ کو نئے سہولت کاروں کے ذریعے دہرائے جانے کا امکان ہے۔
الیکشن کمیشن نے 14مئی کو انتخابات کرانے کے حکم پر نظرثانی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر رکھی ہے جس پر گزشتہ روز سماعت ہوئی۔ امید کی جا رہی تھی کہ اس حوالے سے کوئی بڑا فیصلہ دیا جائے گا جس میں وزیراعظم اور اہم وفاقی وزرا نااہل بھی ہو سکتے ہیں مگر سپریم کورٹ نے اس امید کے ساتھ مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کا مشورہ دیا کہ شاید موجودہ کشیدگی کے خاتمے کا کوئی سیاسی حل نکل آئے۔ معززچیف جسٹس صاحب نے اداروں کی تذلیل‘ تنصیبات کو جلانے اور حالیہ ناخوشگوار واقعات پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ مذاکرات کو دوبارہ موقع دینے کی وجہ شاید ملکی حالات ہیں جس سے عدالتِ عظمیٰ لاتعلق نہیں رہ سکتی حالانکہ اس سے قبل قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ عدالتِ عظمیٰ اپنے فیصلے کو واپس لے گی اور نہ مزید مہلت دے گی۔ عدالتِ عظمیٰ نے مگر ایک اور موقع فراہم کیا ہے۔ کیا اہلِ سیاست اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے یا معاملات مزید کشیدگی کی طرف جائیں گے؟
حالات یہی بتا رہے ہیں کہ اگر مذاکرات کامیاب نہیں ہوتے ہیں تو حکومت کو کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔مگر نااہلی کا فیصلہ آنے کے بعد صورتحال گمبھیر ہو سکتی ہے۔ ایسے کسی فیصلے کی صورت میں جو بحران سر اٹھا سکتا ہے‘ کیا ملک اس کا متحمل ہو سکتا ہے؟ کیا کسی فیصلے کے نتیجے میں انتخابات کا انعقاد اس قدر آسان ہوگا جتنا سمجھ لیا گیا ہے؟ اگر نتائج کی پروا کیے بغیر فیصلے کیے جاتے ہیں تو اگلے انتخابات جس ماحول میں ہوں گے‘ اس میں سارا اختیار نظامِ انصاف کے پاس آ جائے گا۔ خان صاحب عدلیہ کو واحد امید قرار دیتے ہیں تو دوسری جماعتیں عدلیہ کو جانبدار کہتی ہیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ میں انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت کے وقت عدالت کے باہر پی ڈی ایم کا احتجاج ہو رہا تھا جبکہ قومی اسمبلی اجلاس میں چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان کے خلاف مس کنڈکٹ کا جائزہ لینے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کی منصوبہ بندی ہو رہی تھی۔وزیر دفاع خواجہ آصف کہہ رہے تھے کہ عدلیہ میں ایک گروہ فیصلے نہیں بلکہ سیاست کر رہا ہے اور یہ کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پارلیمان اپنا اختیار استعمال کرے اور ان کے خلاف ریفرنس دائر کیا جائے۔ پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی کال پر سپریم کورٹ کے باہر دھرنے کے اعلان کے بعد مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے قافلوں کی شکل میں اسلام آبادمیں پہنچ چکے ہیں۔ سپریم کورٹ کے سامنے پی ڈی ایم کے احتجاج میں عوامی نیشنل پارٹی کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ احتجاج اور جلسے کی حد تک اتحادی جماعتوں کا اتفاق ہے البتہ دھرنے پر اتفاقِ رائے موجود نہیں۔ اس کے باوجود مولانا فضل الرحمان نے دھرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ وفاقی وزرا نے مولانا فضل الرحمان کو سپریم کورٹ کے سامنے احتجاج کے بجائے ڈی چوک میں احتجاج کی تجویز دی تھی مگر وہ قائل نہیں ہوئے۔ پی ڈی ایم کے عوامی اجتماع اور احتجاج کی ٹائمنگ کئی حوالوں سے اہم ہے۔ اس احتجاج کے کئی مقاصد ہیں۔ 14مئی کو انتخابات کے لیے فنڈز جاری نہ کر کے متوقع فیصلے سے بچنا محض ایک پہلو ہے جبکہ اس احتجاج کا بنیادی پہلو سیاسی ہے۔ پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی کوشش تھی کہ اس احتجاج کو پُرامن رکھا جائے‘ قافلوں کی روانگی سے پہلے انہیں پُرامن رہنے کی تلقین بھی کی گئی۔ احتجاج میں نو مئی کے واقعات اور سپریم کورٹ کے سامنے ہونے والے جلسے کو قوم کے سامنے بطور مثال پیش کیا گیا کہ ایک طرف چند سو افراد نے جلاؤ گھیراؤکی کوشش کی جبکہ دوسری طرف بڑی تعداد میں لوگ پرامن رہے۔ اس احتجاج کے ذریعے نو مئی کے جلاؤ گھیراؤ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے بال دوبارہ سیاستدانوں کے کورٹ میں پھینک دی ہے۔ تحریک انصاف نے مذاکرات کے پہلے تین ادوار میں 14مئی کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی شرط رکھی تھی‘ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ پی ٹی آئی نے14مئی گزرنے کے بعد سپریم کورٹ سے کسی بڑے فیصلے کی امید قائم کر لی تھی‘ مگرایسا نہیں ہوا۔ اب اگر دوبارہ مذاکرات شروع ہوتے ہیں تو تحریک انصاف کی پوزیشن دو اعتبار سے کمزور ہو گی‘ ایک یہ کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث تحریک انصاف کے کارکنان کے خلاف درج مقدمات۔ نگران وزیراعلیٰ کے مطابق اب تک پنجاب میں گھیراؤ جلاؤ کے مختلف واقعات میں چھ ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔ اپنے کارکنوں کو ان مقدمات سے بچانا تحریک انصاف کے لیے آسان نہیں ہو گا۔ دوسری وجہ بظاہر یہ ہے کہ سپریم کورٹ بادی النظر میں ایسا فیصلہ دینے سے گریزاں ہے جس کے بعد ساری ذمہ داری عدالت پر آن پڑے؛چنانچہ درمیانی راستے میں ہی سب کا فائدہ ہے‘ یہ راستہ سیاستدانوں نے نکالنا ہے‘لہٰذا جو مہلت مل رہی ہے اس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔ پاک فوج نے نو مئی کو یومِ سیاہ قرار دیا ہے‘ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے اس میں پیغام ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved