غزوۂ بنو قریظہ کے واقعات سے واضح ہے کہ ہر قدم پر یہودیوں کا گھٹیا پن اور اہلِ اسلام کی اخلاقی برتری ثابت ہوئی۔ جب بنو قریظہ نے دیکھا کہ جھنڈا حضرت علیؓ بن ابی طالب کے پاس ہے تو وہ سہم گئے، مگر اپنی دائمی عداوت اور عناد کے ہاتھوں مجبور ہوکر انہوں نے توہین کا ارتکاب کرنا شروع کر دیا (العیاذ باللہ) مؤرخ محمد احمد باشمیل اس واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ان پاکیزہ ہستیوں کی شان میں جو مغلظات بدطینت یہودیوں کی زبانوں سے نکلے، وہ اس قدر اذیت ناک تھے کہ مؤرخین نے ان کو بیان کرنے کی سکت بھی اپنے اندر نہیں پائی۔ اس کے جواب میں مسلمانوں اور ان کے قائد حضرت علیؓ بن ابی طالب نے کمال صبر کا مظاہرہ کیا۔ جواب میں کوئی گالی اپنی زبان سے نہیں نکالی۔حضرت علیؓ نے اپنے ساتھیوں کی تسلی کے لیے فرمایا کہ سب وشتم ہمارا شیوہ نہیں۔ ہمارے اور ان کے درمیان تلوار فیصلہ کردے گی۔ (غزوہ بنو قریظہ از محمد احمد باشمیل، ص165 تا 166)
حضرت علیؓ کو اس بات کا خدشہ تھا کہ جب آنحضورﷺ یہاں بنفس نفیس تشریف لے آئیں گے تو ان بد بخت یہودیوں کی زبانوں سے وہی مغلظات پھر نکلیں گے۔ یہ صورتِ حال پیدا ہوئی تو جاں نثار صحابہ کرام کے علاوہ خود آنحضورﷺ کو بھی اس سے اذیت پہنچے گی۔ آپؓ نے خدمت اقدس میں پہنچ کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپﷺ یہیں پر قیام فرمالیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں‘ میں قلعوں کے قریب جائوں گا۔ حضرت علیؓ نے عرض کیا: یہ بڑے خبیث لوگ ہیں آپﷺ ان سے فاصلے پر ہی رہیں تو بہتر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''علی! شاید تم نے ان کی زبان سے اذیت ناک گالیاں سنی ہوں گی؟‘‘ حضرت علیؓ نے فرمایا: جی ہاںیا رسول اللہﷺ! ایسا ہی ہے۔ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا:'' نہیں علی! تم کوئی فکر نہ کرو۔ جب یہ شریر لوگ، مجھے دیکھیں گے تو (ان پر ایسا رعب طاری ہوگا کہ) ایسی اول فول بکنے کی انہیں ہوش ہی نہیں رہے گی؛ چنانچہ آپ بنو قریظہ کے قلعوں کے قریب پہنچ گئے۔ (سیرت ابن ہِشام، ج: 2، ص: 234 تا 235)
جب نبی اکرمﷺ یہاں آپہنچے، جہاں سے آپﷺ کی آواز قلعہ بند یہودیوں تک پہنچ سکتی تھی اور ان کی آواز آپﷺ تک آسکتی تھی تو آپﷺ نے انہیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا '' اے بندروں کے بھائیو اور طاغوت کی بندگی کرنے والو!کیا اللہ نے تمہیں رسوا اور ذلیل نہیں کر دیا؟کیا تمہارے اوپر اللہ کے انتقام کا کوڑا نہیں برسا؟‘‘ یہودیوں پر ایسا رعب طاری تھا کہ جیسے ان کی زبانیں گنگ ہوگئی ہوں۔ آنحضورﷺ نے ان کے بارے میں جو بات کہی تھی یہ قرآن ہی کے الفاظ ہیں جو اللہ رب العالمین نے ان کے متعلق ارشاد فرمائے ہیں۔ یوں تو قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر ان کا تذکرہ ہے لیکن سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 60 خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ ارشادِ ربانی ہے : ''پھر کہو کیا میں ان لوگوں کی نشاندہی کروں جن کا انجام خدا کے ہاں فاسقوں کے انجام سے بھی بدتر ہے؟ وہ جن پر خدا نے لعنت کی، جن پر اس کا غضب ٹوٹا، جن میں سے بندر اور سُور بنائے گئے اور جنہوں نے طاغوت کی بندگی کی ان کا درجہ اور بھی زیادہ بُرا ہے۔ اور وہ سَوَائُ السّبیل (سیدھے راستے) سے بہت زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ‘‘۔
آنحضورﷺ نے ان سے اپنی شان میں ان کی مغلظات کے بارے میں پوچھا تو ان جھوٹے لوگوں نے حلف اٹھا کر کہا کہ ہم نے تو کوئی گالی نہیں دی۔ اس کے بعد انہوں نے کہا: ''اے ابو القاسم! آپﷺ نے ہمیں جس انداز میں خطاب کیا، یہ تو آپﷺ کا طریقہ اور شان نہیں تھی‘‘۔ یہودیوں کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب انہیں یہ خطرہ نہ ہو کہ ان کا سر توڑنے والی کوئی قوت بھی موجود ہے تو وہ قساوتِ قلبی، فحش گوئی، ظلم و ستم اور انسان دشمنی کی ہر حدکو پھلانگ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس جونہی وہ خود کو کسی خطرناک صورتِ حال اور مصائب کے نرغے میں گھرا ہوا محسوس کرتے ہیں تو انتہائی عجزو انکسار، منت سماجت اور خوشامد و تملق کے لب و لہجے میں مخاطب ہوتے ہیں۔ چند لمحات میں سانپ کی طرح کینچلی بدل لینا یہودیوں کی تاریخ کا خاصہ ہے۔
مسلمانوں نے یہودیوں کے قلعوں کو چاروں جانب سے گھیرے میں لے لیا۔ اب یہودی باہر کی دنیا سے بالکل کٹ گئے تھے۔ ان کے کھیت اور باغات مسلمانوں کے قبضے میں تھے۔ شہر کے اندر جمع سازوسامان اور رسد و خوراک اگرچہ بہت بڑی مقدار میں تھی مگر ظاہر ہے کہ باہر سے رسد رسانی نہ ہوسکے تو بڑا ذخیرہ بھی زیادہ دیر ساتھ نہیں دے سکتا۔ محاصرے کی طوالت سے ذخیرہ شدہ خوراک ختم ہوتی جارہی تھی۔ محاصرے کی وجہ سے تمام بیرونی رابطے منقطع ہوچکے تھے، کہیں سے کسی مدد گار کے آنے کی کوئی توقع نہ تھی۔ پوری آبادی میں ایک غیر یقینی کی کیفیت اور بد دلی و مایوسی پھیل گئی تھی۔ ہر جنگ کی طرح اس جنگ میں بھی نبی اکرمﷺ کی کمان پوسٹ قائم کی گئی تھی۔ یہودیوں کے قلعوں کے باہر ان کے باغات اور کھیتوں میں کئی کنویں تھے۔ ان میں سے ایک پر آنحضورﷺ کے لیے کمان پوسٹ کے طور پر ایک خیمہ لگا دیا گیا تھا۔ آنحضورﷺ یہاں سے ہدایات بھی جاری کرتے تھے اور مشاورت بھی یہیں ہوتی تھی۔ آنحضورﷺ کی حکمت عملی یہ تھی کہ یہودی ہتھیار ڈال دیں۔ آپﷺ قتل و خون ریزی سے بچ کر قلعوں کو فتح کرناچاہتے تھے۔ اسی لیے آپﷺ نے کئی دنوں تک بڑے صبر و تحمل کے ساتھ یہ محاصرہ جاری رکھا۔
یہودیوں میں سے کئی علما نے آخری نبی کی پیشین گوئی کی تھی۔ ان علما میں سے ایک مشہور عالم ابنِ خراش القریظی تھا۔ اس نے اپنے ایک خطبے میں‘ جسے کعب بن اسد اور کئی دیگر یہودی سرداروں نے سنا تھا‘ واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اس بستی میں ایک نبی عنقریب ظہور پذیر ہوگا۔ اے بنی قریظہ اس کی آمد پر اس کی اتباع کرنا۔ کعب بن اسد نے کہا: اب اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ وہی نبی ہے، جس کی طرف عالم ربانی ابنِ خراش نے اشارہ کیا تھا لیکن بنی قریظہ نے اپنے سردار کعب بن اسد کی بات سننے سے بھی انکار کر دیا۔ جب بنو قریظہ نے اس کی یہ تمام نصیحتیں مسترد کر دیں تو پھر اس نے ایک اور تجویز پیش کی۔
اس نے کہا کہ اب بچ نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہے۔ صرف یہی صورت باقی ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو قتل کرو اور تلواریں سونت کر قلعے سے باہر نکلو اور بہادروں کی طرح لڑو ورنہ بزدلوں کی طرح مارے جائو گے اور تمہارے بیوی بچوں کا بھی کوئی مستقبل نہ ہوگا۔ بنو قریظہ کے بزدل یہود نے اس کی اس تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔ اس نے کہا: اچھا پھر یہ بھی نہیں مانتے تو سبت کی رات کو حملہ کردو۔ انہوں نے کہا کہ نہیں ہم اپنے سبت کو کیوں خراب کریں۔ مؤرخ ابن ہشام کہتا ہے کہ اس کے بعد یہ شخص بالکل اپنی قوم سے مایوس ہوگیا۔
پچیس دن رات کے اس محاصرے نے بنو قریظہ کے اوسان تو خطا کر ہی دیے تھے، پورے عرب میں پھیلی ہوئی اسلام دشمن قوتیں بھی دم بخود ہو کر بلکہ ٹِھٹک کررہ گئیں۔ا ن کی حمایت میں نہ تو ان کے بھائی بندخیبر، تیماء اور تبوک سے آئے، نہ ان سے خفیہ دوستیاں گانٹھنے والے کفار و مشرکین نے ان کے حق میں کوئی آواز بلند کی۔ ایک عجیب بے بسی کا عالم تھا۔ بنو قریظہ کے سرداروں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہیے تو یہی بات ان کی سمجھ میں آئی کہ اب جنگ لڑنا اور دفاع کرنا ان کے بس میں نہیں۔ اس لیے بچ نکلنے کا کوئی راستہ تلاش کیا جائے۔ بچ نکلنے کا ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ غیر مشروط ہتھیار ڈال دیتے، دوسرا یہ کہ نبی اکرمﷺ کو اختیار دیتے کہ وہ فیصلہ کردیں۔ انہوں نے ان دونوں میں سے کوئی راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ انہوں نے کہا کہ ان کے معاملے کا فیصلہ سردار بنواوس‘ حضرت سعد بن معاذؓ کردیں۔
ہتھیار ڈالنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہ تھا۔ انہوں نے آنحضورﷺ کے سامنے درخواست پیش کی کہ انہیں اپنے سامان اور اہل و عیال کے ساتھ یہاں سے نکل جانے کی اجازت دی جائے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم کوئی شرط نہ لگائو۔ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دو، پھر ہم دیکھیں گے کہ کیا فیصلہ کرنا ہے۔ انہوں نے کئی مشروط پیشکشیں کیں لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈالو۔ یہودیوں نے مجبور ہو کر ہتھیار ڈالنے کا فیصلہ کیا تو آپﷺ نے ان کے مردوں کو الگ کر دیا اور عورتوں اور بچوں کو الگ کر دیا۔
حضرت سعد بن معاذؓ جنگِ خندق میں دشمن کا تیر لگنے سے شدید زخمی ہوگئے تھے اور زخمی ہونے ہی کی وجہ سے اس محاصرے میں شریک نہیں تھے۔ نبی اکرمﷺ نے بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوتے ہوئے اہلِ مدینہ کو جن باتوں کی تلقین فرمائی، ان میں حضرت سعدؓ کی دیکھ بھال اور صحت کا خیال رکھنے کی ہدایت بھی شامل تھی۔ یہودی حضرت سعدؓ کی ثالثی پر اصرار کررہے تھے کیونکہ حضرت سعد بن معاذؓ کا قبیلہ زمانۂ جاہلیت میں بنو قریظہ سے دوستانہ اور حلیفانہ تعلق رکھتا تھا۔یہودیوں کا فیصلہ کیسے ہوا؟ اس کی تفصیلات اگلے کالم میں ملاحظہ فرمائیں۔ (جاری)
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved